چترال گول، عزت مآب چیف جسٹس اور ہم رعایا


کل چترال گول جا رہے تھے۔ جس ہوٹل میں ہماری رہائش ہے یعنی ’اتالیق بازار چترال‘ سے چترال گول گاڑی میں تقریباً ایک گھنٹے سے کم مسافت پر ہے۔ ایک باریک سی پٹی پر مسلسل اوپر کی طرف چڑھنا پڑتا ہے۔ راستہ اتنا تنگ ہے کہ مخالف سمت سے گاڑی آئے تو دونوں گاڑیوں کو رک کر ایک دوسرے کو راستہ دینا پڑتا ہے۔ ہم دوپہر کوئی ڈھائی بجے چترال گول کے لئے نکلے۔ چترال گول میں وائلڈ لائف والوں نے جانوروں اور پرندوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہر قسم کے شکار پر پابندی لگا دی ہے۔

غیر قانونی شکار پر تو پابندی شاید پورے ملک میں ہے لیکن چترال گول میں نہ صرف پابندی ہے بلکہ اس علاقے میں شکار کو مکمل طور پر ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لئے سٹاف ہائیر کیا گیا ہے، انہیں اختیار اور وسائل دیے گئے ہیں، ایک بڑے علاقے کے ارد گرد باڑ لگا کر جنگلی جانوروں کا وہاں سے نکلنا ناممکن بنا دیا گیا ہے تاکہ یہ یہاں سے باہر نکل کر لوگوں کا شکار نہ بنیں۔

نتیجہ اس تمام کاوش کا یہ نکلا ہے کہ یہاں کئی انواع کے پرندے اور جانور لوگوں کو ہر وقت دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ مارخور جو کہ پاکستان اور پاکستان سے باہر لوگوں کا مرغوب شکار ہے اور جن کا شکار ہم اپنے عرب آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے گاہے بہ گاہے فراہم کرتے رہتے ہیں، اس علاقے میں اب کثرت سے دیکھا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق سردیوں میں کبھی کبھی مارخور پہاڑوں سے اتر کر آبادی میں نکل آتے ہیں اور لوگوں کو کھلے عام دیدار بانٹتے ہیں۔

تحفظ چیز ہی ایسی ہے، اس کا احساس آپ کو اپنا حسن دکھانے کا موقع دیتا ہے۔ یہی احساس تحفظ جب معاشروں کو نصیب ہوتا ہے تو لوگ آزادی کے ساتھ اپنی آراء اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی پوشیدہ صلاحیتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں اور پورے معاشرے کے لئے باعث خیر اور باعث فیض بنتی ہیں۔ مارخور کو بھی جب لگا کہ لوگوں کے شر اور درندگی سے محفوظ ہے تو کبھی کبھار آ کر چند لمحوں کے لئے ان کی معاشرت کا حصہ بنتے ہیں اور ان کے تمدن اور ثقافت کو خوبصورتی بخش کر پہاڑوں میں اپنی پناگاہوں کو واپس ہو لیتے ہیں۔ چترال کے لوگوں کو بھی داد دینی بنتی ہے، یہاں کے لوگوں کے بہت سارے خوبصورت حوالوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ لوگ قانون کا احترام کرتے ہیں اور اپنے بھلائی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کا حصہ بن کر ان کو لاگو کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔

ہم جونہی چترال گول کے دروازے پر پہنچے، سیکورٹی گارڈز نے ہمیں روک لیا۔ بتایا گیا کہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ چترال گول میں جلوہ افروز ہوئے ہیں، اس لئے آج عام لوگوں کے جانے پر پابندی ہے۔ ہمارے مقامی دوست صہیب انتہائی سلجھے ہوئے انسان ہیں، صہیب نے بحث بالکل نہیں کی اور واپس ہونے کے لئے تیار ہوئے۔ وہاں پر موجود سینئر اہلکار نے دور سے صہیب کو پہچان لیا اور ہمیں اندر جانے کی اجازت ہمارے کسی قسم کے اصرار کے بغیر دے دی۔ صہیب کے مرحوم والد صاحب کی چترال کے لئے خدمات کی ایک دنیا معترف ہے۔ انہوں نے یہاں پر تعلیم کے فروغ کے لئے بہت کام کیا ہے۔ وائلڈ لائف سے ڈائریکٹر کے عہدے پر ریٹائرڈ ہوئے اور چترال میں اس حوالے سے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ اجازت مرحمت ہوئی تو لگ بھگ ایک گھنٹے میں اپنی منزل پر پہنچے۔

یہاں تو نظارہ مختلف تھا، سرکاری گاڑیوں کی بہار آئی ہوئی تھی، ہر طرف سیکیورٹی کے دستے تعینات تھے۔ نوجوان بندوقیں تھامے جگہ جگہ دستوں کی صورت کھڑے تھے۔ چیف جسٹس کی مبارک آمد تو مجھے کسی شہزادے کی آمد جیسی لگی، جس کو اس کی رعایا سے بچانے کے لئے رعایا میں سے ہی چنے گئے لوگوں کو بندوقیں فراہم کی گئی ہوں۔ ہم نے جونہی گاڑی پارک کی۔ وہاں موجود مقامی پولیس نے انتہائی مہذب انداز میں ہمیں ایک جانب جانے کی ہدایت دی۔

جس جانب عزت مآب جسٹس مسٹر جسٹس موجود تھے، وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ہم ایک طرف ہو لئے اور پہاڑوں کی خوبصورتی میں خود کو گم کرنے کی کوشش میں لگ گئے لیکن یہ احساس جان نہیں چھوڑ رہا تھا کہ اپنے عہدوں کے بل بوتے کچھ لوگ کس طرح پورے علاقے کو یرغمال بنا کر ہم جیسے عامیوں کو پیچھے دھکیل سکتے ہیں؟ یہ جمہوریت ہے تو بادشاہت کیسی ہوتی ہے؟

خیر ہم ایک پگڈنڈی پر آگے بڑھ گئے اس امید پر کہ عزت مآب چیف جسٹس واپس ہوں تو ہم بھی اس مقام تک رسائی حاصل کر سکیں جہان سے مارخور کے نظر آنے کا امکان تھا۔ چترال گول کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں آپ کو ایک وقت میں کئی رنگوں کے پہاڑ دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ کہیں پر صرف پتھر، کہیں جہاں تہاں سبزہ اور سبزے کے بیج خوش نما پتھر، کہیں پر جگہ جگہ درخت تو کہیں پر درختوں میں مکمل ڈھکے ہوئے اور ایک جگہ پر برف میں ڈھکی ہوئی ایک خوبصورت چوٹی۔ چترال گول میں مختلف پرندوں کی دل موہ لینے والی پروازیں اور دل میں اترنے والی ان کی آوازیں گاہے گاہے میسر تھیں۔ ہم اس انتظار میں تھے کہ کب عزت مآب چیف جسٹس صاحب وداع ہوں اور ہمیں بھی اذن ہو تاکہ اس مقام پر جا سکیں جو خاص طور پر پہاڑوں کے نظارے اور مارخور کے دیدار کے لئے بنایا گیا ہے۔

دیر کافی ہو چکی تھی اور ہمارے سمیت بہت سارے لوگ اب تقریباً مایوس ہو چکے تھے۔ ہم نے واپسی کا ارادہ کیا کہ عزت مآب اپنی رعایا کو عزت دینے کے موڈ میں بالکل نہیں تھے، شاید وہ اس احساس سے محظوظ ہو رہے تھے جو انہیں تفاخر پخش رہا تھا۔ تفاخر کا یہ احساس وہ پہاڑوں پر بندوق برداروں کی ڈیوٹی، درجنوں گاڑیوں کی جھرمٹ اور ان کے جانے کے منتظر عامیوں کی موجودگی سے کشید کر رہے تھے۔ واپسی کے لئے ہم گاڑی میں بیٹھے تو یکایک محصور مقام سے کئی لوگ برآمد ہوئے۔

وضع قطع اور لباس سے ایک آدمی چیف جسٹس لگ رہا تھا۔ سیکورٹی پر مامور ایک آدمی نے ہمیں بتایا کہ چیف جسٹس جانے والے ہیں، آپ اگر چاہیں تو اب اس مقام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم سب گاڑی سے اترے، اسد نے ایک مرتبہ پھر پوچھا؛ ’چیف جسٹس کیا ہوتا ہے؟‘ ۔ میں نے اشارے سے کہا؛ ’چیف جسٹس یہ ہوتا ہے‘ ۔ ہم بالآخر مقام مخصوص تک پہنچ ہی گئے۔ مقامی سٹاف بہت محبت سے پیش آیا۔ دوربین فراہم کیے اور روایتی مہمانداری کا مظاہرہ کیا۔ مارخور کا دیدار بہت کوشش کے باوجود نصیب نہ ہو سکا وہ شاید چیف جسٹس کے رعب اور دبدبے سے ڈر کر کہیں پہاڑوں کے اوٹ میں چھپ گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments