کیا ہم قاتل ہیں؟


پاکستان میں عورت آزاد اور خودمختار کبھی بھی نہیں رہی ہے ہر وقت میں اس پہ ظلم اور ستم کے پہاڑ توڑے گئے ہے۔ جب اس میں شعور نہیں تھا تو وہ مرد کی مار اور دھتکار کو چپ کر کے سہ جاتی تھی بلکہ اس کے ذہین میں یہ بات ڈالی گئی تھی کہ مرد کا عورت پہ ہاتھ اٹھانا یا پھر کسی طرح کا ظلم کرنا عورت کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مرد کا حق بنتا ہے وہ عورت کو چھوٹی سی چھوٹی بات پر دھنک کر رکھ سکتا ہے۔ کیا ہوا اگر مرد نے کچھ بول دیا ہے کما کر بھی تو کھلاتا ہے نا۔ مرد کی زیادتی کے دفاع میں بولے جانے والا یہ جملہ بہت عام ہے

آج کی عورت تعلیم یافتہ اور با شعور ہے باوجود اس کہ کے وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے اور زمانے سے نبرد آزما ہے لیکن مظالم کی داستان اور ظالم کا ہاتھ نہیں روکا ہے پر انداز بدل گیا ہے۔ عورتوں کے اغوا جبری مشقت ہراساں ذہنی اور جسمانی تشدد گالم گلوچ اور قتل کی واردات عام زندگی کا ایک حصہ ہے۔ لیکن جولائی کا مہینہ عورت کے لئے قاتل ثابت ہوا ہے۔ صائمہ قرة العین نور مقدم اور نسیم کے اندوہناک قتل کی باز گشت پورے ملک میں گونج رہی ہے۔ قرة العین دس سال شادی کے پھندے میں پھنسی رہی کوئی مسیحا اس مدد کو نہ آیا۔ آخر کار موت نے اس کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ شوہر کے روپ میں بھیڑیا ہر روز اس کو جسمانی تشدد کا نشانہ بناتا رہا۔ لیکن نہ تو آس پاس کے لوگ اور نہ ہی اس کے میکے والے مدد کو آئے۔ مظلوم کس کرب سے گزرتی ہو گی۔ جسم پر تشدد برداشت کر کے اب تو کوئی تکلیف بھی نہیں ہوتی ہو گی۔ یا پھر وہ گھنٹوں اپنے نیل پڑے بدن کو پتھرائی آنکھوں سے دیکھتی رہتی ہو گئی۔

وہ سوچتی ہو گئی کہ مجھے عورت اور بیوی ہونے کی سزا کب تک ملتی رہے گئی۔ اتنی بڑی دنیا میں کوئی بھی اس کا مسیحا نہیں تھا۔ صرف موت نے اس کو اپنے آغوش میں لے کر اس کے زخموں سے چور بدن اور روح پر مرہم رکھی۔ ٹوٹے ہاتھوں ناک اور منہ کی ٹوٹی ہڈیوں والی قرات العین جب خدا کی بارگاہ میں پہنچی ہو گئی تو اس نے ضرور خدا سے شکوہ کیا ہو گا کہ تیری دنیا نے مجھ سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ اس نے اللہ سے درخواست کی ہو گئی کہ اپنی دنیا کو سفاک لوگو سے پاک کر دے۔

قرة العین کی چار سالہ بیٹی کی باتیں رولا دیتی ہے کہ ابو روز رات کو امی کو مرا کرتے تھے۔ مار پیٹ کے وہ مناظر معصوم بچی کے دل اور ذہن سے کبھی ختم نہیں ہو گے۔ اور ایک ڈراؤنے خواب کی طرح اس کا پیچھا کرتے رہے گے ماں کی بے بسی اور چیخیں اس کو ایک ابنارمل زندگی گزارنے پر مجبور کر دے گے۔ ایک کہانی کے انجام سے دوسری کہانی کا آغاز ہو گیا ہے۔ صائمہ رضا ایک اور کردار ہے جو آنا اور احساس برتری اور میں مرد ہو کی جنگ میں جان کی بازی ہار گئی۔

میں مرد ہو مجھے برتری حاصل حاصل ہے کہ جنون میں مبتلا نہ مرد نے صائمہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ نا مرد واردات کے بعد مفرور ہونے میں کامیاب ہو گیا اور اسی نا مرد کہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی پولیس مجرم کو پکڑنے میں ناکام ہے۔ اور مجرم کسی کی زندگی ختم کر کے بھی آزاد فضاؤں میں گھوم رہا ہے۔ ایسے واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے جو قلم بند کیے جائے تو جگہ کم پڑ جائے لیکن حادثات ختم نہ ہو۔ اب آتے ہے سب سے اندوہناک واقعہ کی طرف جو کہ نور مقدم کا قتل ہے۔

یہاں پر ہم کیوں اور کیسے قتل ہوا کا تذکرہ نہیں کرے گے۔ بلکہ اس واقعہ پر معاشرے کے مجموعی ردعمل پر بات کرے گے۔ واقعہ کے فوری بعد ملزم کے والدین اور دوستوں کی طرف سے ملزم کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دی گئی۔ سوشل میڈیا پر ملزم کے بارے میں واقعات شیر ہونے شروع ہو گے جس میں ملزم پہلے بھی ایسے واقعات میں ملوث رہا تھا۔ اس کو ذہنی مریض ثابت کرنے کا ڈرامہ کرنے کے لئے ایک ذہنی مریضوں کے سینٹر سے تعلق جوڑنے کی کوشش کی گئی۔

والدین اپنے بیٹے کے گھناونے جرم کی سزا سے بچانے کے لئے اپنا پیسہ اور طاقت دونوں استعمال کر رہے ہے۔ ایسے والدین پہلے تو بچوں کی تربیت کرنے میں ناکام رہتے ہے اور بچے جب طاقت اور دولت کے نشے میں غلط اور نہ قابل معافی جرائم کا ارتکاب کرتے ہے تو پھر پیسے کے بل بوتے پر پولیس جج نظام اور مقتول کے وارثین کو خریدنے شروع کر دیتے ہے۔ سوشل میڈیا پر نور مقدم کے ملزم کو سزا دلانے کے لئے آواز بلند کی جا رہی ہے۔ ایسے میں ایلیٹ کلاس کی ایک خاص خاتون بھی نور مقدم کے قاتل کو سزا دلانے میں پیش پیش ہے جو کے ایک اچھی بات ہے۔

محترمہ کچھ احتجاج وغیرہ کا انعقاد بھی کر رہی ہے اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے لوگوں کو کیس کے بارے میں لمحہ بہ لمحہ آگاہ بھی کر رہی ہے۔ اور اپنے جذبات کا بھی اظہار کر رہی ہے۔ لیکن وہ یہ سب کچھ صرف نور مقدم کے حق میں آواز اٹھانے کے لئے کر رہی ہے۔ اس سے پہلے کی عورتوں کو قتل اور ان کا ریپ کیا گیا ہے۔ محترمہ چپ رہی۔ بلکہ نور مقدم کے قتل سے پہلے سیما رضا قرة العین اور نسیم کا بہیمانہ قتل کیا گیا۔

محترمہ خاموش رہی۔ شاید اس کی وجہ ان خواتین کا مڈل کلاس سے تعلق ہونا تھا۔ یا پھر ان کا قتل ان کے خاوندوں نے کیا تھا جو انتہائی عام سی اور معمول کی بات ہے۔ لیکن نور مقدم چو نکے ان کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہے لہٰذا اس کو انصاف کے لئے تو احتجاج بنتا ہے نہ۔ اس ملک میں تو غریب کا خون بھی ارزاں ہے اور طاقتور کے خون بھی بولی لگتی ہے۔ اچھا ہوتا محترمہ انصاف لینے چلی ہے تو پہلے تمام امیر اور غریب انسانوں کو تو برابر کا تولتی تو شاید بات بن بھی جاتی۔

اچھا ہوتا محترمہ اپنے احتجاج اور سوشل میڈیا پیغامات میں باقی نا حق ماری جانے والی خواتین کے لئے بھی آواز بلند کرتی۔ ایک خاتون یوٹیوبر ہے انہوں نے بھی نور مقدم کے معاملے پر جس طرح کی ویڈیوز بنائی ہے دیکھ کر دل دکھتا ہے۔ چند لائکس کچھ کمنٹس اور کچھ واچ ٹائم کے لئے کچھ بھی بول دیتے ہے۔ محترمہ کا انداز بیان اور انداز اتنا ہی بھیانک اور سفاک تھا جتنا مرحومہ کا قاتل۔ خاتون یوٹیوبر مرحومہ کے قتل کا احوال یوں بیان کر رہی تھی جیسے موقع واردات پر موجود تھی۔

جس طرح کے الفاظ کا چناؤ کیا گیا تھا تو تحریر میں نہیں لائے جا سکتے لیکن محترمہ ان الفاظ اور حقائق کو سنسنی خیز انداز میں بول رہی تھی۔ کہ کس طرح قاتل جعفر نور کی لاش کی بے حرمتی کرتا رہا۔ ہو سکتا ہے وہ سب سچ ہی ہو لیکن ہر سچ کہنے کے لیے نہیں ہوتا ہے کچھ پر جان بوجھ کر پردہ ڈال دینا چاہے۔ زندگی کچھ لائکس کچھ شیر اور کچھ سبسکرائیبز سے پرے بھی ہے جو اس کو اخلاقیات کہتے ہے۔ کچھ نیوز اینکر ہے جو ٹی وی کی سکرین پر بھاشن دینے کے ساتھ ایک عدد یو ٹیوب چینل بھی رکھتے ہے۔

جو وہ ٹی وی سکرین پہ بول نہیں پاتے وہ زہر یو ٹیوب چینل پہ اگل دیتے ہے۔ جناب ایک خاص سیاسی جماعت کے حامی ہے جب اس جماعت سے ان بن ہوتی ہے تو ان کے خلاف ٹویٹ کرنا شروع کر دیتے ہے جیسے ہی مطالبات مان لیے جاتے ہے تو جناب اینکر دوبارہ سے اس جماعت کی تسبیح پڑنی شروع کر دیتے ہے۔ ایک وقت تھا جب صحافی کا کام حقائق پر مبنی خبر دینا ہوتا تھا لیکن اب صحافی کسی بھی سیاسی جماعت کے ترجمان بن جاتے ہے موصوف صحافی کے نزدیک نور مقدم اپنے قتل کی خود ذمہ دار ہے کیوں کہ وہ اچھے کردار کی نہیں تھی اس کا تعلق میرا جسم میری مرضی کے قبیلے سے تھا تو ایسی عورت کا انجام تو ایسا ہی ہونا تھا نا۔

موصوف نے جو زبان استعمال کی وہ کوئی بھی زی ہوش انسان نہیں کر سکتا ہے۔ قاتل کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ہر کوئی مقتولہ کے کردار کو نشانہ بنا رہا ہے۔ قاتل کی بجائے مقتول ہی قصور وار قرار دیا جا رہا ہے اگر نور مقدم کا ظاہر جعفر کے ساتھ تعلقات تھے تو اس کا کیا جواز بنتا ہے کہ اس کو قتل کر دیا جائے۔ اور یہ بولا جائے کہ وہ اسی قابل ہی تھی۔ لہٰذا ایسے تمام یوٹیوبر سے گزارش ہے اپنے بے لاگ تبصروں اور سچ سے پہلے ان والدین کے بارے بھی سوچ لے جنہوں نے اپنی بیٹی کو کھویا ہے۔

ہو سکتا ہے اپ کا سچ ان والدین کی زندگی کو مزید ابتر بنا دے جو پہلے ہی غم سے چور ہے۔ ہمیں ایک ایسی سوچ کا مقابلہ کرنا ہے جن کا کہنا ہے کیا ہوا اگر ظاہر جعفر نے اپنی نور کا قتل کر دیا ہے وہ اس کی گرل فرینڈ تھی۔ کیا ہوا اگر ایک خاوند اپنی بیوی کو جان سے مار دے۔ وہ اس کا خاوند ہے وہ اس کی زندگی ختم کرنے پہ قدرت رکھتا ہے۔ اس میں پولیس یا پھر ریاست کا کیا کام۔ آئیں اور اپنا پہلا قدم اٹھائے اس سوچ کو ختم کرنے میں۔ اور خواتین کے لئے ایک محفوظ معاشرہ بنانے میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments