بے وفائی کی سیاست


مرزا غالب کے محبوب میں بے وفائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور مرزا نوشہ جیسا وفا شعار عاشق پھر بھی اپنے بے وفا معشوق سے وفا کی امید رکھے ہوئے تھا اس لیے نہایت سادہ دلی سے دل کا مدعا ایک شعر کی صورت میں بیان کر دیا کہ ہم کو ان سے وفا کی ہے امید، جو نہیں جانتے وفا کیا ہے۔ اب خدا جانے کہ مرزا نوشہ سے ان کے محبوب نے وفا کی یا نہیں کی مگر یہ تو طے شدہ امر ہے کہ بے وفائی کو جو رسم مرزا غالب کے عہد سے چلی ہے وہ وفا شعاروں سے باوجود کوشش کے نا تو رک سکی نا ہی تھم سکی۔ وجہ جو بھی ہو آج ہر لب پر بے وفائی کے شکوے زبان زد عام ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بے وفائی کہیں ہماری قومی عادت ہی نا شمار ہو جائے۔

ہماری سیاسی تاریخ کو بے وفائیوں کی تاریخ کہا جائے تو غلط نا ہوگا۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ حکمرانوں کو گلہ رہتا ہے کہ باوجود دن رات خدمت کرنے کے عوام انتخابات میں وفا نہیں کرتے اور عوام کو گلہ ہوتا ہے کہ وفا کرتے ہیں اور جھولیاں بھر کر ووٹ دیتے ہیں مگر منتخب ہونے کے بعد حکمران عوام سے بے وفائی کرتے ہوئے اقتدار کے مزے لوٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ گویا ہم سب ایک دوسرے کی نظر میں بے وفا ہیں گویا سیاسی حمام میں سب ننگے ہیں۔

وسیع تر قومی مفاد یا اپنے حلقے کی عوام کی بہتری اور بھلائی کی خاطر ایک پارٹی کو چھوڑ کر دوسری سیاسی جماعت میں شامل ہونے والوں کے اس عمل کے پیچھے بنیادی محرک بے وفائی ہوتا ہے۔ بقول غالب بے وفا سے وفا کی امید کا مطلب کچھ یوں ہوا کہ ہر سیاسی جماعت کا قائد غالب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ورکرز سے وفاداری کا متمنی ہے اور ہر ورکر سنت غالب پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پارٹی قائد سے وفا کا طلب گار ہے۔

ایسے ہی اپنی قوم سے وفا کی امید بابائے قوم نے بھی کی تھی مگر افسوس ان کی ایمبولینس بے وفائی کی نذر ہو گئی۔ پہلے وزیراعظم لیاقت باغ میں ملک و قوم سے وفا کی داستان سنانے کے لیے پہنچے تو ایک بے وفا کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ مادر ملت نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر دن رات محنت کی اور قوم سے وفا کرتے ہوئے ایک عظیم الشان مملکت کے قیام میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا مگر اسی قوم نے صدارتی انتخابات میں وفا نہیں کی۔

دس سالہ عظیم ترقی کے دور کا جشن منانے والے ایوب خان نے جب اقتدار چھوڑا تو ان کو عوام کے رویے سے شکایت تھی ان کو لگتا تھا کہ عوام نے وفا نہیں کی۔ ستم یہ کہ وفا ایوب خان نے بھی نہیں کی اور اقتدار پھر بھی عوام کی بجائے اپنے پیٹی بند بھائی کے سپرد کیا جس نے مشرق میں رہنے والے بنگالی بھائیوں کو بے وفائی کا طعنہ دے کر نفرت سے دھتکار دیا

اسی وفا کی امید کے ساتھ قائد عوام نے سیاسی سفر شروع کیا۔ قیدیوں کی واپسی سے لے کر خود قیدی بننے تک وفا کی علامت بنا رہا۔ جیل میں بیٹھ کر بیگم نصرت بھٹو سے پوچھتا رہا کہ میرے عوام باہر نکلے یا نہیں اور جواب نفی میں ملتا۔ بھٹو عوام کی بے وفائی پر کڑھتا تو ہوگا، سوچتا تو ہوگا کہ اس کے ساتھ بے وفائی کیوں ہو رہی ہے۔ شاید بھٹو نے بھی جیل میں غالب کا یہ شعر دہرایا ہو کہ ہم کو ان سے وفا کی ہے امید، جو نہیں جانتے وفا کیا ہے۔ یوں یہ چراغ بھی وفاداری کی قسمیں کھانے والے ایک بے وفا کے ہاتھوں گل ہوا۔ مگر بے وفائی کا سلسلہ رکا نہیں اور ہوائی حادثے میں اس بے وفا سے اپنوں نے وفا نہیں کی اور یوں بے وفائی کی ایک اور داستان رقم ہوئی۔

نوے کی دہائی بھی کم وبیش اسی روایت کا تسلسل رہا۔ غلام اسحق خان، محترمہ بے نظیر بھٹو، فاروق خان لغاری اور میاں نواز شریف وفا اور بے وفائی کی الجھنوں میں گھرے رہے۔ حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں۔ محترمہ کی پہلی حکومت کو صدر غلام اسحق خان نے ختم کیا تھا مگر جیالے جس تکلیف کو نہیں بھولے وہ فاروق خان لغاری کا پی پی کی حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ تھا شاید نا بھولنے کی وجہ یہ ہے کہ فاروق خان لغاری ان کا اپنا تھا اور اس سے بے وفائی کی امید نہیں تھی۔ یہی کچھ میاں نواز شریف کے ساتھ ہوا اور وہ بھی بھٹو کی طرح کسی بے وفا سے وفا کی امید لگا بیٹھے تھے

اب بلوچستان سے نواب ثنا اللہ زہری نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے الزام لگایا کہ نواز شریف کی فطرت میں وفا نہیں ہے۔ سابق قائد پر بے وفائی کا الزام لگا کر نئی سیاسی جماعت سے وفاداری کا دم بھرنے والا ثنا اللہ زہری سات دہائیوں سے چلتی ہوئی بے وفائی کی روایت کا امین ہے۔ آئندہ چند ماہ میں مزید کئی لوگ وفا کی تلاش میں بے وفائی کریں گے اور عوام اس کو خوش دلی سے قبول بھی کر لیں گے۔ کیونکہ عوام بھی تو اسی فضا میں سانس لیتے ہیں، انہی لیڈروں کے نعرے لگاتے ہیں، ان ہی کو قائد تسلیم کر کے ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔

کسی سوچ اور نظریے کی سیاست کے خاتمے کے بعد یہی ہوتا ہے کہ ہر کوئی وقتی فائدہ دیکھتا ہے اور یہ سیاسی اور اخلاقی تنزلی کی آخری حد ہے۔ قصہ مختصر کہ بے وفائیوں کا موسم قریب ہے تاہم آہستہ آہستہ یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ رہی بات ہماری یعنی عوام کی تو ہم غالب کو مرشد مانتے ہیں۔ اور غالب کی طرح ہم کو ان سے وفا کی ہے امید، جو نہیں جانتے وفا کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments