امریکا کے بارے میں ارون دھتی رائے کے خیالات


ارون دھتی رائے نے امریکا کی اس تاریخ طرف توجہ دلائی ہے جو خون میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ وہ خون ہے جو کبھی جمہوریت قائم کرنے، انسانی حقوق کے تحفظ، دوسروں کی بہتری، دہشت گردی کے خلاف جنگ تو کبھی امن قائم کرنے کے نام پر بہایا گیا۔ ارون دھتی رائے اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں :

”چونکہ دنیا کا سب سے امیر اور طاقتور ملک امریکا ہے، اس لیے قتل عام سے انکار کا سہرا بھی سب سے پہلے اس کے سر بندھتا ہے۔ وہ اب بھی یوم کولمبس مناتا ہے، جس روز کولمبس امریکا میں آیا تھا اسی دن یہاں کی مقامی آبادی یعنی نوے فیصد ریڈ انڈینز کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا تھا۔ مقامی آبادی کو ختم کرنے کے لیے جس لارڈ ایمہرسٹ نے چیچک کے جراثیم والے کمبل ان میں تقسیم کرنے کا تصور دیا تھا، اس کے نام پر امریکہ میں یونیورسٹی ہے اور اسی کے نام پر ایک معروف آرٹس کالج بھی ہے۔

یہ امریکا کا پہلا ہولوکاسٹ تھا۔ دوسرا امریکی ہولوکاسٹ افریقہ میں ہوا، جہاں تین کروڑ افریقی باشندے اٹھائے گئے، انہیں غلاموں کے طور پر بیچا گیا اور ان میں سے آدھے نقل مکانی یعنی امریکا لاتے وقت راستے میں مر گئے۔ یہی امریکا ڈربن میں نسل پرستی کے بارے میں عالمی کانفرنس سے بطور احتجاج واک آؤٹ کر گیا، اس نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ غلامی اور غلاموں کی تجارت جرم ہے۔“

امریکا نے اپنی تاریخ میں صرف ایک ”گیارہ ستمبر“ کو جگہ دی ہے۔ مگر ارون دھتی رائے نے کچھ مزید ”گیارہ ستمبر“ بھی یاد دلائے ہیں۔ پہلا گیارہ ستمبر 1973، جب چلی میں جنرل پنوشے نے صدر کی جمہوری حکومت کو گرا دیا تھا۔ جنرل پنوشے کی بغاوت کو سی آئی اے کی پشت پناہی حاصل تھی۔ بغاوت کے بعد صدر کو ان کے صدارتی محل میں مردہ پایا گیا۔ اس بغاوت کے بعد خوف اور دہشت کا جو دور گزرا، اس میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور بہت سے لاپتا ہوئے۔

فائرنگ اسکواڈز نے لوگوں کو سر عام گولیوں سے بھون ڈالا۔ پورے ملک میں قیدیوں کو رکھنے کے لئے حراستی کیمپ کھل گئے، مرنے والوں کو سرنگوں اور بے نشان قبروں میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ چلی کے عوام سولہ سال ہر لمحہ خوف میں مبتلا رہے۔ 2000 میں امریکی حکومت نے خفیہ دستاویزات پر سے پابندی اٹھا لی تو ہزاروں خفیہ دستاویزات منظر عام پر آ گئیں۔ ان میں سی آئی اے کے چلی کی بغاوت میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد موجود تھے اور یہ بھی کہ جنرل پنوشے کے دور حکومت میں چلی کی صورتحال کے بارے میں امریکی حکومت کے پاس تفصیلی معلومات موجود تھیں۔ اس کے باوجود کسنجر نے جنرل پنوشے کی حمایت کرتے ہوئے اسے یقین دہانی کرائی تھی کہ، ”آپ جو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہاں ہمارے ہاں یعنی امریکا میں اس کے لیے ہمدردیاں موجود ہیں۔ ہم آپ کی حکومت کی فلاح اور بہتری چاہتے ہیں۔“

دوسرا گیارہ ستمبر، جب امریکی صدر نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اعلان کیا کہ: ”ان کی حکومت نے عراق پر حملے کا فیصلہ کر لیا ہے۔“ عراق کا حکمران تھا صدام حسین، یہ صدام حسین کون تھا اور یہاں تک کیسے پہنچا؟ اس حوالے سے ارون دھتی رائے لکھتی ہیں : صدام حسین نے 1988 میں شمالی عراق میں سینکڑوں دیہات منہدم کرا دیے اور ہزاروں کرد عوام کو قتل کرانے کے لیے کیمیائی ہتھیار اور مشین گنیں استعمال کیں۔ ریکارڈ ہمیں بتاتا ہے کہ امریکی حکومت نے اسے پچاس کروڑ ڈالر سبسڈی کے طور پر دیے تاکہ وہ امریکہ کی زرعی مصنوعات خرید سکے۔ اگلے سال جب وہ نسل کشی کی مہم سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برا ہو چکا تو امریکی حکومت نے اس سبسڈی کی رقم دگنی کر دی۔ ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جن دنوں صدام حسین بدترین مظالم ڈھا رہا تھا، ان دنوں امریکی اس کے قریبی اتحادی تھے۔

جب اسی صدام حسین نے اپنے مالک (امریکا) کی بات ماننے سے انکار کیا تو امریکا نے اپنے سابق اتحادی سے شروع ہونے والی جنگ میں اخلاقیات کے سبق اور انسانی اقدار کے پرچار کو کس حد تک ملحوظ خاطر رکھا۔ اس بارے میں ارون دھتی رائے نے اپنے انٹرویوز اور مضامین میں بہت کچھ بولا اور لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں : اتحادیوں نے عراق پر پہلا حملہ جنوری 1991 میں کیا۔ ایک ماہ پر محیط تباہ کن بمباری نے ہزاروں لوگوں کو ہلاک کر دیا۔

اتحادیوں نے ہزاروں میزائل اور بم برسائے، عراق کے کھیت اور میدان 300 ٹن یورینیم سے بھر گئے۔ بمباری کے دوران اتحادیوں نے پانی صاف کرنے کے پلانٹوں کو اپنا ہدف بنایا حالانکہ انہیں اس حقیقت کا علم تھا کہ غیر ملکی تعاون کے بغیر ان کی مرمت ناممکن ہوگی۔ جنوبی عراق میں بچوں کے اندر کینسر کی شرح میں چار گنا تک کا اضافہ ہو گیا۔

جنگ کے بعد عراق پر لگنے والی معاشی پابندیوں کے دوران کم و بیش پانچ لاکھ عراقی بچے موت کے منہ میں چلے گئے۔ میڈلین البراٹ اس وقت اقوام متحدہ میں امریکا کی سفیر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔ اس نے بچوں کی ہلاکت کا سن کر کہا، ”ہم جانتے ہیں کہ یہ بہت سخت انتخاب ہے، تاہم ہمارے خیال میں اس کی قیمت اس انتخاب کے عین مطابق ہے۔“

آخری مہم جوئی کے جواز کے طور پر امریکا کا الزام تھا کہ عراق کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ اس بارے ارون دھتی رائے کا خیال ہے : ”اگر عراق کے پاس جوہری ہتھیار ہیں بھی تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ کیا عراق کے پاس ایٹمی اسلحہ کا ہونا امریکہ کی طرف سے پیش بندی کے طور پر حملے کا جواز فراہم کرتا ہے؟ دنیا میں ایٹمی اسلحے کے سب سے بڑے ذخائر امریکا کے پاس ہیں۔ اگر امریکا کے پاس عراق پر حملے کا جواز ہے تو پھر کسی بھی ایٹمی طاقت کا کسی ملک پر پیش بندی کے طور پر حملہ آور ہونا کیوں کر بے جواز ہو گا؟ بھارت، پاکستان پر یا پاکستان، بھارت پر بھی حملہ کر سکتا ہے۔“

ارون دھتی رائے کہتی ہیں : اس جنگ میں اگر امریکی فوجیوں میں سے کسی کو قیدی بنا کر عراقی ٹیلی ویژن پر دکھایا جاتا تو جارج بش کہتا، ”یہ جنیوا کنوینشن کی خلاف ورزی ہے۔“ لیکن امریکی حکومت نے گوانتاناموبے میں جو سینکڑوں قیدی رکھے ہوئے ہیں اگر انہیں امریکی ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے تو یہ کام قابل قبول ہے۔ ان قیدیوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کے بارے سوال اٹھایا جاتا ہے تو امریکا انہیں جنگی قیدی تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ انہیں ”غیر قانونی لڑاکے“ قرار دیتا ہے۔ یعنی ان کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ مثبت اور جائز ہے۔

ارون دھتی رائے اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں : ”کوریا، ویت نام اور کمبوڈیا میں ہلاک ہونے والے لاکھوں انسان، 1982 میں جب امریکا کی آشیرباد پر اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو اس کے نتیجے میں مرنے والے 17500 لوگ، آپریشن ڈیزرٹ سٹارم میں لقمہ اجل بن جانے والے ہزاروں عراقی، مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کے خلاف جنگ لڑنے والے ہزاروں فلسطینی، یوگوسلاویہ، صومالیہ، چلی، نکارا گوا اور پاناما میں دہشتگردوں اور نسل کش قاتلوں کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے جانے والے لاکھوں انسان۔ سب کا اندراج امریکا کے کھاتے میں کیا جانا چاہیے کیونکہ ان دہشتگردوں اور نسل کش قاتلوں کو امریکا کی حمایت حاصل تھی، امریکا ہی نے انہیں تربیت دی، انہیں امداد فراہم کی اور انہیں اسلحہ مہیا کرتا رہا۔“

ارون دھتی رائے کے خیالات اور مضامین امریکی تاریخ پر کئی سوال چھوڑتے ہیں۔ کیا اوپر درج سب اقدامات اخلاقی جواز کے کسی بھی پیمانے پر پورے اترتے ہیں؟ کیا یہ اقدام انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ تھے؟ ”آزادی“ کے نام پر امریکا کو دوسری ریاست کے اندرونی معاملات میں اختیار کا حق کس نے دیا؟ کیا یہ عمل قتل عام کی تعریف پر پورے نہیں اترتے؟ کیا یہ غیر جمہوری رویے کی حد نہ تھی کہ 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے خلاف کروڑوں لوگوں نے احتجاج کیا مگر انہیں نظر انداز کر دیا گیا؟

نائن الیون کے بعد کی صورتحال بارے ارون دھتی رائے اپنے ایک انٹر ویو میں کہتی ہیں :

نائن الیون کو تاریخی واقعات سے علیحدہ کر دینا اور اس بات پر مصر رہنا کہ دہشت گردی محض برائی پر مبنی ایک شیطانی تحریک ہے جس کا کوئی سیاق و سباق بھی نہیں، ایک کامیاب حکمت عملی ہے۔ جب آپ دہشت گردی کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ سامنے لائیں گے تو آپ پر الزام عائد کر دیا جائے گا کہ آپ دہشت گردی کے لئے کوئی عذر یا جواز پیش کر رہے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ملیریا کے علاج کے لیے ادویات پر تحقیق کرنے والے کسی سائنسدان پر الزام عائد کر دیا جائے کہ اس نے مادہ مچھر کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔

اگر آپ کسی چیز کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اس کا جواز تراش رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جتنی جنگیں آپ نے لڑیں، جتنے قتل آپ نے کیے، جتنے ملکوں پر آپ نے بم برسائے، جتنے ماحول آپ نے زہر آلود کیے، اگر آپ ان سب کا جواز فراہم کر سکتے ہیں تو پھر نائن الیون کو با جواز بنانے کے لیے اسامہ بن لادن بھی یقیناً اسی منطق کا سہارا لے گا۔

ارون دھتی رائے کے مطابق اسامہ بن لادن اور جارج بش دونوں ہی دہشت گرد تھے۔ بس دونوں کے جنگی حربے اور ہتھیار الگ الگ تھے۔ امریکہ کے بھارت اور پاکستان سے تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے ارون دھتی رائے کہتی ہیں : دونوں بیگمات ہیں، جو ایک شوہر (امریکا) کی توجہ کی طالب ہیں۔ دونوں میں مقابلہ ہے اور دونوں ایک دوسرے سے حاسد ہیں۔

آخر میں دنیا کی سب سے معتبر بین الاقوامی تنظیم کے بارے میں ارون دھتی رائے کی رائے ملاحظہ فرمائیں :

”یہ بوڑھی اقوام متحدہ اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہو چکی ہے۔ اس کی تنزلی کردی گئی ہے، اب وہ ایک عالمی دربان بن چکی ہے۔ اب یہ ان میکسیکن عورتوں میں سے ایک ہے جو مختلف گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرتی ہیں یا پھر بھارتی جمعدارنی، تھائی لینڈ کی پوسٹل برائڈ، میکسیکو کی ان عورتوں میں سے ایک ہے جو امور خانہ داری میں خاتون خانہ کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ جمیکا کی رہنے والی ایسی لڑکی جو کسی دوسرے ملک میں جا کر کھانے، رہائش اور جیب خرچ کے عوض لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہو۔ ایسی تنخواہ دار عورت جو دوسروں کا فضلہ صاف کرنے پر مامور ہو۔ اسے اس کی مرضی سے درست اور غلط، دونوں طرح استعمال کیا جاتا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments