کوئٹہ میں چار ماہ میں دو دھماکے: کوئٹہ کا سرینا ہوٹل ہی بم دھماکوں کے نشانے پر کیوں ہے؟

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


سرینا ہوٹل

کوئٹہ کا سرینا ہوٹل سرکاری حکام اور بین الاقوامی اداروں میں کام کرنے والوں میں مقبول ہے

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں اتوار کے روز جو دو بم دھماکے ہوئے ان میں سے ایک نہ صرف نقصان کے حوالے سے بہت بڑا تھا بلکہ اس کا ہدف بھی سکیورٹی اور محل وقوع کے لحاظ سے ایک اہم علاقہ تھا۔

یہ دھماکہ یونیٹی چوک کے قریب حالی روڈ پر سرینا ہوٹل کے پاس ہوا۔ سرینا نہ صرف کوئٹہ کا واحد فائیو سٹار ہوٹل ہے بلکہ اس کے چاروں اطراف میں اہم سرکاری عمارتیں بھی ہیں۔

یہ حال ہی میں اس علاقے میں ہونے والا دوسرا دھماکہ ہے جبکہ اس سے قبل اپریل کے آخر میں سرینا ہوٹل کی پارکنگ میں دھماکہ ہوا تھا۔

کوئٹہ میں طویل عرصے تک سکیورٹی کی ذمہ داری سرانجام دینے والے سابق ڈی آئی جی پولیس عبد الرزاق چیمہ کا کہنا ہے کہ جس علاقے میں حالیہ بم دھماکے ہوئے وہ کوئٹہ کا حساس ترین علاقہ ہے۔

سکیورٹی کے امور کے ماہر اور ڈائریکٹر پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز عامر رانا کہتے ہیں کہ کوئٹہ کی زیادہ تر وی آئی پی موومنٹ بھی اسی علاقے سے ہوتی ہے۔

گذشتہ دو دہائیوں میں بلوچستان کے متعدد علاقے بد امنی کی لپیٹ میں رہے ہیں لیکن کوئٹہ شہر ان بم دھماکوں سے سب سے زیادہ متاثر رہا مگر یہ بم دھماکے زیادہ تر دیگر علاقوں میں ہوتے رہے ہیں۔

چار ماہ سے کم عرصے میں اس علاقے کو دوسری مرتبہ نشانہ بنانا کیا کوئی نیا رحجان ہے اور اس کے کیا محرکات ہوسکتے ہیں؟ اس پر ماہرین کی رائے بعد میں پیش کریں گے لیکن سب سے پہلے تذکرہ اس علاقے کی اہمیت کا۔

کوئٹہ

یہ دھماکہ کہاں ہوا اور اس علاقے کی اہمیت کیا ہے؟

یہ دھماکہ کوئٹہ کے معروف یونٹی چوک کے قریب حالی روڈ پر سرینا ہوٹل کے جنوبی دیوار کے ساتھ ہوا۔ سرینا ہوٹل اس روڈ کے شمال میں واقع ہے۔

اس ہوٹل میں نہ صرف غیر ملکی مہمان آتے ہیں بلکہ مقامی مہمانوں اور باہر سے آنے والے سرکاری اہلکاروں کی رہائش کے لیے پہلی ترجیح یہی ہوٹل ہوتی ہے۔ حالی روڈ پر ہی سرینا ہوٹل کے جنوب میں بلوچستان ہائیکورٹ کی عمارت ہے۔

سرینا ہوٹل اور بلوچستان ہائی کورٹ کے بالمقابل مغرب میں بلوچستان اسمبلی کی عمارت ہے جبکہ مشرق میں تھوڑے سے فاصلے پر ایرانی قونصل خانہ ہے۔ ان اہم عمارتوں کے علاوہ اس کے قریب ہی فرنٹیئر کور (نارتھ) کا ہیڈکوارٹر اور پی آئی اے کا دفتر بھی ہے۔

سرینا ہوٹل کے ساتھ ہی کوئٹہ چھاﺅنی ہے جو کہ ہوٹل اور حالی روڈ کے شمال میں واقع ہے۔ ان اہم دفاتر کی وجہ سے اس علاقے کا شمار کوئٹہ کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جو کہ انتہائی حساس ہیں۔

چار ماہ سے کم عرصے میں دوسرا بڑا دھماکہ

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں سنہ 2000 کے بعد بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد بم دھماکوں اور اس نوعیت کی بدامنی کے دیگر واقعات سب سے زیادہ کوئٹہ میں ہوئے ہیں۔

تاہم یونٹی چوک کے اس حساس علاقے سے پہلے یہ زیادہ تر سریاب، شہر کے مرکزی علاقوں اور ریڈ زون کے علاوہ دیگر نواحی علاقوں میں ہوتے رہے۔

اگرچہ بڑے پیمانے پر سکیورٹی اقدامات کی وجہ سے سرکاری حکام کے بقول ماضی کے مقابلے میں کوئٹہ میں حالات میں بہتری آئی ہے تاہم یہ واقعات اب بھی رونما ہو رہے ہیں۔

رواں سال زیادہ نقصانات کے حوالے سے کوئٹہ میں جو تین بڑے دھماکے ہوئے ان میں سے دو دھماکے اپریل سے لے کر اب تک اسی علاقے میں ہوئے ہیں۔

کوئٹہ

ان دھماکوں کا ہدف کون تھا؟

ان میں سے ایک دھماکہ 21 اپریل کو سرینا ہوٹل کے اندر ہوا۔ یہ دھماکہ خود کش تھا جو کہ ہوٹل کے اندر پارکنگ میں ہوا جس میں پانچ افراد ہلاک اور ایک درجن کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

جس دن یہ دھماکہ ہوا اس روز چینی سفیر کوئٹہ میں تھے اور وہ اہم ملاقاتوں اور اجلاسوں میں شرکت کے لیے سرینا ہوٹل میں رہائش پزیر تھے لیکن حکام کے مطابق جس وقت دھماکہ ہوا وہ ہوٹل میں موجود نہیں تھے۔

سرینا ہوٹل کے اندر اس دھماکے کے ہدف اور محرکات کے بارے میں تحقیقات کے حوالے سے اگر کوئی پیش رفت ہوئی بھی ہے تو اس سے میڈیا کو تاحال آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ دوسرا دھماکہ آٹھ اگست کو ہوٹل کے باہر اس کی دیوار کے ساتھ ہوا۔ ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس اظہر اکرام نے بتایا کہ اس کا ہدف سرینا ہوٹل نہیں بلکہ پولیس اہلکار تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کوئٹہ بم حملے: دو پولیس اہلکار ہلاک، 22 افراد زخمی

کوئٹہ دھماکہ: شب و روز ساتھ گزارنے والے دو دوست جو دنیا سے رخصت بھی اکٹھے ہوئے

کوئٹہ میں سرینا ہوٹل کی پارکنگ میں ہونے والا دھماکہ خودکش حملہ تھا: وزیر داخلہ شیخ رشید

کوئٹہ میں پاکستانی فوج کے قافلے کے قریب بم دھماکہ، چھ اہلکار زخمی

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ تناظر میں سکیورٹی خطرات موجود تھے جس کے پیش نظر سکیورٹی کو نہ صرف اس علاقے میں بلکہ شہر کے دیگر علاقوں میں بڑھایا گیا ہے۔

اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔ تنظیم کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ اس کا ہدف پولیس اہلکار تھے۔

کوئٹہ

اس علاقے میں بم حملوں کے کیا محرکات ہو سکتے ہیں؟

چار ماہ سے کم عرصے میں اس علاقے کو ٹارگٹ کرنے کے رحجان سے متعلق پولیس حکام اور سکیورٹی کے امور کے ماہرین نے مختلف وجوہات بتائی ہیں۔

ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس اظہر اکرام نے بتایا کہ جس روز یہ واقعہ پیش آیا وہاں پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ یہاں ڈیوٹی دینے کے بعد یہ اہلکار واپس جانے کے لیے اپنی گاڑی کی جانب جا رہے تھے کہ ان کو نشانہ بنایا گیا۔

سابق ڈی آئی جی کوئٹہ عبد الرزاق چیمہ نے بتایا کہ حساس علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں پولیس کی بھاری نفری ہر وقت موجود ہوتی ہے بلکہ سکیورٹی فورسز کی موومنٹ بھی یہاں زیادہ ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں عسکریت پسندی اور شدت پسندی کے جو واقعات ہو رہے ہیں ان میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی ہدف رہے ہیں چونکہ اس علاقے میں ان کی موجودگی زیادہ ہوتی ہے اس لیے اس علاقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘جو لوگ اس وقت کوئٹہ میں سکیورٹی کے فرائض انجام دے رہے ہیں انھوں نے سکیورٹی کے بہترین انتظامات کیے ہوں گے لیکن جو عناصر ان واقعات کے پیچھے ہیں وہ بھی مسلسل کچھ نہ کچھ سوچ رہے ہوتے ہیں اور کبھی کبھار وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوتے ہیں۔’

انھوں نے بتایا کہ ‘اس علاقے میں بہت سارے خفیہ کیمرے لگے ہوئے ہیں جن کے ذریعے اس واقعے میں ملوث شخص کا پتا لگانے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے۔’

سابق ڈی آئی جی کے مطابق ان واقعات کو میڈیا پر بھی اس وقت زیادہ توجہ ملتی ہے جب وہ کسی حساس اور اہم علاقے میں ہوں اس لیے ایسی سرگرمیوں میں ملوث تنظیمیں اور عناصر ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں توجہ حاصل کرنے کے لیے بھی حساس اور محل وقوع کے لحاظ سے اہم علاقوں کا انتخاب کرتے ہیں۔

سکیورٹی کے امور کے ماہر اور ڈائریکٹر پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز عامر رانا کا کہنا تھا کہ ‘جہاں یہ دھماکہ ہوا ہے یہ کوئٹہ شہر کے اہم ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔’

کوئٹہ

ان کا کہنا تھا کہ سرینا ہوٹل وہاں واقع ہے۔ بیرونی ممالک سے آنے والے لوگ اسی ہوٹل میں رہائش اختیار کرتے ہیں۔ اندرون ملک سے اہم شخصیات کے علاوہ اہم سرکاری حکام بھی اسی ہوٹل میں قیام کرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ‘اس وقت افغانستان میں صورتحال بدل رہی ہے، اس کی وجہ سے بھی اس ہوٹل میں رش بڑھے گا۔

‘اس کے علاوہ سکیورٹی فورسز کو بھی کوئٹہ میں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ حساس علاقہ ہونے اور وہاں سے وی آئی پی موومنٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی تعیناتی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ انھوں نے بھی اس سے اتفاق کیا کہ موجودگی زیادہ ہونے کے باعث سکیورٹی اہلکار ان کا ہدف ہوسکتے ہیں۔’

یہ بھی پڑھیے

بلوچستان لبریشن آرمی کب اور کیسے وجود میں آئی

کوئٹہ: نماز جمعہ کے دوران دھماکہ، تین ہلاکتیں

کوئٹہ دھماکے میں پولیس افسر سمیت کم از کم 14 ہلاک

کوئٹہ میں خودکش حملہ، کم از کم سات افراد ہلاک

عامر رانا کا کہنا تھا کہ ‘سرینا ہوٹل اور اس کے گردونواح میں پہلے جو واقعات ہوتے رہے ہیں ان کی ذمہ داری مذہبی شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں تاہم اگر حالیہ واقعے کی ذمہ داری کسی بلوچ عسکریت پسند تنظیم نے قبول کی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ واقعات بڑھ گئے ہیں اور ان کو اس تناظر میں دیکھنا ہوگا۔’

انھوں نے کہا کہ ‘اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ ایک حساس علاقے میں یہ واقعات کیسے پیش آئے۔’

حکام کی جانب سے بہتری کے دعووں کے باوجود ایسے واقعات کے رونما ہونے سے متعلق ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جہاں دیرپا امن نہ ہو وہاں اتار چڑھاﺅ ہوتا رہتا ہے۔

‘اگر کچھ وقت کے لیے ایسے واقعات میں کمی آتی ہے اور پھر ان میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پائیدار امن نہیں ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی حکمت عملی کو دیکھنا چاہیے۔

سابق ڈی آئی جی عبد الرزاق چیمہ نے دیگر اہم سرکاری دفاتر کے علاوہ اس علاقے کی اہمیت کی ایک وجہ سرینا ہوٹل کو بھی قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس کے اردگرد دھماکے ہوں گے تو باہر کے لوگ یہ سوچیں گے کہ کوئٹہ جائیں یا نہ جائیں۔ ‘اگر ایسے علاقوں میں بدامنی کے واقعات زیادہ ہوں گے تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ جب وہاں رہنے کے لیے محفوظ جگہ نہیں ہے تو کوئٹہ کیوں جائیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں سکیورٹی کے لیے پہلے بھی اقدامات کیے گئے اور ان کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جن سے ان واقعات میں کمی آئی ہے تاہم ان واقعات کو روکنے کے لیے لوگوں کو چوکس رہنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp