افغانستان میں طالبان: صحافیوں کی دعوت، بغیر داڑھی اور ویزا اینٹری: طالبان کا افغانستان کیسا تھا؟

محمود جان بابر - صحافی


افغانستان

غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے سلسلے کے آغاز کے بعد افغانستان میں ایک بار پھر کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ افغان سکیورٹی حکام اور طالبان کے مابین ملک بھر میں جھڑپیں جاری ہیں اور طالبان کے دعوے کے مطابق گذشتہ تین روز میں پانچ صوبائی دارالحکومت (زرنج، سرِ پُل، تالقان، قندوز، شبرغان) ان کے قبضے میں آ چکے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کا خدشہ ہے کہ آنے والے چند دنوں میں مزید اہم شہروں پر طالبان اپنا کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔

موجودہ حالات کے پیش نظر بی بی سی نے طالبان کے دور کا افغانستان اور اُس وقت کے حالات کا احاطہ کرنے کے لیے قسط وار مضامین کا سلسلہ شروع کیا ہے جس کی پہلی قسط قارئین کے لیے پیش ہے۔


یہ سنہ 1997 کی بات ہے، افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے ابتدائی دن تھے۔ جیسے جیسے ہم پاکستان اور افغانستان کی سرحد طورخم کے قریب جا رہے تھے ہمارے دل کی دھڑکن تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔ زبان پر وہ تمام دعائیں تھیں جو بچپن سے اب تک یاد کی تھیں۔

اسی کیفیت میں ہم نے کسی حد تک ویران سرحدی دروازہ بغیر کسی سرحدی دستاویز کی چیکنگ کے پار کیا اور افغانستان میں داخل ہو گئے۔ یہاں ہماری گاڑی سڑک کے بائیں ہاتھ بنی ایک منزلہ عمارت کے سامنے رک گئی۔

یہ ہی وہ مقام تھا جہاں کے بارے میں ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ یہی پر ہمیں افغانستان میں داخلے کے لیے طالبان کے مقررکردہ سخت معیارات کے مطابق چیک کیا جائے گا۔

ہماری گاڑی میں افغان جنگوں سے مانوس پشاور کے کئی سینئر صحافی بھی بیٹھے تھے۔ ہم سب پشاور سے یہاں تک طالبان کے سخت احکامات اور حکومتی قوانین سے نہ ڈرنے کی باتیں کرتے آ رہے تھے۔ میں عمر میں سب سے چھوٹا اور صحافت میں سب سے جونیئر ہونے کی بدولت پچھلی سیٹ پر دبکے بیٹھا تھا۔

افغانستان

فائل فوٹو

اسی دوران ایک لمبی داڑھی والا کالی پگڑی پہنے طالبان حکومت کا سرحدی کمانڈر ہماری گاڑی کی طرف آیا اور اس نے گاڑی کے اندر جھانکا۔ ہم سب خاموشی سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے، غیر متوقع طور پر اس نے ہم سے وہ سخت سوال اور رویہ تو نہیں رکھا جس کے بارے میں ہم نے بہت کچھ سن رکھا تھا لیکن پھر بھی نماز اور داڑھی کے بارے میں استفسار کیا کہ نماز پڑھا کریں اور داڑھی رکھنا بھی ضروری ہے۔

جس پر ہمارے سینیئر ساتھیوں نے ان سے کہا کہ پشاور کے صحافی اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ نماز بھی پڑھتے ہیں۔

افغانستان آنے جانے کے لیے مشہور ایک بغیر داڑھی کے حافظ قرآن سینئر صحافی اشرف ڈار اور اس طالبان کمانڈر کے مابین وہ بات چیت مجھے اب بھی یاد ہے جس کا لُب لُباب یہ تھا کہ بغیر داڑھی کے لوگ بھی اچھے مسلمان ہوسکتے ہیں اور طالبان رہنما اگر چاہیں تو وہ ان کے ساتھ قرآن کے کسی بھی پارے کی تلاوت سن سکتے ہیں۔

اس مختصر سی بات چیت کے بعد طالبان کمانڈر نے مزید بات نہیں کی اور پشتو میں اپنے دوسرے ساتھی کو کہا کہ یہ مہمان ہیں اورگاڑی جہاں جا رہی ہے وہاں کے لیے لیٹ بھی ہو رہی ہے اس لیے اپنے ساتھی کو ہمارے ساتھ گاڑی میں سوار کر کے ہمیں آگے جانے کے لیے رخصت کر دیا۔

یوں اس امتحان سے جس سے ہم اب تک سہمے ہوئے تھے بہت آسانی سے گزر کر طورخم سے جلال آباد کی سمت چل پڑے۔ اس سفر پر آنے سے ایک رات پہلے پشاور پریس کلب کے نوٹس بورڈ پر یہ نوٹس پڑھا تھا کہ کل صبح گاڑی افغانستان جائے گی جس نے جانا ہے وہ علی الصبح پہنچ جائے۔

طالبان نے مجاہدین کی خانہ جنگی سے تباہ حال افغانستان پر بہت جلد اور آسانی سے قبضہ کر لیا تھا ان کی افغانستان آمد کے ساتھ ہی بڑی عجیب خبریں پھیلنا شروع ہوئی تھیں۔

طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان میں امن کے قیام کے حوالے سے عجیب عجیب کہانیاں سننے کو مل رہی تھیں اور لوگ حیران بھی تھے کہ افغانستان اور پاکستان کے مدرسوں کے طلبہ پر مشتمل اس طالبان نامی قوت نے کیسے اتنی بڑی کامیابی حاصل کر لی۔

سرحد

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد

البتہ انھوں نے افغانستان پر قبضہ کرتے ساتھ ہی افغانیوں کے لیے غیر متوقع اور کچھ عجیب سمجھے جانے والے قوانین بھی نافذ کیے تھے جن میں مردوں کے لیے داڑھی رکھنا، موسیقی، کبوتر و پتنگ بازی کے ساتھ ساتھ عورتوں کے لیے برقعہ پہننے کی سخت پابندی عائد کی گئی تھی۔

افغانستان کے اندر حالات چاہے جو بھی تھے لیکن پاکستان میں ان خبروں کی بدولت لوگ ایک دوسرے کو وہاں نہ جانے کے مشورے دے رہے تھے کہ وہاں نہیں جانا ورنہ طالبان نے پکڑ لیا تو واپس نہیں آنے دیں گے۔

مردوں کی شرعی داڑھی کے طالبان کے معیار کے بارے میں بھی بہت کچھ سن رکھا تھا اور خود میری اپنی داڑھی بہت چھوٹی تھی اس لیے دل دھڑک رہا تھا کہ اگر طالبان نے اپنے معیار پر جانچا تو خیر نہیں۔

گاڑی کے اندر کے ماحول اور ایک دوسرے کو اپنی کہانیوں سے مرعوب کرنے والے ہمارے سینئر صحافی یوں تو بڑی بہادری کا مظاہرہ کر رہے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کی باتوں میں ایک غیر یقینی کیفیت بھی تھی کہ کیا معلوم طالبان ہمارے بغیر داڑھی کے دوستوں کو روک ہی نہ لیں۔

خیر جیسے ہی گاڑی اس چیک پوسٹ سے آگے بڑھی ہمارے قہقہے بحال ہو گئے اور سب اپنی پشاور والی کیفیت میں واپس آ گئے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ طالبان یا تو صحافیوں کو کچھ نہیں کہتے اور ان کے ساتھ قوانین میں رعایت کرتے ہیں یا ہمارے ساتھ یہ نرمی کسی مقصد کے لیے برتی جا رہی ہے۔

جب ہم اس دورے سے واپس آئے تو کچھ دن بعد پتہ چلا کہ ہمارا یہ دورہ بھی طالبان نے دنیا میں اپنے بارے میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کی خبروں کا توڑ کرنے کے لیے کیا تھا تاکہ ہم کو وہ کچھ دکھایا جاسکے جو طالبان کے بقول دنیا کو معلوم نہیں تھا۔

افغانستان

فائل فوٹو

ہمارے ساتھ گاڑی میں موجود ہمارے گائیڈ طالب نے جو کافی پڑھے لکھے لگ رہے تھے تمام سوالوں کے جواب دیے جن میں سے کچھ کچھ ہمیں یاد ہیں۔ اس کی ہر بات کی تان اسی پر ختم ہوتی تھی کہ ان کے آنے سے افغانستان کے لوگ خوش ہیں جو ان کے آنے سے قبل مستقل بدامنی اور لوٹ مار سے سخت تنگ تھے۔

وہ طورخم سے جلال آباد کے راستے میں شاید بٹی کوٹ کا علاقہ تھا جہاں سے گزرتے ہوئے وہ ہمیں اس علاقے میں پہلے کی زندگی کے بارے میں بتا رہے تھے کہ یہاں پر لوگوں کے ساتھ کیا کیا ہوتا رہا اور ان کے اقتدار میں آنے سے قبل ہونے والی لوٹ مار، ظلم کے ساتھ ساتھ ان کے قائم کردہ امن و سلامتی کو پوری طرح اجاگر کر رہا تھا۔

یوں تو جہاں جہاں سے ہم گزر رہے تھے لوگ کم ہی گھروں سے باہر پھر رہے تھے اور زیادہ تر جگہوں پر بہت کم لوگ یا تو کھیتوں میں کام کر رہے تھے یا برقع پوش خواتین آتی جاتی دکھائی دے رہی تھیں۔ اسی دوران ہمیں ایک جگہ کچھ دکانیں نظر آئیں تو ہم نے اپنے میزبان سے کہا کہ ہمیں یہاں رک کر لوگوں سے بات کرنی ہے اور کچھ چیزیں خریدنی ہیں۔

اس نے بخوشی گاڑی رکوائی۔ ہم وہاں موجود لوگوں سے ملے اور دکانداروں سے خریداری کے نام پر بات چیت شروع کر دی۔

میں اس دوران بہت مضطرب تھا کہ جلدی سے کچھ پتہ چل سکے کہ کیا عام لوگ بھی طالبان کے آنے سے خوش ہیں یا یہ صرف ان کا دعویٰ تھا۔

میں نے ایک دکاندار سے جاتے ہی پوچھ لیا کہ طالبان کیسے لوگ ہیں اور ان کے آنے سے عام لوگ خوش ہیں یا نہیں، وہ مسکرایا اورخاموش رہا تو میں نے اسے کہا کہ میں پشاور سے آیا صحافی ہوں لیکن اس نے پھر بھی زیادہ کچھ نہ کہا اوراس پر اکتفا کیا کہ ہاں حالات پہلے سے بہتر ہیں لوٹ مار نہیں ہوتی اورامن قائم ہو گیا ہے۔

مجھے یاد ہے میں نے اپنے سینیئر دوست سے پوچھا یہ دکاندار کیوں دل کی بات نہیں بتا رہا تو انھوں نے اپنے تجربے کی روشنی میں جو بات بتائی وہ میں نے ساری عمر کے لیے پلو سے باندھ لی کہ ‘تم طالبان کی گاڑی میں ان کے ساتھ آئے ہو تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ دکاندار سب کچھ دیکھ کر بھی وہ باتیں بتائے جو وہ کسی اعتماد کے شخص کو ہی بتا سکتا ہے۔’

دکاندار کے پاس سے مایوس ہو کر میں سڑک کنارے کھڑے زیادہ عمر کے ان مردوں کے پاس چلا گیا جو مکمل طور پر باریش اور پگڑیوں والے تھے۔

افغان باشندے

فائل فوٹو

ان سے بات کی تو ایک بزرگ جو پہلے سے تیار بیٹھے تھے کھل کر بات کرنے لگے اور کہا کہ چاہے طالبان جیسے بھی ہیں کم ازکم وہ اپنے سے پہلے کے وار لارڈز اورمجاہدین سے بہتر ہی تھے جن کے دور میں پورے افغانستان میں ہر کسی کی اپنے علاقے میں چیک پوسٹیں ہوا کرتی تھیں جو وہاں سے گزرنے والوں کو لوٹا کرتے تھے۔

میں نے سوال کیا کہ دنیا بھر کے اخبارات میں اور ٹی وی چینلوں پر خبریں چل رہی ہیں کہ طالبان کے دور میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اور مردوں کو بالجبر داڑھی رکھنے اورخواتین کو برقعے پہنانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، تو ساتھ ہی کھڑے دوسرے بزرگ نے بھی پہلے والے بزرگ کا ساتھ دیا اور کہا کہ زندہ رہنے کی سہولت ملے تو یہ پابندیاں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں اور کہا کہ جس علاقے میں آپ موجود ہیں یہ یہاں کے لوگوں کا یہ مسئلہ ہی نہیں کیونکہ یہاں پر رہنے والے پختون زیادہ تر ان باتوں پر روایات کی صورت پہلے سے ہی عمل کر رہے ہیں جو طالبان کہہ رہے ہیں۔

طالبان کی جانب سے مردوں کی داڑھیاں ناپنے کا سوال بھی زیر بحث آیا جس پر سب بوڑھے مجھے دیکھ کر قہقہے لگانے لگے تاہم اس سے زیادہ انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

یہی پر مجھے احساس ہوا کہ یہ شہری دو تین وجوہات کی وجہ سے خاموش ہیں یا تو حقیقی طور پر خوش تھے اور انھیں امن جیسی دولت ملی تھی یا وہ طالبان کو خبر ہونے اور بعد میں سزا ملنے کے ڈر سے خاموش اور خوش نظر آنے کی کوشش کر رہے تھے یا پھر وہ اس علاقے میں اپنی پختون روایات کے مطابق ان احکامات کے نفاذ کے باعث خوش تھے۔

اس سفر میں آخر کار ہم طالبان کے اس مرکز میں پہنچ گئے جس کے ارد گرد کوئی آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔

اس علاقے کا نام تو میری یاداشت میں نہیں رہا تاہم یہ وہ جگہ تھی جہاں سے اس پورے علاقے اور طورخم بارڈر تک کو افرادی مدد مہیا کی جاتی تھی۔ وہاں پر ہمیں باضابطہ طور پر طالبان کے نظام حکومت اور پالیسیوں کے بارے میں ایک سینیئر طالبان رہنما نے بریفنگ دی۔

افغانستان

اس بریفنگ کے دوران ہمارے وفد میں شامل دوستوں کے چند سوالوں کے دوران تو میرا دل منہ کو آنے لگا تھا کہ وہ ان سے ہر وہ سوال پوچھ رہے تھے جو میں ابھی پوچھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

جبراً عورتوں کو پردہ کروانے سے لے کر مردوں کو داڑھی رکھنے پر مجبورکرنے اور نوجوانوں کے بعض مشاغل خصوصاً پتنگ بازی پر پابندی کے سوال بھی ہوئے۔ لیکن طالبان کے اس نمائندے نے پورے تحمل کے ساتھ تمام سوالوں کے جواب دینے کی کوشش بھی کی اور اس تاثر کو بھی زائل کرنا چاہا کہ ان کے بارے میں سخت گیری کے حوالے سے جو بھی خبریں آئی ہیں ان میں مکمل طور پر صداقت نہیں۔

ہاں کچھ جوابات سے ہی پتہ چل گیا کہ ان کے بارے میں جو کچھ پڑھا اور سنا ہے وہ ٹھیک تھا اور وہ ایسا ہی کر رہے تھے۔

ہمیں بریفنگ دینے والے طالبان رہنما کبھی کبھی مسکرا بھی دیتے تھے جس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ بھی شاید حس مزاح رکھتے ہوں گے جس کا ثبوت واپسی پر یہ ملا کہ ہمارے اس طالبان گارڈ کی بھی زبان کھل گئی اوراس نے بھی لطیفے سنانے شروع کر دیے۔

جب ہمارے درمیان کچھ گفتگو بڑھی تو واپسی پر طورخم میں افغانستان کی طرف اسے چھوڑتے ہوئے میں نے اس سے پوچھ لیا کہ وہ جو افغانستان میں داخل ہونے والے تمام مردوں کی داڑھیاں لالٹین کے شیشے میں ڈال کر چیک کرنے کا عمل ہے وہ کہاں سر انجام پاتا ہے؟

تو وہ ہنس دیا اور بولا کہ آپ کو کہیں نظر آیا تو میں نے کہا مجھے تو کوئی بغیر داڑھی کے نظر ہی نہیں آیا اس لیے پتہ ہی نہیں چلا کہ اس بات میں کتنی حقیقت ہے۔

وہ مسکرایا اور ہم اس سے ہاتھ ملا کر پشاور واپس لوٹ آئے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان افغانستان سرحد: ’پیچھے ہو جاؤ، خبردار جو ہماری تصویر لی!‘

چمن کے بازاروں اور قبروں پر افغان طالبان کے جھنڈے کیوں لہرانے لگے؟

محمد اسماعیل خان: ’ہرات کا شیر‘ جو طالبان کی پیش قدمی روکے ہوئے ہے

جب ایک افغان ماں نے اپنا چند ماہ کا بیمار بچہ ٹرک ڈرائیور کے ہمراہ پاکستان روانہ کیا

افغانستان

فائل فوٹو

اس سارے سفر کے دوران افغانستان کے جتنے حصے کو ہم نے دیکھا وہاں پر خاموشی تو تھی لیکن اس خاموشی پر خوف کا غلبہ تھا۔

لوگ تو تھے لیکن اتنے بھی نہیں تھے کہ جس سے ہمیں پورے افغان معاشرے کی موجودہ شکل کا اندازہ ہو سکتا کہ وہ کس حال میں ہے۔ تاہم بعد ازاں طالبان کے ساتھ بننے والے رابطوں کے دوران وہ ہمیشہ اس بات پر شاکی ہی رہے کہ ان کے مخالفین اور میڈیا ان کو ویسا نہیں دکھا رہا جیسے وہ ہیں۔

وہ جس چیز کا کریڈٹ لیتے تھے وہ ان کے افغانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد قائم ہونے والا امن تھا اور جن لوگوں نے مجاہدین اور وار لارڈز کے دنوں کی بدامنی اور لوٹ مار دیکھی تھی وہ طالبان کو اس بات کا کریڈٹ دیتے تھے ان کے سخت ترین مخالف بھی اتنا ضرور کہتے تھے کہ طالبان نہ آئے ہوتے تو معلوم نہیں افغانستان میں کتنے لاکھ لوگوں نے اس خانہ جنگی کی نظر ہو جانا تھا جو مجاہدین کے دور میں شروع ہوئی تھی۔

اس سفر سے طالبان کی حکومت کا مجموعی اندازہ لگانا تو ممکن نہیں ہاں یہ ان کے دور کے آغاز کا عکاس ضرور ہے جس میں پاکستانی صحافیوں کے اس گروپ کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ افغان لوگ ان کے آنے سے خوش تھے اور یہ کہ لوگوں کی جان، عزت اور مال تو کم ازکم مزید لُٹنے سے بچ گیا ہے۔

اس کے بعد پیش آنے والے واقعات نے البتہ ثابت کیا کہ طالبان سے افغان عوام کو بعض ایسی شکایات لاحق ہوئیں جس کے بعد عوام میں ان کی حمایت متاثر ہوئی۔

ان میں عورتوں کی تعلیم اورمعاشرے میں ان کی آزادانہ نقل وحمل پر پابندی، خواتین کو حجاب کا پابند کرنا، مردوں پر داڑھی رکھنے، نماز باجماعت پڑھنے کا حکم اور بعض کھیلوں پر پابندیاں اور خصوصاً خواتین کو سرعام ‘اسلامی’ سزائیں دینے جیسے واقعات نے طالبان کی حمایت کو کم کیا۔

بعد کے دنوں میں جب ِخواتین کو سر بازار سنگسار اور گولی مار دینے، نیکر پہننے پر فٹبال ٹیم کے سر مونڈھ دینے اور موسیقی اور شوبز سے تعلق رکھنے والے افراد کو سزاؤں کی خبریں پاکستان پہنچیں تو ہم بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کیا یہ وہی طالبان ہیں جنھوں نے افغانستان پر اپنی عملداری قائم کرنے کے ابتدائی دنوں میں پاکستان سے آئے صحافیوں کے سامنے اپنا مثبت رخ پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32548 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp