چولستان کا گم نام ریلوے اسٹیشن


ہم ایک پرائمری سکول میں کھڑے تھے جس کی چار دیواری نہیں تھی۔ چولستان اسکول کے کمروں تک آ چکا تھا۔ صحن میں ریت بھری تھی۔ یوں لگتا تھا کہ بس چند دن میں پیاسا ریگستان سکول کی چھوٹی سی عمارت کو ایک ہی گھونٹ میں نگل جائے گا۔

چاردیواری نہیں تھی تو گویا پورا چولستان ہی اسکول کا صحن ٹھہرا۔ شمال میں چھوٹا سا گاؤں تھا جو درخت نہ ہونے کی وجہ سے ویران اور سنسان دکھائی دے رہا تھا۔ اسکول کے سامنے مشرق میں صحرائے چولستان کی بیابانی پھیلی تھی۔ مغرب میں ہاکڑا نہر گزر رہی تھی جس نے اپنے آس پاس ریگستان میں ہریالی بانٹ رکھی تھی۔ ابھی ابھی بارش کی بوندیں برس گئی تھیں تبھی ہر سو اڑتی ریت اور مٹی کو کچھ دیر کے لئے قرار مل چکا تھا۔

روہی کے سلگتے صحرا میں کھڑی پرائمری سکول کی یہ عمارت بالکل خاموش نہیں تھی۔ کچھ کہانیاں بھی بیان کر رہی تھی۔

’گورنمنٹ پرائمری سکول قریش ریلوے اسٹیشن‘ کی یہ عمارت کبھی ریلوے اسٹیشن ہوا کرتی تھی۔ یہ ہندوستان میں برطانوی راج کی ایک گمنام سی نشانی ہے۔ بہاولنگر کی تحصیل فورٹ عباس سے مروٹ اور منڈی یزمان کو جاتی سڑک پر تقریباً پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں بہاولنگر سے فورٹ عباس اور فورٹ عباس سے براستہ یزمان، بہاولپور تک ریلوے پٹڑی بچھائی گئی تھی۔ اس کا خرچ ریاست بہاولپور نے اپنے پلے سے ادا کیا تھا۔ اسی لیے اس کو دربار لائن بھی کہا جاتا تھا۔

دوسری جنگ عظیم میں انگریز سرکار نے فورٹ عباس سے بہاولپور ریلوے لائن اکھاڑ لی تھی۔ مقامی سکول ٹیچر عبدالستار کے مطابق انگریز حکومت ریلوے ٹریک کو برما لے گئی تھی۔ چولستان کا صحرا ریل انجن کی چھک چھک، ریل کی سیٹی اور ریلوے اسٹیشنوں کی رونق سے محروم ہو گیا۔ روہی کے ٹیلوں پر بسنے والے لوگ شہروں سے ایک دم بہت دور ہو گئے۔

پھر ہندوستان کا بٹوارہ ہوا۔ انگریز یہ دھرتی چھوڑ کر اپنے ملک چلے گئے۔ ریلوے لائن دوبارہ بچھانے کے منصوبے بھی ساتھ لے گئے۔ آج نا تو یہاں ریلوے لائن ہے اور نا ہی ریل گاڑی کا نشان۔ بس اس ریلوے لائن کی یاد دلانے کے لیے ریلوے اسٹیشنز کی عمارتیں باقی ہیں جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ کون جانے کب چولستان کی ریت میں خاک ہو جائیں۔

قریش ریلوے اسٹیشن اور روہی کے باسیوں نے عرصے سے ریل گاڑی کا منہ نہیں دیکھا۔ ریل گاڑی اور ریلوے لائن ماضی کے ریگستان میں کہیں دفن ہو گئی ہیں۔

قریش ریلوے اسٹیشن کی یہ خاموش عمارت لب سڑک کھڑی ہے اور جو راہ گیر اس کے پاس پل بھر کے لیے ٹھہر جاتا ہے اس کی طرف حیراں ہو کر نظر بھر دیکھتا ہے تو پھر یہ عمارت بولنے لگتی ہے۔ گزرے دنوں کی داستان سنانے لگتی ہے۔ اس ریلوے اسٹیشن کے ماتھے پہ تین زبانوں میں درج اس کا نام آج بھی موجود ہے۔ اردو، انگریزی اور ہندی (گرمکھی) کے تین سیاہ حروف بتا رہے ہیں کہ کبھی اس دھرتی پہ مسلمان، ہندو، سکھ اور انگریز سب مل کر بسیرا کرتے تھے۔ دکھ سکھ سانجھے اٹھا لیتے اور ایک ہی اسٹیشن سے ایک ہی گاڑی کے مسافر ہوتے تھے۔ وقت نے پلٹا کھایا تو اپنی ہی دھرتی پہ بیٹھے لوگ پرائے ہو گئے اور اپنا ہی دیس پردیس بن گیا۔ ریل کے ڈبوں میں جہاں کبھی قہقہے اور زندگی گونجتی تھی وہاں آدم خور موت غرانے لگی۔

ہندو، سکھ، انگریز یہ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔ ہم نے ہندی اور گرمکھی کو بھی دیس نکالا دے دیا۔ اب ریلوے اسٹیشن کی عمارت پرائمری سکول میں بدل چکی ہے۔ اس کی دیواروں پر لکھی ہوئی عبارتیں سب اردو میں لکھی ہوئی ہیں۔ جہاں کبھی گٹھڑیاں اٹھائے مسافر آتے تھے اب وہاں بستے لئے گاؤں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور کھیلتے کودتے ہیں۔ جن کمروں میں اسٹیشن ماسٹر، ٹکٹ کلرک اور دیگر عملہ ہوتا تھا انہی کمروں میں اب ہیڈ ماسٹر کا دفتر اور پہلی سے پانچویں تک کلاسیز منعقد ہوتی ہیں۔

جہاں کبھی کرایہ نامہ اور ریل گاڑیوں کے اوقات درج ہوتے تھے اس دیوار پہ اب پاکستان کا پرچم بنا ہے اور قومی ترانہ، اوقات کار اور فرمان قائد لکھے ہوئے ہیں۔ گورنمنٹ پرائمری سکول قریش ریلوے اسٹیشن میں ریلوے اسٹیشن کی ایک اور نشانی بچی ہوئی ہے۔ دیوار پر لکھی ایک عبارت ہے جو تین زبانوں میں کچھ کہہ رہی ہے۔ اردو میں یوں بول رہی ہے۔

”جانے سے پہلے اپنے ٹکٹ اور کریانہ کا امتحان اور فہرست کرایہ کا ملاحظہ کرو“
انگریزی میں لکھا ہے
EXAMINE YOUR TICKETS & CHANGE BEFORE LEAVING & SEE LIST OF FARES

شاید یہی بات گرمکھی میں بتا رہی ہے۔ انداز کیا ہے یہ کوئی سرحد پار کا دوست ہی بتا سکتا ہے۔ جن کے آباء کبھی اس ریلوے اسٹیشن آئے ہوں گے اور ان کی نظریں اسی فقرے پر پڑی ہوں گی۔

عبارت کے نیچے ٹکٹ گھر کی کھڑکی تھی جو ہمیشہ کے لیے بند ہو چکی ہے۔

قریش ریلوے اسٹیشن کے پاس ہی 285 ایچ آر نام کا ایک گاؤں ہے۔ صحرا میں واقع ہے تو اجاڑ سا دکھائی پڑتا ہے اور ریت، لو اور گرمی میں تپتا رہتا ہے۔ اسی گاؤں میں ایک ریٹائرڈ سکول ٹیچر ہیں جن کا نام عبدالستار ہے۔ گاؤں کے لمبردار بھی ہیں۔ ہم قریش ریلوے اسٹیشن کی عمارت دیکھنے گئے تو وہاں پہلے سے موجود تھے۔ سفید داڑھی اور ہنستے چہرے والے اس مقامی سکول ٹیچر نے اس پرانی عمارت اور اس پہ لکھی اتنی ہی پرانی عبارت کی حفاظت کی ہے۔

گئے دنوں کی چھوٹی سی یاد کو چونا پھیر کر مٹایا نہیں ہے بلکہ ان لفظوں کو زندہ رکھا ہے۔

عمارت میں دو کمروں کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ ریلوے اسٹیشن کی قدیم شکل برقرار رکھنے کے لئے نئے کمروں کو بھی پرانی عمارت کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔ صحرائے چولستان کے اس چھوٹے سے گاؤں کے پرائمری سکول کے استاد کی سوچ گاؤں کے مشرق میں پھیلے ریگستان کی طرح خشک اور اجاڑ نہیں ہے بلکہ بستی کے پچھم میں بہتی ہاکڑہ نہر کی طرح زندگی سے بھری ہے اور سڑک کے کنارے لہلہاتے دھان کے کھیت کی طرح سرسبز اور دلکش ہے۔

ہاکڑا نہر چولستان کے سینے پر بہتی ہے۔ جس نے روہی میں ریت کے اجاڑ ٹیلوں پر زندگی انڈیلنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں سے بل کھاتی گزرتی جاتی ہے آس پاس زمینوں کو سبزہ زار بناتی جاتی ہے۔ چک 283 ایچ آر کے قریب نہر پر ایک پل ہے جس سے کبھی ٹرین ہاکڑا نہر کو پار کرتی تھی۔ لوہے سے تعمیر کردہ اس پل پر ایک آہنی پلیٹ نصب ہے جس پہ یہ الفاظ ابھرے ہوئے ہیں۔

Jessop & Co Ltd
Engineers
Jamshedpur
1928
اس پلیٹ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ قریش ریلوے اسٹیشن 1928 میں تعمیر کیا گیا تھا۔

میں نے سوچا کہ زیادہ تر ریلوے اسٹیشنز کے نام قریبی گاؤں یا قصبے کے نام پر رکھے جاتے تھے۔ قریب قریش نامی کوئی گاؤں بھی نہیں تو اس ریلوے اسٹیشن کو یہ عربی نام کہاں سے ملا؟ اس علاقے کے پٹواری کے مطابق یہ علاقہ چونکہ ریاست بہاولپور کے نوابوں کا تھا جو عباسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے آباء کے علاقوں کے نام قریش، منصورہ، رصافہ، بغداد وغیرہ پر یہاں کے ریلوے اسٹیشنز کے نام رکھے۔ صحرائے چولستان میں یہ نام کافی لمبا سفر طے کر کے پہنچے ہیں۔ اب اللہ ہی جانے کہ اس مالی پٹواری کی بات میں کہاں تک صداقت ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد قریش ریلوے اسٹیشن کی یہ عمارت ویران رہی اور چولستان کے گرم موسموں میں جلتی رہی اور 1983 میں یہاں گورنمنٹ پرائمری اسکول کھل گیا۔ صحرا سکول کی عمارت کو دبوچ لینے کے قریب دکھائی دیتا ہے۔

امید ہے جب تک 285 ایچ آر گاؤں کا ریٹائرڈ سکول ٹیچر موجود ہے تب تک صحرا اس عمارت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

اس علاقے کے صحرا نشینوں کی ان بیابان ٹیلوں سے بھی دوستی ہے۔ وہ بوند بوند کو ترستے، سوکھے، بنجر ویرانوں سے بھی زندگی کا رس نچوڑ لیتے ہیں۔ صحرا سے دوستی اور اس پرانی عمارت سے محبت مسکراتے چہرے والے سکول ٹیچر عبدالستار کے من میں اکٹھے بستے ہیں۔

بٹوارے سے پہلے زمانے کی یہ یادگار رب جانے کب تک رہے۔ اب یہاں نا ریل گاڑی ہے نا ریل کی پٹڑی۔ قریش ریلوے اسٹیشن کے کمروں میں پڑھتے بچوں کو جب استاد بتاتے ہوں گے کہ کبھی یہاں ٹرین رکتی تھی تو بچے ضرور سوچتے ہوں گے کہ ٹرین کسے کہتے ہیں۔ روہی کے سلگتے صحرا میں کھڑی یہ عمارت باتیں کرتی ہے، داستانیں سناتی ہے تو اسکول کے ننھے بچوں کو کچھ تو ضرور بتاتی ہوگی۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments