مدینہ سے چین تک


حدیث مبارکہ کا مفہوم تو یوں ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین کیوں نہ جانا پڑے لیکن ہمارے وزیراعظم صاحب اپنے بیانیے میں ریاست مدینہ کا ذکر کرتے کرتے چین پر لٹو ہو گئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کے پاس اس کی کیا دلیل ہے۔ ویسے وہ ایک ہی سانس میں چین، یورپ، امریکہ اور ریاست مدینہ کی مثالیں دینے میں بھی معروف ہیں اور کسی بھی وقت اپنے کہے سے پلٹ بھی سکتے ہیں لیکن یہ کافی سنجیدہ معاملہ ہے۔

یہ خان صاحب ہیں اور یہ ہے ہماری ریاست۔ کوئی اور سیاست دان اگر اپنی ریاست کو اس عظیم ریاست مدینہ سے تشبیہ دیتا تو توہین مذہب کے الزام میں اپنے خلاف ملک گیر احتجاج کروا رہا ہوتا اور اب تک کسی ’منطقی انجام‘ تک پہنچ چکا ہوتا۔ خان صاحب چونکہ ریاست کے پسندیدہ حکمران ہیں سو انھیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔ ان سے ریاست کو اور ان کے چاہنے والوں کو اتنی محبت ہے کہ وہ جو بھی ارشاد فرماویں کہا جاتا ہے سبحان اللہ، اور اگر وہ صبح کے کہے سے شام ڈھلے بالکل پلٹ جائیں تو سبحان اللہ کے ساتھ ماشا اللہ بھی کہا جاتا ہے کہ خدا انھیں نظر بد سے محفوظ رکھے۔

وزیراعظم صاحب کی دیگر پسند و ناپسند کی طرح ان کا محبوب ریاست کا تصور بھی ہمیشہ سے ارتقا پذیر رہا ہے اور خدا جانے یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی ترجیحات مختلف ادوار کے ساتھ ساتھ گفتگو کے موقع محل کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہیں جو خود وزیراعظم صاحب کے بقول ایک عظیم مدبر کی پہچان ہے۔ یہ الگ بات کہ وہ کبھی کبھار قائداعظم کے اصولی موقف پر ڈٹے رہنے کے وصف کا ذکر بھی کر دیتے ہیں۔

البتہ وہ ایک موقف پر ابھی تک قائم ہیں اور وہ ہے اپوزیشن کو برا بھلا کہنا۔ یہی چورن بیچتے بیچتے ان کی حکومت کے تین سال گزر گئے اور شاید باقی دو سال بھی اسی سہارے گزر جائیں۔ ان کے وزرا کے پاس بھی حکومتی کارکردگی کے بارے میں کہنے کو کچھ خاص نہیں ہوتا سو وہ سب مل کر یہی قوالی کرتے پائے جاتے ہیں۔

خیر بات ہو رہی تھی ان کے ارتقا پذیر تصور ریاست کی۔ وہ اپنی بائیس سالہ مشہور جدوجہد کے آغاز میں یورپ کا بہت ذکر کرتے تھے۔ ان کے اس وقت کے ٹی وی ٹاک شوز اور بیانات میں ریاست مدینہ کا ذکر بہت کم اور یورپ کا بہت زیادہ تھا۔

جب ان کی جدوجہد کو ’طاقت‘ کی آشیر باد میسر آئی تو ان کا رنگ ڈھنگ ہی بدل گیا۔ پھر شاید حکومت دے نے کا وعدہ بھی کر لیا گیا۔ اس دوران کایا کلپ ہوئی اور ریاست مدینہ کا ذکر بہت زیادہ ہونے لگا۔ یہ ثواب کی غرض سے تھا یا سادہ لوح لوگوں کے جذبات سے کھیلنا مقصود تھا، لیکن یورپ کا ذکر کچھ وقت کے لیے ان کی تقاریر میں کم ہونے لگا۔

جب وہ والیٔ سعودی عرب کی گاڑی چلانا اعزاز سمجھ رہے تھے اس وقت ریاست مدینہ کا ذکر ان کے کلام میں زیادہ بار پانے لگا۔ حالانکہ یہ عجیب بات ہے کہ اس وقت سعودی ولی عہد اپنوں کی نظر میں ریاست کو مدنی تصورات سے دور لے جا رہے تھے۔ معترضین کے بقول وہ سینما ہالز کھلنے اور عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے جیسے حرام اقدامات اٹھا کر ریاست مدینہ کے تصور سے منحرف ہو رہے تھے لیکن اس وقت خان صاحب ان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے تھے اور وہ اور ان کے حواری ریاست مدینہ کا ذکر زور و شور سے کر رہے تھے۔ بعد میں معاملات بگڑ گئے۔ دوریاں اتنی بڑھیں کہ انھیں سعودی حکومت کی طرف سے امریکہ یاترا کے لیے دیا گیا طیارہ جلد واپس کرنے کا کہا گیا۔

یہاں سے ایک اور تبدیلی کا آغاز ہوا۔ اب خان صاحب کی محبت بتدریج ریاست مدینہ سے چین کی طرف منتقل ہونے لگی۔ پہلے بھی کبھی کبھار چین کا ذکر خیر کرتے تھے، جس کی وجہ شاید خارجہ پالیسی کا تذبذب کا شکار ہونا تھی۔ وہ وہاں سیکڑوں وزرا کو کرپشن کی وجہ سے پھانسی دیے جانے کا ذکر بھی فرماتے تھے جو تعداد ہمارے ملک میں اب تک بننے والے کل وزراء سے زیادہ تھی۔

اور اب پھر سے چین سے محبت شدت اختیار کر گئی ہے۔ امریکی نومنتخب صدر جو بائیڈن کا فون نہ کرنا بھی اس کی ایک اہم علامت ہو سکتی ہے کہ ہمارا قبلہ وقتی طور پر شاید پھر بدل رہا ہے۔ اور یہ کہ چین جیسی عوامی زبان بندی بھی تو ہمارے وزیراعظم کا آئیڈیل ہے۔ لیکن ان کی کارکردگی سے لگتا ہے شاید یہ آئیڈیل بھی زیادہ دیر تک ان کے کام نہ آ سکے اور انہیں جلد اس پر بھی نظر ثانی کرنی پڑے۔

مجھے ڈر ہے وہ دن دور نہیں جب وہ شمالی کوریا کا ذکر کرتے پائے جائیں گے کیونکہ ان کے ’سپورٹرز‘ کا درست آئیڈیل تو شمالی کوریا ہی ہو سکتا ہے۔ وہ خود بھی فرما چکے ہیں کہ مجھے عوام ہی ایسے ملے ہیں کہ جنھیں سدھارنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ وہ ساری زندگی مغربی جمہوریت کی تعریفیں کرتے رہے ہیں۔

میری ان معروضات کا ہر گز یہ مطلب مت لیجے گا کہ وہ جب یورپ اور مغرب کا ذکر زیادہ کرتے تھے تو اس وقت انگریزی ماحول کے زیر اثر تھے، اور بعد ازاں نیکوکاروں کے اثر میں آ کر ریاست مدینہ کا ذکر زیادہ کرنے لگے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ رخ چین کی طرف کبھی نہ موڑتے کیونکہ چین میں مذہبی آزادی تو یورپ اور امریکہ سے بھی کم ہے۔ تو پھر مسئلہ کیا ہے؟

مسئلہ خان صاحب کی نرگسیت ہے۔ وہ یورپ کو یورپ سے بہتر جانتے ہیں بلکہ حال ہی میں دورہ ازبکستان میں وہاں کے اہم ترین لوگوں سے خطاب کے دوران فرمایا کہ میں آپ کی تاریخ کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں۔ سو یہ محبوب ریاست کا ارتقا پذیر تصور بھی کسی کی صحبت یا ماحول کے زیر اثر نہیں ہے۔ یہ ان کی نرگسیت ہے جو انہیں ہمہ وقت کچھ الٹا سیدھا کہنے پر اکساتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments