پاکستان اور ہندوستان ایک جیسے کیوں نکلے؟


گیارہ اگست 1948 کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ الفاظ کہے

”آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں“ ۔

یہی نہیں مصنف اور تجزیہ کار یاسر ہمدانی کے مطابق جناح صاحب نے لگ بھگ اپنی 33 تقریروں میں اقلیتوں کے حقوق کے متعلق بات کی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نئی قائم ہونے اس ریاست میں جناح صاحب کے لئے اقلیتوں اور ان کے حقوق کی کتنی اہمیت تھی۔

شاید متحدہ ہندوستان میں جناح صاحب مسلمانوں کی بطور اقلیت حالت زار سے خوب واقف تھے، تبھی انہوں نے اپنی پہلی کابینہ میں جوگندر نال منڈل (ہندو) کو وزیر قانون اور ظفر اللہ خان (احمدی) کو وزیر خارجہ بنایا۔ لیکن جناح صاحب کی رحلت کے بعد جب قرار داد مقاصد کو قانون کا حصہ بنایا گیا تو گویا یہ طے کر دیا گیا کہ ریاست کا بھی مذہب ہوگا۔ جو کہ شاید جناح صاحب کی اس بات سے انحراف تھا کہ افراد کے مذہب سے ریاست کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اس کی ایک جھلک پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کے ان الفاظ میں یوں دیکھی جا سکتی ہے۔

”میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ مذہب ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور نہ ہی میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ایک اسلامی ریاست میں ہر شہری کو یکساں حقوق حاصل ہیں، چاہے اس کی ذات، عقیدہ یا ایمان کچھ بھی ہو۔“

تبھی جناح صاحب کی 11 اگست کی تقریر کو ریڈیو پاکستان اور دیگر سرکاری آرکائیوز کے ریکارڈ سے غائب ہی کر دیا گیا اور اس تبدیل شدہ ریاستی بیانیے اور سوچ کی وجہ سے اقتدار میں آنے والے ہر حاکم نے مذہب کو اپنا سیاسی فائدہ اٹھانے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے استعمال کیا۔ مذہبی جماعتیں اور پریشر گروپ وجود میں آ گئے جن کے دباؤ کی وجہ سے احمدیوں کو سرکاری طور پر کافر قرار دیا گیا۔ توہین مذہب کے قوانین کو مزید سخت بنایا گیا۔ وہ سب مذہبی جماعتیں اور پریشر گروپس وقتاً فوقتاً ریاست کو اقلیتوں کے خلاف اپنے مطالبات منوانے کے لئے بلیک میل کرتے رہے۔ اسی طرح گھروں اور تعلیمی اداروں میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف منافرت کو بڑھاوا دیا گیا۔ جس کا نتیجہ اقلیتوں کے ساتھ ظلم اور نا انصافی کی صورت میں نکلا۔ ہندو، عیسائی، احمدی عقیدے سے تعلق رکھنے والے افراد تو اس ظلم کا نشانہ بنے ہی، شیعہ ہزارہ برادری کے لوگ بھی اس زیادتی سے نہ بچ سکے۔

عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے کتنے ہی افراد کو توہین مذہب کے جھوٹے الزام میں پھنسایا گیا۔ ان کو زندہ جلا دیا گیا۔ ان کے چرچز پر حملہ کیا گیا۔ اسی طرح احمدیوں اور ان کی عبادت گاہوں کو بھی کئی مرتبہ نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ان کے خلاف نفرت ان کو کافر قرار دینے کے بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوبل انعام حاصل کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلام کو صرف احمدی عقیدہ کی وجہ سے قبول نہیں کیا گیا۔ شیعہ ہزارہ برادری کی اگر بات کی جائے تو ان پر بھی متعدد بار حملے ہوچکے جن میں ان کے کتنے پیارے اپنی جانیں گنوا چکے جس کے بعد ان کو ان کی میتیں رکھ کر احتجاج کرنا پڑتا ہے مگر انصاف پھر بھی نہیں مل پاتا۔

اسی طرح ہندوؤں سے تو شاید ہم سب سے زیادہ نفرت کرتے ہیں۔ جس کی وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی کی ہم نے ان کے مظالم سے تنگ آ کر ہی آزاد ملک حاصل کیا تھا۔ اور بچپن سے ہمیں یہی بتایا اور سکھایا گیا کہ وہ ہمارے ازلی دشمن ہیں۔ لیکن اس کی سزا یہاں پر رہنے والے ہندوؤں کو دینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ کہ کبھی تو ان کی بچیوں کو اغواء کر کے ان کو زبردستی مسلمان کیا جاتا ہے اور پھر مسلمان لڑکوں سے ان کی شادی کر دی جاتی ہے۔ یا پھر ہر کچھ عرصہ بعد ان کے کسی مندر پر دھاوا بول دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں رحیم یار خان کے علاقے بھونگ میں دیکھنے کو ملا۔

کیسے وہاں پر ایک آٹھ سالہ ہندو بچے کے مدرسے میں چلے جانے سے مدرسے کی بے حرمتی ہو گئی اور اسلام خطرے میں پڑ گیا؟ کہ پہلے اس بچے پر مقدمہ قائم کروایا گیا اور پھر ہجوم نے مندر پر دھاوا بول دیا اور ایسے توڑ پھوڑ کی گئی جیسے وہ سب سلطان محمود غزنوی کے جان نشین تھے۔ ہر ایسے واقعہ کی طرح اس میں بھی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ پھر سوشل میڈیا پر ویڈیوز آنے پر حکومت اور سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تو اس ضمن میں کارروائی کی گئی اور پھر سے مذمتی بیانات جاری کیے گئے، اور سب کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی کہ ہم اقلیتوں کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں اور ان پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔

جبکہ اس واقعہ کو ہندوستان کے میڈیا نے بار بار یہ کہہ کر دکھایا کہ پاکستان میں کیسے اقلیتوں کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے؟ لیکن یہاں پر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیکولر ازم کے داعی اور علمبردار ہندوستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں؟ تو ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ وہاں پر بھی اقلیتوں کے حوالے سے حالات پاکستان سے بالکل بھی مختلف نہیں ہیں۔ پاکستان کے الگ ہو جانے کے بعد بھی انہوں نے کچھ نہیں سیکھا اور اقلیتوں کے خلاف مظالم کو ویسے ہی جاری رکھا۔ تبھی جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا تو پاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض نے ہندوستان کو مخاطب کر کے ایک نظم لکھی تھی جس کے کچھ مصرعے یوں ہیں :

تم بالکل ہم جیسے نکلے
اب تک کہاں چھپے تھے بھائی
وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن
جس میں ہم نے صدی گنوائی
آخر پہنچی دوار توہارے
ارے بدھائی بہت بدھائی
پریت دھرم کا ناچ رہا ہے
قائم ہندو راج کرو گے
سارے الٹے کاج کرو گے
اپنا چمن تاراج کرو گے

بھارت میں ہندو راج قائم کرنے کا کام اب مودی حکومت میں اور زور و شور سے جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنا اور وہاں پر ہندو آبادکاروں کو بڑھانا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کے علاوہ وہاں نا صرف مسلمانوں کے خلاف حملوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے بلکہ عیسائیوں اور نچلی ذات کے دلتوں کے خلاف بھی نفرت بڑھتی ہوئی نظر آئی ہے۔ دسمبر 2019 میں سیٹیزن ایکٹ میں کی گئی ترامیم کا نشانہ بھی مسلمان ہی تھے۔

جس پر نئی دہلی میں احتجاج کرنے پر فروری 2020 میں دانستہ طور پر مسلمانوں پر حملہ کیا گیا تھا جس میں 40 سے زائد مسلمانوں کی جان چلی گئی تھی۔ اسی طرح کئی مرتبہ مسلمانوں کو گائے کا گوشت بیچنے یا کھانے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یا مسلمانوں کو ہندوؤں کے نعرے لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور ان کے خلاف نعرے لگائے جاتے ہیں جیسا کہ گزشتہ اتوار کو نئی دہلی میں ہوا۔

8 اگست، اتوار کی شام کو بھارتی پارلیمان کے پاس ہی معروف مقام جنتر منتر پر بعض سخت گیر ہندو تنظیمیں اور ان کے کارکنان احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے اور وہیں پر مسلمانوں اور مذہب اسلام کے خلاف نعرے بازی ہوئی۔ اس پروگرام کا اہتمام حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل اشونی اپادھیائے نے کیا تھا۔

اس سے متعلق ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا ہے جس میں لوگوں کو کھلے عام کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ”ہندوستان میں رہنا ہوگا تو جے شری رام کہنا ہوگا۔“ بار بار یہ نعرہ دہرانے کے بعد دوسرا نعرہ لگتا ہے، ”ملے کاٹے جائیں گے، تو رام رام چلائیں گے۔ سور کاٹے جائیں گے تو رام رام چلائیں گے۔“ وغیرہ وغیرہ

ویسے تو پاکستان کی طرح ہندوستان میں بھی اقلیتوں کے خلاف ایسے واقعات کے بارے میں مذمتی بیانات جاری کیے جاتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر کچھ بھی ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اب یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے اقلیتوں پر مظالم کے حوالے سے ہندوستان اور پاکستان ایک جیسے نکلے تو اس سوال کا سادہ سا جواب ہے کہ جب بھی ریاستی سطح پر اپنے اکثریتی مذہب کو برتر اور اعلیٰ سمجھ کر اس کا پرچار کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ ایسے حالات کی صورت میں ہی نکلے گا۔ دونوں ملکوں میں جب تک ریاست کی سطح پر یہ سوچ نہیں بدلے گی تب تک دونوں طرف اقلیتوں کی حالت شاید ایسے ہی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments