میرا سٹڈی روم


ہر شریف آدمی کو ہر جگہ ایک پناہ گاہ کی تلاش ہوتی ہے بے شک وہ اپنے گھر میں ہی کیوں نہ ہو۔ غالباً اسی غرض سے اس ناچیز نے اپنے گھر میں ایک سٹڈی روم بنوایا اور یقین کیجیے کہ ”زیست کا مزا پایا“ ۔ جب سے سٹڈی روم بنا ہے میری خواہش ہوتی ہے کہ میرا زیادہ وقت اسی میں گزرے اور سچ پوچھیے تو گھر والوں کی بھی کم و بیش یہی خواہش ہوتی ہے۔ سٹڈی روم میں میری پسند کی دو تین کتابیں ہر وقت میرے زیر مطالعہ رہتی ہیں۔ کتابوں کی موجودگی اور مطالعے کے دوران مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے آس پاس جگری دوستوں کی منڈلی سجی ہے اور کمال راحت اور سرشاری کی کیفیت میں گپ شپ ہو رہی ہے۔ میں جتنی دیر اس سٹڈی روم میں رہتا ہوں عجیب سکون محسوس کرتا ہوں اور میرے خیال میں تقریباً اتنی ہی دیر گھر والوں کی بھی یہی کیفیت رہتی ہے۔

سٹڈی بننے سے پہلے یہ کمرہ ایک سٹور روم تھا اور گھر والوں کے نزدیک اس کا ”سٹیٹس“ اب بھی سٹور ہی کا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر زائد از استعمال چیز احتیاطاً اسی میں رکھ دی جائے۔ چنانچہ میں روز دیکھتا ہوں کہ گھر کی کسی فالتو چیز کا یہاں اضافہ ہو چکا ہوتا ہے لیکن ایک دن جب میں نے دفتر سے واپسی پہ دیکھا کہ پرانے کپڑوں سے بھرا ہمارا خاندانی ٹرنک اور دو عدد پھول جھاڑو کمرے میں بچھے بالکل نئے غالیچے کے کونے میں آرام فرما رہے ہیں تو مجھے شدید غصہ آیا اور میں ابھی ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اس ضمن میں گھر والوں سے دو ٹوک بات کر لی جائے کہ مجھے دفعتاً استازی و مرشدی جناب یوسفیؔ صاحب کا وہ مضمون یاد آ گیا جس میں وہ موصوف گھر میں بیگم کی رکھی ہوئی مرغیوں سے تنگ آ کر ایک دن دھمکی دینے کی جسارت کرتے ہیں کہ اب اس گھر میں مرغیاں رہیں گی یا وہ۔ اتفاق سے باہر بارش ہو رہی ہوتی ہے تو ان کی بیگم فٹ اپنے فیصلے اور خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس برستی بارش میں وہ باہر کہاں جائیں گے۔ اس مکالمے کے بعد یوسفیؔ صاحب خاموشی سے وہیں رہتے رہے اور میں تو صرف اس واقعے کا سوچ کر ہی خاموشی سے رہنے لگا ہوں۔

اگر اسے خود ستائی نہ سمجھا جائے تو میں عرض کروں گا کہ کتاب میرا پرانا عشق ہے۔ میں اگر کسی ایسی جگہ پہنچوں جہاں کوئی دو چار اچھی کتابیں موجود ہوں تو میں آس پاس سے بے خبر فوراً ان میں منہمک ہو جاتا ہوں۔ اور لائبریری وغیرہ میں تو میں بالکل ایسے ہی محسوس کرتا ہوں جیسے کئی پہروں کا کوئی بھوکا شخص کسی فائیو سٹار ہوٹل کے ایسے ریسٹورنٹ میں آ جائے جہاں اس کے من پسند کھانوں کا بوفے لگا ہو اور اسے سمجھ نہ آئے کہ کس ڈش سے آغاز کرے۔

کتاب سے اس قدر رغبت کے باوجود شاید حیران کن بات ہے کہ مجھے کتابیں رکھنے، سنبھالنے یا جمع کرنے کا شوق بالکل بھی نہیں ہے۔ کتابیں خریدتا کم ہوں، پڑھتا زیادہ ہوں اور سنبھالتا بالکل بھی نہیں۔ اپنی خریدی ہوئی کتابیں پڑھنے کے بعد دو چار روز مجھے اپنے آس پاس نظر آتی ہیں اور پھر وہ بڑے پراسرار طریقے سے غائب ہوجاتی ہیں۔ مجھے کتابوں کے یوں غائب ہونے پر اعتراض نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں شاعری اور مزاح کی کتابوں کے علاوہ کوئی کتاب دوبارہ نہیں پڑھتا۔ ویسے بھی ”اداس نسلیں“ اور ”آگ کا دریا“ جیسی کتابیں، شاہکار ہونے کے باوجود، شاید دوبارہ پڑھنی مشکل بھی ہوتی ہیں۔

( ’آگ کا دریا‘ تو پہلی بار پڑھنے پہ بھی تارے وغیرہ نظر آ جاتے ہیں ) ۔ لہذا ایسی کتابیں کوئی لے جائے تو مجھے افسوس نہیں ہوتا۔ ہاں! شاید یہ خواہش ہوتی ہے کہ کتاب لے جانے والا کسی قدر ادبی ذوق کا حامل ہو۔ اس حوالے سے اگلے دن مجھے بڑا ’دلچسپ‘ دھچکا لگا۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب ”دیوان غالب ؔ“ خریدا۔ اس کا سرورق بے حد دلکش تھا اور اندر فینسی پیپر استعمال کیا گیا تھا۔ ابھی یہ کتاب خریدے چند ہی دن ہوئے ہوں گے کہ یہ غائب ہو گئی۔

کھوج لگانے پر پتہ چلا کہ گاؤں سے ایک صاحب تشریف لائے تھے اور جاتے ہوئے وہی بغل میں دبا کر لے گئے ہیں۔ مجھے پہلی دفعہ افسوس ہوا۔ ایک تو کتاب انتہائی خوبصورت تھی اور دوسرے جو صاحب دیوان غالبؔ لے گئے تھے ان پہ مجھ سے زیادہ شاید غالبؔ کی روح افسوس کر رہی ہو گی۔ مجھے علم تھا کہ ان صاحب کو امام دین گجراتی کا شعر بھی سمجھ نہیں آتا تو وہ استاد غالبؔ کی شاعری کیا سمجھ پائے گا جسے پوری طرح شاید خود غالبؔ بھی نہیں سمجھ سکتا۔

بہرحال میں کوئی مہینے بعد گاؤں گیا تو پہلی بار کتاب کا تقاضا کرنے ان صاحب کے ”کھوہ“ (گاؤں سے دور، کھیتوں کے بیچ وہ جگہ جہاں زمیندار ٹیوب ویل وغیرہ لگا کر اپنی اور مویشیوں کی رہائش کا انتظام کرتے ہیں۔) پر پہنچا۔ ان صاحب سے ملاقات ہوئی جس کے اختتام پر میں نے کتاب کی واپسی کا ذکر کیا۔ ہم برگد کے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے ہاتھ اونچا کیا اور اسی درخت کے کوئی آٹھ دس فٹ اونچے تنے میں پھنسایا ہوا ”دیوان غالبؔ“ اتار کے میرے حوالے کر دیا۔ میں نے دیکھا اس کی جلد پھٹ چکی تھی اور قریب آدھے صفحات گلہریوں اور چوہوں وغیرہ نے کھا لیے تھے۔ استاد غالبؔ کا ”مجموعہ خیال فرد فرد“ دیکھ کر مجھے سخت مایوسی ہوئی اور میں نے وہ انہیں واپس کرتے ہوئے عرض کیا کہ پہلے آپ میری اجازت کے بغیر اسے لے آئے تھے اب اسے میری اجازت سے رکھ لیجیے۔

یہ بات نہیں کہ میرے سٹڈی روم میں کتابیں موجود نہیں ہیں۔ لیکن یہ کہنا مبالغہ ہو گا کہ انہیں یہاں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سٹڈی روم میں فقط وہی کتابیں بچتی ہیں جو دوست احباب اور رشتہ داروں کے ذوق پہ پوری نہیں اترتیں۔ اچھی کتابیں یہاں بالکل محفوظ نہیں رہتیں اور شاید یہ ہماری خواہش بھی نہیں ہے۔ میں نے اگلے دن حالیؔ کی لاجواب کتاب ”یادگار غالب ؔ پڑھی۔ حالیؔ لکھتے ہیں غالبؔ بے تحاشا مطالعہ کرتے تھے لیکن انہوں نے کبھی کوئی کتاب خرید کر نہیں پڑھی۔

بس کرائے پر لیتے اور واپس کر دیتے۔ ان کے گھر میں کتابیں نظر نہیں آتی تھیں۔ غالب ؔ کے بارے میں یہ سب پڑھ کر میں سوچ رہا تھا کہ بڑے لوگوں کی عادتیں کتنی ملتی ہیں۔ یعنی کتابوں کے حوالے سے غالبؔ کا رویہ بالکل وہی ہے جو اس خاکسار کا ہے۔ لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ استاد غالبؔ کے ساتھ میری عادت صرف کتب بینی کی حد تک ہی ملتی ہے۔ دیگر عادات میں بلا کا اختلاف ہے۔ مثلاً مشروب کے حوالے سے ہم دونوں کے ذوق میں بعد مشرقین موجود ہے۔

میرے سٹڈی روم میں مجھے تقریباً وہ تمام سہولتیں میسر ہیں جن کی خواہش استاد غالبؔ نے اپنے اس شعر میں کی ہے۔ ”رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو۔ ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو۔“ میں اپنے سٹڈی روم میں گھنٹوں گزارتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ یہ میری مطالعہ گاہ زیادہ ہے یا گوشۂ عافیت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments