حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ


سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا نام عمر ، کنیت ابوحفص اور لقب فاروقِ اعظم ہے۔ آپ کا شجرۂ نسب آٹھویں پشت میں حضور نبی اکرم ﷺ کے خاندانی شجرہ سے ملتا ہے۔ آپ واقعہ فیل کے تیرہ سال بعد پیدا ہوئے۔ آپ نے نبوت کے چھٹے سال ستائیس برس کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ آپ اسلام قبول کرنے والے چالیسویں مرد تھے۔ آپ مرادِ مصطفی تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے دعا فرمائی تھی : اے اللہ عمر بن خطاب اور ابوجہل بن ہشام میں جو تجھے پیارا ہو‘ اس سے اسلام کو عزت عطا فرما۔ ایک روایت میں اس طرح ہے کہ آپ نے بالخصوص عمر بن خطاب کے حق میں دعا فرمائی کہ اے اللہ! اسے مسلمان بناکر اسلام کو عزت و قوت عطا فرما۔ چنانچہ حضور نبی اکرم ﷺ کی یہ دعا بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام سے مشرف ہوئے۔ آپ کے قبول اسلام کے بعد اسلام کو قوت و غلبہ نصیب ہوا۔ آپ بلا خوف و خطر کفار کے سامنے اپنے اسلام کا اظہار کرنے لگے۔ آپ کے ایمان لانے کے بعد مسلمان اعلانیہ عبادات کرنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مسلمان ہونا اسلام کی فتح تھی ۔ ان کی ہجرت نصرتِ الٰہی تھی او ر ان کی خلافت رحمتِ خداوندی تھی۔ ہم میں سے کسی کی یہ ہمت و طاقت نہیں تھی کہ ہم بیت اللہ شریف کے پاس نماز پڑھ سکیں مگر جب حضرت عمررضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے تو انہوں نے مشرکین سے اس قدر جنگ وجدال کیا کہ انہوں نے عاجز آکر مسلمانوں کا پیچھا چھوڑ دیا تو ہم بیت اللہ شریف کے پاس اطمینان سے علانیہ نماز پڑھنے لگے ۔ (اسد الغابۃ: 4؍163)
آپ کی ہجرت بھی بے مثال تھی۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے علاوہ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے اعلانیہ ہجرت کی ہو۔ جب حضر ت عمر رضی اللہ عنہ ہجرت کی نیت سے نکلے تو آپ نے اپنی تلوار گلے میں لٹکائی اور کمان کندھے پر اور ترکش سے تیرنکال کر ہاتھ میں لے لیا ۔ پھر بیت اللہ شریف کے پاس حاضر ہوئے ۔  وہاں بہت سے اشرافِ قریش بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ نے اطمینان سے کعبہ شریف کا طواف کیا ۔ پھر بہت اطمینان سے مقامِ ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی ۔ پھر اشراف قریش کی جماعت کے پاس آکر ایک ایک شخص سے الگ الگ فرمایا : ’’تم لوگوں کے چہرے بدشکل ہوجائیں ، بگڑ جائیں اور تمہارا ناس ہو جائے‘‘ ۔پھر فرمایا: ’’جو شخص کہ اپنی ماں کو بے اولاد، اپنے بچوں کو یتیم اور اپنی بیوی کو بیوہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اس وادی کے اس طرف آکر میرا مقابلہ کرے ‘‘۔آپ کے اس طرح کی للکار کے باوجود کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ آپ کا سامنا کرسکے۔ (تاریخ الخلفاء: 79)
رسول اللہ ﷺ نے آپ کے کثیر مناقب و فضائل بیان فرمائے ہیں۔ چنانچہ فرمانِ مصطفی ﷺ ہے: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوتے۔ (ترمذی: 3706) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ میں نگاہِ نبوت سے دیکھ رہاہوں کہ جن و انس کے شیاطین میرے عمر کے خوف سے بھاگتے ہیں۔ (مشکاۃ المصابیح: 6049) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور قلب پر حق کو جاری فرمادیا ہے۔ (ترمذی: 3702) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے عمر سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی ۔اور جس نے عمر سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور خدائے تعالیٰ نے عرفہ والوں پر عموماً اور عمر پر خصوصاً فخر و مباہات کی ہے ۔ جتنے انبیائے کرام علیہم السلام دنیا میں مبعوث ہوئے ، ہر نبی کی امت میں ایک محدَّث ضرور ہوا ہے اور اگر کوئی محدَّث میری امت میں ہے تو وہ عمرہیں ۔  (المعجم الاوسط: 6726)
حضر ت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ قرآن مجید آپ کی رائے کے موافق نازل ہوتا تھا ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائیں موجود ہیں ۔ (کنزالعمال: 35868) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اگر کسی معاملہ میں لوگوں کی رائے دوسری ہوتی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے دوسری ہوتی تو قرآن مجید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے موافق نازل ہوتا تھا ۔ (ترمذی: 3702) حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ ان کے رب نے ان سے اکیس باتوں میں موافقت فرمائی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ دن رات خلافت کے کام انجام دیتے تھے مگر بیت المال سے کوئی خاص وظیفہ نہیں لیتے تھے ، جب آپ خلیفہ بنائے گئے تو کچھ دنوں کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کرکے ار شاد فرمایا کہ میں پہلے تجارت کیا کرتا تھا اور اب تم لوگوں نے مجھ کو خلافت کے کام میں مشغول کردیا ہے تو اب گزارہ کی صورت کیا ہوگی؟ لوگوں نے مختلف تجاویز پیش کیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ متوسط طریقہ پر جو آپ کے گھر والوں کے لیے اور آپ کے لیے کافی ہوجائے وہی مقرر فرمالیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس رائے کو پسند فرمایا اور قبول کرلیا ۔ اس طرح بیت المال سے متوسط مقدار آپ کے لیے مقرر ہوگئی ۔ (کنز العمال:35774)آپ بے مثال حکمران تھے، آپ کے علاوہ تاریخ میں کسی ایسے حاکم کی مثال نہیں ملتی جس نے عوام الناس کے درد کو محسوس کرنے کے لیے اپنی ذات پر ایسی مشقت طاری کی ہو کہ اس کا رنگ ہی تبدیل ہوگیا ہو۔ آپ خوفِ خدا رکھنے والے تھے، آپ کے پیش نظر آخرت کی وہ آزمائشیں تھیں جن کے آگے دنیا کی تکالیف کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ آپ کے پیش نظر حکمرانوں سے متعلقہ وہ تمام فرامین مصطفیٰ ﷺ تھے جن میں اُن کے لیے نصیحتیں کی گئیں ہیں۔ جیساکہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کسی رعایا کا نگران بنایا پھر اس نے ان کی خیر خواہی کا خیال نہ رکھا وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔(بخاری: 7150) اس مضمون کی احادیث کے پیشِ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد ہر وقت رعایا کی خبر گیری فرمایا کرتے تھے ۔آپ رعایا کی خبر گیری کے لیے بدوی کا لباس پہن کر مدینہ طیبہ کے اطراف میں راتوں کو گشت کرتے تھے ۔ صحرائے عرب کی چلچلاتی دھوپ اور رات کی گھٹا ٹوپ سیاہی بھی رعایا کی خبر گیری سے آپ کو نہ روک سکی۔ آپ کی سیرتِ طیبہ کے بے شمار ایسے واقعات ہیں جس میں آپ نے اپنی رعایا کی خبر گیری کرتے ہوئے ان کے مختلف مسائل کو حل فرمایا۔ ایک مرتبہ آپ اپنے خادم کے ساتھ رات کے وقت مدینہ منورہ کا دورہ فرمارہے تھے، ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں موجود تھی، جو رات کے وقت اپنے بچوں کو بہلانے کے لیے ہنڈیا میں پانی ڈال کر چولہے پر چڑھائے بیٹھی تھی، سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اس کی داد رسی فرمائی، اپنے کاندھوں پر کھانے کا سامان لے کر آئے، خود اپنے ہاتھوں سے پکا کر اس خاتوں کے بچوں کو کھلایا، جب تک وہ بچے سونہ گئے آپ رضی اللہ عنہ وہیں رہے ، بعدازاں آپ وہاں سے تشریف لے آئے۔(الکامل فی التاریخ: 2؍453)آپ رضی اللہ عنہ عدل و انصاف کے معاملے میں بہت حساس تھے، آپ نے اپنی سلطنت میں ایسا عدل وانصاف قائم فرمایا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ احتساب کے معاملہ میں آپ اپنے اعزاء و اقرباء کا بھی کڑا اور سخت حساب لیاکرتے تھے۔
آپ نے اپنے دور خلافت میں بیت المقدس کو فتح کرنے اور قیصر وکسریٰ کو پیوند خاک کر کے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرایا۔ اس کے علاوہ آپ کے عہد خلافت میں شام، مصر، عراق، جزیرہ خوزستان، عجم، آرمینہ، آذر بائیجان، فارس، کرمان، خرسان اور مکران سمیت دیگر کئی علاقے فتح کئے گئے۔آپ نے عدالتیں قائم کیں، جیل خانے قائم کیے، پولیس کا محکمہ بھی آپ ہی نے قائم کیا۔ آپ نے نہریں کھداوئیں، مختلف شہروں میں مہمان خانے قائم کروائے ۔ الغرض آپ نے امورِ ریاست کو ایک بہترین اور منظم انداز میں چلاکر رہتی دنیا تک آنے والے حکمرانوں کے لیے عمدہ مثال اور نمونہ قائم کیا۔
آپ رضی اللہ عنہ کثیر اسلامی فتوحات کے بعد 63برس کی عمر میں یکم محرم الحرام کو شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔ آپ نے رب العزت کی بارگاہ میں دعا کی تھی کہ اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت عطافرما اور اپنے رسول ﷺ کے شہر میں موت نصیب فرما۔ (بخاری: 1890)آپ کی دعا اس طرح قبول ہوئی کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے مجوسی غلام نے خنجر سے اس وقت آپ پر حملہ کیا جب آپ نمازِ فجر کی امامت فرمارہے تھے۔ چند دن زخمی رہنے کے بعد آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کو حضور نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments