پاکستانی صحافت


 پچھلے بیس سال میں پاکستانی میڈیا نے بہت ترقی کی۔ بہت بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز نے کامیابی کے جھنڈے گاڑھے۔ صحافت کے کئی بے تاج بادشاہ ابھر کر سامنے آئے۔ حامد میر، طلعت حسین، عاصمہ شیرازی، نصرت جاوید، تنزیلہ مظہر، اسد طور، مطیع اللہ جان، اعزاز سید، ارشد وحید چوہدری مرحوم، شاہزیب خانزادہ، افتخار حسین، ثنا بچہ اور دیگر کئی نام ہیں جنہوں نے اپنا لوہا منوایا۔

آئین پاکستان کا آرٹیکل 19 ہر پاکستانی شہری کو آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔ مگر پاکستان میں صحافی برادران کے لیے حالات کچھ زیادہ سازگار اور موزوں نہیں ہیں۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم کی فہرست میں بھی پاکستان شامل ہے جہاں حالات پاکستانی صحافیوں کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ اس دور حکومت میں صحافیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی طلعت حسین، ثنا بچہ، مطیع اللہ جان اور دیگر کئی صحافیوں کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔

لب اظہار پہ تالے ہیں، زباں بندی ہے
فکر آزاد پہ اس دور میں پابندی ہے
حاکم شہر کو ہے زعم کہ وہ جو بھی کہے
بس وہ سنت ہے، وہی شرع خداوندی ہے

کچھ عرصہ بعد شہر اقتدار سے نامور صحافی مطیع اللہ جان کو اغوا کر لیا گیا۔ سوشل میڈیا پر شور اور صحافی تنظیموں کے احتجاج سے ہی اغواکار  خود ہی مطیع اللہ جان کو چھوڑ گئے۔ مطیع اللہ جان کا قصہ پرانا نہ ہوا تھا کہ ابصار عالم صاحب کو شام کی چہل قدمی کے دوران کسی نامعلوم نے گولی مار دی۔ یہ بھی قصہ پرانا نہ ہوا کہ اسد طور نامی صحافی کو ان کے فلیٹ پر گھس کر نامعلوم لوگوں نے مارا۔ اور ہاتھ پاؤں باندھ کر چھوڑ کر چلے گئے۔

نہیں ستم سے تعاون کا ارتکاب کیا
بکے نہیں ہیں، عقیدہ نہیں خراب کیا
وہ اپنے آپ کو کیوں عقل کل سمجھتا تھا
فنا کا راستہ خود اس نے انتخاب کیا

ان سارے واقعات میں حملہ آور یا اغواکار نامعلوم لوگ تھے۔ اسد طور پر ہونے والے حملے کے ردعمل کے طور پر صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج تھیں اس احتجاج کے نتیجے کے طور پر بہت ہی سینئیر صحافی حامد میر کو بھی اپنی نوکری کھونا پڑی۔

تجھ کو انکار کی جرات جو ہوئی تو کیوں کر
سایۂ شاہ میں اس طرح جیا جاتا ہے

ایک اور بڑے مایہ ناز صحافی ندیم ملک صاحب کو بھی ایک قانونی ادارے نے نوٹس جاری کیا مگر ندیم ملک صاحب ڈٹ گئے اور اپنی خبر پر قائم رہے۔ صحافی کا کام ہی خبر دینا ہے اور قانوناً اس کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خبر کے سورس نہ بتائے مگر ادارے نے نوٹس انھی سورسز کے حوالے سے دیا تھا۔

ملک کے دو مشہور وی لاگرز سینئیر صحافی عامر میر اور عمران شفقت کو ان کے گھروں سے اٹھا لیا گیا۔ شام تک سوشل میڈیا پر گرما گرمی اور صحافیوں کے احتجاج کے باعث ان کو ضمانت پر رہا کیا گیا۔

ایک مشہور انگریزی دان جارج آرویل کا کہنا ہے ”اگر آزادی کا مطلب کچھ بھی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو وہ بات بتائیں جو وہ سننا نہیں چاہتے

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے حالیہ دنوں میں صحافیوں کے خلاف درج کیے جانے والے مقدمات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایچ آر سی پی کے ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کم ہو رہی ہے

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے ترجمان روپرٹ کول ویل نے منگل کو جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف آن لائن اور آف لائن تشدد پر اکسانے کے بڑھتے ہوئے واقعات تشویش ناک ہیں۔

ہر دور میں ہی میڈیا کو اپنے مطابق استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ آمرانہ دور میں بھی صحافیوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ مگر آج کل حالات سخت ہیں اور اظہار رائے ایک مکمل چیلنجنگ کام بن چکا ہے۔ مگر آج بھی صحافی برادران حق لکھنے کے لیے غیر متزلزل کھڑے ہو کر للکار رہے ہیں

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا۔

اس لیے ریاست کو چاہیے کے آزادی اظہار رائے کے لیے ہر مناسب سہولت فراہم کرے اور صحافیوں کو مکمل تخفظ فراہم کرے تاکہ وہ حقیقت پر مبنی سچ بات عوام کا بتا سکیں

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments