جمہوریت کی فیصلہ کن طاقت


کم از کم وہ زمانہ اب نہیں رہا جب خوف ہی سب سے بڑا ہتھیار تھا اور یہ ہتھیار اسی لئے کارگر تھا کہ شعور اور باخبری نہ تھی۔ تاریخ یہی سمجھا رہی ہے کہ شعور کی فراوانی خوف کو ہمیشہ توڑ کر رکھ دیتی ہے اور ایسا بارہا ہوا بھی ہے۔ لیکن اگر ارتقائی حقائق اور بدلتے ہوئے زمانے کا ادراک نہیں کیا جا رہا ہے تو اسے اندیشوں بھرے خوف کے ساتھ دیکھا جائے گا کیونکہ سامنے کے حقائق تو یکسر مختلف ہیں۔ یہ جو بار بار بدلتے ہوئے زمانے اور معروضی منظر نامے پر اس کے پڑتے اثرات کے حوالے سے بات ہو رہی ہے تو اسے سمجھنے کے لئے پہلے تھوڑا سا ماضی میں جھانک آتے ہیں۔

ایوب خان کو قوم کا مسیحا بھی پیش کیا جاتا رہا مارشل لائی ایبڈو قانون کے تحت مخالف سیاستدانوں کو نا اہل بھی کیا جاتا رہا فاطمہ جناح کو غدار اور شکست خوردہ بھی بنایا جاتا رہا ایوب خان کے بیٹوں کی مستیاں اور گندھارا انڈسٹریز بھی پھلتے پھولتے رہے لیکن ان سب کے باوجود عشرہ ترقی بھی منایا جاتا رہا اور آخر میں ٹرکوں پر ”کہیں سے“ ایک ڈکٹیٹر کی تصاویر ”تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد“ جیسے دلفریب جملے کے ساتھ نمودار ہو کر قوم کی ”ذہنی تربیت“ بھی کرنے لگیں۔

لیکن اس سارے عمل کے پیچھے ریڈیو پاکستان اور نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات کے علاوہ اور تھا کیا حالانکہ زمینی حقائق تو اس سے مختلف تھے۔ جس کی وجہ سے تھوڑے عرصے بعد ڈھاکہ فال جیسا سانحہ برآمد ہوا۔

اگلے عشرے میں ضیاء الحق منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیتا ہے آئین کو چند صفحات کا ٹکڑا کہہ کر اس کا مذاق اڑا دیتا ہے۔ کوڑوں کا بازار سجا دیتا ہے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا کر غیر جماعتی انتخابات کرا دیتا ہے اور اپنے پیچھے ایک بارود آلود فضا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ لیکن اس پورے عشرے میں پی ٹی وی اور شکنجے میں جکڑا ہوا میڈیا امیر المومنین کا کردار تراشتا رہا۔

پرویز مشرف بھی اپنے پیش رووں کی ”روایت“ پر عمل پیرا ہو کر سیاست جمہوریت اور آئین و قانون کی ایسی کی تیسی کر دیتا ہے۔ لیکن حسب معمول سرکاری میڈیا پر کرائے کے سیاست دان اور صحافی راوی کی مانند چین ہی چین لکھتا ہے۔ یہاں تک کہ دس مرتبہ وردی میں منتخب کرنے کا بے ڈھنگا اور خوشامد پرست بیانیہ بھی پیش ہوتا رہا۔ اور پھر تاریخ آپ کے سامنے ہے۔

در اصل اس آمرانہ فضاوں کو طاقت ہمیشہ عوام کی بے خبری اور رابطے کی فقدان ہی سے ملتا رہا کیونکہ میدان میں سرکاری ٹیلی ویژن یا پرنٹ میڈیا کے چند اخبارات ہی تھے اور آمرانہ حکومتوں کے سامنے ان میں دم خم تھا کتنا؟ ورنہ سیاستدانوں کی مزاحمت کا ٹریک ریکارڈ اس وقت بھی اتنا برا نہ تھا لیکن ان کے پاس تب عوام کو اصل حقائق سے باخبر بنانے اور متحرک کرنے کے وسائل نہ تھے سو آمریتوں کو یک طرفہ لیکن طاقتور پروپیگنڈا مسلسل کمک پہنچاتا اور ان کا غیر قانونی اقتدار مضبوط کرتا رہا۔

لیکن بدلتے ہوئے منظر نامے نے جہاں سویلین قیادتوں کو آزاد سوشل میڈیا کے ذریعے حیرت انگیز لیکن موثر مدد فراہم کی وہاں سیاستدانوں صحافیوں اور عوام کے حوصلے کو بھی مبالغہ آمیز حد تک مضبوطی اور توا نائی کی جانب گامزن کیا جس نے روایتی نظام اور بیانیے کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے۔

اسی حوصلہ مندی سے تخلیق ہوتے نئے منظر نامے کی چند مثالیں آپ کے سامنے ہیں

نواز شریف نے سول بالادستی کا علم بلند کیا تو مقدمات کی بھر مار اور جیل خانوں سے بد نام زمانہ میڈیا ٹرائل تک اور بیٹی کی اذیتوں سے لے کر مسلم لیگی رہنماؤں اور عام سیاسی ورکروں تک ہمیں کیا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔ لیکن کیا نواز شریف نے پسپائی اختیار کر لی؟ کیا ان کی جماعت ٹوٹ گئی؟ کیا مقبولیت میں کوئی کمی آئی یا اس حوالے سے مقتدر قوتوں کو کوئی اور کامیابی ہاتھ آئی؟

بلکہ معاملہ اس کے الٹ ہوا اور یہی وہ موقع تھا جس نے ستر سالہ سیاسی تاریخ کا دھارا موڑ دینے میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کے حوالے سے ایک نئی لیکن حد درجہ موثر فضا کو تخلیق کیا۔ کیونکہ ایک طرف روایتی بیانیے کے حوالے سے جذباتی دھڑا نظر آیا تو دوسری طرف جمہوریت اور آئین و قانون کی حمایت میں ایک طاقتور دھڑے نے سیاسی اور فکری میدان میں اپنی موجودگی اور جدوجہد کا احساس دلایا۔ گو کہ موخر الذکر دھڑا شدید مشکلات کا شکار ہے لیکن ماننا پڑے گا کہ وہ کسی طور پیچھے نہیں ہٹے بلکہ بہت حد تک ریاست کو تھکا کر رکھ دیا۔

اس سے ملتی جلتی صورتحال صحافت کے حوالے سے بھی ہے۔ ان کا تو خیر کیا ذکر جو صحافت کا لبادہ اوڑھے اپنے لقمہ تر کی خاطر ڈھنڈورچی بن چکے لیکن حقیقت بھر حال یہ ہیں کہ اسے صحافت تسلیم کس نے کیا ہے؟

البتہ صحیح معنوں میں صحافت کے مقدس پیشے سے منسلک وہ کون سا صحافی یا قلم کار ہے جو قلم پھینک کر پیچھے ہٹا؟ بلکہ صورتحال یہ ہے کہ ناسازگار حالات کے باوجود بھی پاکستان کی صحافت اپنے تاریخ کا شاندار باب رقم کر رہی ہے۔ اس طبقے (صحافیوں ) کو اس وقت انتہائی مشکل ترین حالات کا سامنا ہے۔ کتنے صحافیوں کو اٹھایا گیا کتنوں پر روزگار کے دروازے بند کر کے ان کے خاندانوں کے منہ سے رزق حلال کا نوالہ چھینا گیا۔ کتنوں پر حملے ہوئے کتنوں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور کتنوں کو خوفناک دھمکیاں دی گئیں۔

لیکن ہاتھ آیا کیا؟

کیا کسی نے اپنے قلم کی حرمت کو بیچا کیا کوئی دلیر صحافی کسی ٹاوٹ کا روپ دھار گیا؟ کیا کسی ٹاک شو پر کوئی بکا؟ کیا کوئی ملک چھوڑ کر بھاگا؟

ایسا قطعاً نہیں ہوا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ قلم کی حرمت بھی قائم و دائم ہے اور حرف و لفظ کا اعتبار بھی! اگر چہ خون دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھنا پڑ رہا ہے لیکن ڈٹنے والے پھر بھی ڈٹے نظر آئے۔ گویا یہاں بھی ”نتائج“ وہی ہیں جو سیاست کے حوالے سے ہیں یعنی جبر کے خالی ہاتھ!

یہی حال سیاسی کارکنوں اور عوامی سطح پر بھی دیکھنے میں آ رہا ہے خصوصاً روایتی یا اسٹبلشمنٹ نواز میڈیا کو اب کے بار ذہن سازی کرنے میں خلاف معمول شدید مشکلات اور دقت کا سامنا ہے کیونکہ سوشل میڈیا کی تیز رفتار لہر کے سامنے روایتی میڈیا نہ صرف ہانپتا ہوا نظر آنے لگا ہے بلکہ موٹیویشن اور تحرک کے حوالے سے بھی سو شل میڈیا نے اسے پچھاڑ کر رکھ دیا ہے۔

مختصر یہ کہ ڈیجیٹل ارتقا نے عام آدمی کو خبر اور حقائق تک رسائی دی جس سے فطری طور پر شعور پھوٹا اور یہی وہ موقع تھا جس نے معاشرے کے تمام طبقات مع سیاسی لیڈروں دانشوروں اور صحافیوں کو خوف پر قابو پانے میں مدد دی۔ جس کی وجہ سے رائے عامہ نے بھی حوصلہ پکڑا اور اب صورتحال یہ ہے کہ عوامی سطح پر خوف اور بے خبری کو الوداعی ہاتھ ہلایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پورا ملکی منظر نامہ ایک جوہری تبدیلی کی جانب گامزن ہے۔

اور یہی جمہوریت کی فیصلہ کن طاقت ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments