پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی


کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی اور بہترین سفارتی تعلقات کا دار و مدار اس ملک کی وزارت خارجہ پر منحصر ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے موجودہ حکومت جب سے آئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جو کہ ایک ذمہ دار جوہری صلاحیت رکھنے والا بہت بڑا اسلامی ملک ہے۔ تنہائی کا شکار نظر آتا ہے۔ اگرچہ موجودہ وزیر اعظم جناب عمران خان کو جب اس کرسی پر بٹھایا گیا تو کچھ لوگوں کی خوش فہمی عروج پر تھی۔ ان کے خیال میں عمران خان کو کیونکہ تقریر کرنا آتا ہے اور پھر ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں اس لیے دنیا بھر میں پاکستان کا طوطی بولنے لگے گا۔

اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ایسی ایسی باتیں کر دیں جن باتوں کو عملی جامہ پہنانا بہت مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔ مثلاً کہا گیا وزیراعظم کبھی چارٹر فلائٹ استعمال نہیں کریں گے۔ لیکن اس پر بھی عمل نہ ہوا کیونکہ دنیا بھر کے سربراہان مملکت چارٹر طیاروں میں ہی سفر کرتے ہیں۔ سفری بچت کرنے کے لئے برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے طیارہ ادھار لیا گیا اور امریکہ کا دورہ کیا گیا۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا ایک انوکھا واقعہ تھا۔

اسلامی دنیا کا واحد جوہری صلاحیت رکھنے والے ملک کا وزیراعظم کسی ملک سے اپنے سفر کے لیے طیارہ ادھار لے رہا ہے۔ یاد رکھئے یہ وہی سفر تھا جس میں ہمارے ہینڈسم وزیراعظم نے بہت زبردست تقریر کی تھی۔ اور واپسی پر اس تقریر کو ورلڈ کپ جیت کے ساتھ تشبیہ دی گئی تھی۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیں سعودی عرب کا یہ طیارہ صرف جانے کے لیے استعمال ہوا واپسی سے پہلے طیارہ واپس بلا لیا گیا۔ کیونکہ وہاں پر اعلان ہوا کہ پاکستان ترکی اور ملائیشیا مل کر ایک اسلامی ٹی وی چینل بنائیں گے جس پر اسلام کا روشن چہرہ دکھایا جائے گا۔

سعودی عرب کو ایسی باتیں کہاں برداشت ہوتی ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات کیسے ہیں۔ جب آپ اتنا بڑا وطن چلا رہے ہوں تو پھر چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اپنے وطن کے مفادات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ جب آپ کے منہ سے کوئی بات نکلتی ہے۔ تو یہ دیکھنا پڑتا ہے اس کا اثر ہماری خارجہ پالیسی پر کیا پڑے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ سعودی عرب ہم سے ناراض ہوا۔

یہاں تک کہ ادھار دیے ہوئے پیسے بھی واپس مانگ لیے۔ ہم نے اس کی گاڑی کے ڈرائیور بن کر جو عزت اس کو دی وہ خاک میں مل گئی اور مزے کی بات یہ ہے ہمارا وزیراعظم ملائیشیا کانفرنس میں بھی نہ جا سکا نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ ملائیشیا میں ہمارے وزیراعظم کی ائرپورٹ پر تصویر لگا دی گئی لیکن ملائیشیا روانگی نہ ہو سکی۔ بی بی سی طرز کا اسلام فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لئے جو اسلامی چینل بنانا تھا وہ بس خواب ہی رہا۔

او آئی سی کا اجلاس بلایا گیا۔ جس میں بھارت کو باضابطہ دعوت دی گئی۔ اس پر بھی کافی ہنگامہ ہوا۔ کشمیر کو ایجنڈے کا حصہ نہیں بنایا گیا اور ہمارے وزیر خارجہ نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر خاصی طویل اور سخت تقریر کر دی۔ یہاں تک کہ دیا ہم اپنی او آئی سی بنا لیں گے۔ جیسے وہ OIC نہ ہوا کاغذ کا جہاز بنانا ہے۔ سعودی عرب کے خلاف سخت تقریر کردی اس بات کا گلہ کیا کہ اسلامی ممالک کشمیر کے مسئلے پر ہمارا ساتھ نہیں دے رہے۔

ہر ملک کے اپنے اپنے مفادات ہیں اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔ آپ کسی بھی اسلامی ملک کو اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے قائل تو کر سکتے ہیں مگر مجبور نہیں کر سکتے۔ ہماری کمزور خارجہ پالیسی کی حالت یہ ہے۔ چند دن قبل افغانستان کی صورتحال پر اسلام آباد میں کانفرنس بلانے کا اعلان ہوا۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے افغان حکومت اور طالبان نمائندوں کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ مگر طالبان نے انکار کر دیا اور کانفرنس آگے نہ بڑھ سکی۔

پاکستان کو دنیا بھر میں کتنی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح چند دن قبل وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے امریکہ میں کھڑے ہو کر جس طرح امریکی صدر بائیڈن کا پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو فون نہ کرنے کا گلہ کیا یہ بھی جگ ہنسائی کا باعث بنا۔ پاکستان کو بہت ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح کے بیانات کسی حکومتی ذمہ دار مشیر سے توقع نہیں کی جا سکتی اس وقت پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کی یہ صورت حال ہے ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ہم تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

یہاں تک کہ وزیر خارجہ کا کام ہمارے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو کرنا پڑتا ہے۔ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ ملائیشیا اور ترکی الگ سے ناراض ہیں۔ جس ملائیشیا کی ہمارے وزیراعظم ہر تقریر میں مثالیں دیا کرتے تھے۔ اسی ملائیشیا نے ہمارا بوئنگ طیارہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ صرف ہم نے قسطیں ادا نہیں کی تھی۔ اسی طرح ایران کے ساتھ تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے۔ اس خطے میں ایک چین ایسا ملک ہے۔ جو کسی حد تک ہمارے ساتھ ہے۔ لیکن اس کی بھی مجبوریاں ہیں۔ اس نے اتنی زیادہ سرمایہ کاری ہمارے ملک میں کر دی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ جوش و جذبہ جو کبھی چین کا پاکستان کے حوالے سے ہوتا تھا۔ اب اس میں خاصی کمی آئی ہے۔ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کوئی ایک شخص نہیں چلا رہا ہوتا اس کے پیچھے بہت بڑی دماغی فورس ہوتی ہے۔ تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہوتے ہیں جو خارجہ پالیسی کو مرتب کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اس کا فقدان نظر آتا ہے۔

ابھی کچھ دن قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بھارت کی سربراہی میں ہوا اس اجلاس میں پاکستانی نمائندے کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ یہ سب باتیں پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کو واضح کرتی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جوہری صلاحیت رکھنے والا ذمہ دار ملک ہے اس کی خارجہ پالیسی بنانے والے اس بات کا خاص خیال رکھیں ہم صرف اپنے ملک میں جلسے جلوسوں میں بڑی بڑی باتیں اور تقریریں کرنے کے لیے نہیں لائے گئے بلکہ ہمیں دنیا بھر میں اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کی وجہ سے خود کو منوانا ہے۔

اسی طرح گزشتہ سال چین کے صدر نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا لیکن یہ دورہ بھی نہ ہو سکا۔ روس کے صدر کا دورہ کافی بار اخبارات میں پڑھنے کا موقع ملا لیکن اس کو حقیقت کا رنگ نہ دیا جا سکا۔ پاکستان کے خارجہ امور کے تھنک ٹینک کو ایک بار پھر بیٹھ کر سوچنا چاہیے گزشتہ تین برس میں کیا کیا غلطیاں ہوئی ہیں اور ان پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے۔ اور پاکستان کی عزت کو کیسے بحال کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments