ہم کس وجہ سے بیمار ہو جاتے ہیں؟
آج ہم جب بیمار پڑتے ہیں تو کلینک یا اسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ کورونا وائرس کے حالیہ بحران کے دوران ہم نے دیکھا کہ پاکستان اور دیگر ممالک کی حکومتیں صحت کی سہولیات، اسپتالوں، طبی عملے، حفاظتی ساز و سامان، مصنوعی تنفس کی مشینوں (وینٹیلیٹرز) ، وائرس کے خلاف ویکسین وغیرہ کی فراہمی کی تگ و دو کر رہی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہارٹ اٹیک، فالج، دمہ کے دورہ سے لے کر مرگی اور پاگل پن کے دورہ کی صورت میں ہمیں اپنے مریض کو فوراً اسپتال لے کر پہنچنا ہے۔ اسی لئے اس مقصد کے لئے سائرن بجاتی ایمبولینس فراہم کی جاتی ہیں تاکہ راستے میں کسی قسم تاخیر نہ ہو سکے۔
مریض کے علاج کے لئے بھی مادی ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔ گولیاں، کیپسول، انجیکشن، ڈرپ، مرہم، بجلی کے جھٹکے، خون کی بوتلیں اور آپریشن سب مادی اشیاء ہی تو ہیں! لیکن کیا انسان کا بیماری کے اسباب کے بارے میں شعور ہر زمانے میں اتنا ہی واضح اور صاف شفاف رہا ہے؟! اس شعوری ارتقاء کو ہم مختلف ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں گو مختلف تہذیبوں اور اقوام میں کہیں کہیں ان ادوار کو تقسیم کرنے والی لکیریں خلط ملط بھی ہوتی ہوئی لگتی ہیں۔ جیسے ریل کی پٹریاں ایک دوسرے سے مل کر الگ ہوجاتی ہیں۔
1۔ مافوق الفطری طاقت کا نظریہ
قدیم ترین مخطوطات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیماری کے بارے میں سب سے پرانا خیال یہ تھا کہ کوئی نظر نہ آنے والی شے جسے مختلف تہذیبوں میں شیطان، جن، بدروح، دیو یا دیو زاد کہا جاتا تھا مریض کے جسم پر قبضہ کرلیتے ہیں چنانچہ بیماری سے علاج کے لئے دعا، جادو منتر، جھاڑ پھونک کا سہارا لیا جاتا۔
اس قسم کی طب کی سب سے اچھی مثال بابل و نینوا میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ جو آج سے قریبا ”چار ہزار سال پہلے کی دنیا میں ایک ترقی یافتہ تہذیب سمجھی جاتی تھی۔ اس وقت انسان کو اپنے جسم کے اعضاء کے افعال کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ زندگی کا مرکز اور روح کی قیام گاہ جگر کو سمجھا جاتا تھا۔ آج کل طب میں جو مقام دل کو حاصل ہے وہی جگر کو حاصل تھا جس کے کچھ اثرات آج تک شاعری میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
علاج کرنے والے دو قسم کے تھے : طبیب اور مذہبی رہنما یا پادری۔ ان دونوں میں پادری کا مقام بالاتر تھا ظاہر ہے جب انسانی جسم کے متعلق کوئی علم ہی نہیں تھا تو علاج سے بھی کم ہی افراد کو شفا ہوتی جبکہ مذہبی رہنما کی ناکامی کی صورت میں بعد از حیات مراحل کی آسانی کا گمان ہوا کرتا۔
یونانی دیو مالا میں صحت کا دیوتا اپالو ہے جو خود سب سے بڑے دیوتا زیوس کا بیٹا ہے جبکہ اس کا بیٹا ایس کے لیپیئس طب کا دیوتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف دیوی دیوتا صحت کے مختلف شعبوں کے ذمہ دار ہیں۔ ایپیون درد رفع کرنے کی دیوی ہے، آرٹیمس کا کام نوجوان عورتوں اور زچگی میں مدد کرنا ہے، کائرون جس کا اگلا جسم انسانی اور دھڑ اور ٹانگیں گھوڑے کی ہیں وہ وباؤں پر قابو میں رکھتا ہے۔
2۔ عذاب الہی کا نظریہ
انسانی شعور نے ترقی کی تو دیوی دیوتاؤں کا گنجلک نظام احمقانہ اور خلاف عقل لگنے لگا۔ توحیدی مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا وہ تمام طاقتیں جو پہلے مختلف دیوتاؤں میں تقسیم ہوا کرتی تھیں ایک ہی مافوق الفطرت قوت میں مرکوز ہو گئیں چنانچہ بیماری اور صحت یابی اسی ایک ذات کی ناراضگی اور خوشی سے نتھی لگنے لگے۔ پادریوں اور مذہبی رہنماؤں نے لوگوں کو بتانا شروع کیا کہ طوفان، زلزلہ اور سیلاب کی طرح وبا اور بیماری بھی انسان کے انفرادی یا اجتماعی گناہوں کی وجہ سے نازل ہوتے ہیں چنانچہ اجتماعی اور انفرادی عبادات، گناہوں سے توبہ، احکام الہی کی بجا آواری، صدقہ و خیرات اور قربانی کو بیماری سے چھٹکارا پانے کی سبیل قرار دیے گئے۔ اس دور کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ پہلی دفعہ اسپتال یا شفا خانے قائم کیے گئے جن میں بیماروں کو صحتمند آبادی سے الگ کر لیا گیا جبکہ بیماری کو گناہ سے جوڑنے کا سب سے منفی نتیجہ یہ ہوا کہ بیماری کو عذاب اور بیمار کو عذاب زدہ اور گناہ گار تسلیم کیا جاتا ہے۔
یونانی دیو مالا میں بھی صحت کا دیوتا اپولو اپنے اطاعت گزاروں کو وبا سے بچاتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ناراض ہونے پر تیر برسا کر طاعون اور دیگر بیماریاں لا سکتا ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ بیماری کے اس مذہبی تصور نے توحیدی مذاہب کے ماننے والے فلاسفرز اور حکماء کو امراض کے مادی اور غیر روحانی اسباب کو سمجھنے اور ان کے مادی علاج تلاش کرنے سے باز نہیں رکھا یہی وجہ ہے کہ اموی اور عباسی بادشاہتوں میں بہت سے ایسے طبیب اور کیمیا دان گزرے ہیں جو مذہبا ”یہودی، عیسائی یا مسلمان تھے۔
3۔ مییاسمہ یا بری ہوا کا نظریہ
قدیم زمانے سے اٹھارہویں صدی تک وباء، آفت اور طاعون کو ہم معنی سمجھا جاتا تھا۔ یونانی فلسفی بقراط ( 370۔ 460 قبل مسیح) نے کہا کہ ”وبا اور بری ہوا ایک ہی چیز ہے“ قرون وسطی ( 500 سے 1500 عیسوی تک) کے دوران اس نظریہ کا پھر سے چلن ہوا۔ جب مفسد ہوا، وبائی ہوا، تعفن اور سڑاند کو بیماری کا سبب سمجھا جانے لگا۔ یاد رہے کہ اس وقت تک انسان کے جسم کی تشریح (اناٹومی) اور فعلیات (فزیالوجی) کے متعلق جو معلومات موجود تھیں ان کا ماخذ صرف قیاس آرائی (منطق) تک محدود تھی۔
عرب ہسپانوی طبیب ابن خطیمہ ( 1349 ع) نے تحریر کیا کہ ”طاعون کا فوری سبب بالعموم ہوا کی غلاظت ہوتی ہے جو انسانوں کے گرد موجود ہوتی ہے اور جس میں لوگ سانس لیتے ہیں“
بیماری کی یہ توجیہ اس سے پہلے گزرے دونوں تصورات کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہے کیونکہ یہ محسوس ہونے والے مادے یعنی بدبودار ہوا میں بیماری کا سبب ڈھونڈتا ہے۔
اس نظریہ پر عمل کرتے ہوئے چودھویں صدی میں فرانس کی میڈیکل فیکلٹی نے خوشبوؤں اور اگر بتی کے استعمال کی ہدایت کی جو ”ہوا میں سڑانڈ کو روکتے ہیں۔ اور بدبو ختم کر کے اس کے نتیجہ میں ہونے والی خرابی کا مداوا کرتے ہیں“
اس کے چند سال بعد برطانوی پارلیمان نے ایک قانون بنایا جس کی رو سے ”جانوروں کا گوبر، آنتیں، اوجھڑی اور اس طرح کی غلاظت کو گڑھوں، دریاوں اور تالابوں میں پھینکنے پر پابندی عائد کی گئی۔ کیونکہ اس طرح ہوا آلودہ اور متعفن ہو کر“ بہت سی بیماریوں اور ناقابل برداشت تکالیف کی وجہ بنتی ہے۔ ”
کتنی دلچسپ بات ہے کہ ملیریا ایک اطالوی لفظ کے جس کے معنی ہیں بری ہوا!
میازمہ کے نظریہ کو پیش کرنے والے اس بات کے لئے داد و تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بیماری کی توجیہہ کے لئے جن بھوتوں اور مافوق الفطرت قوتوں کے بجائے کوئی مادی اور سائنٹفک سبب تلاش کرنا شروع کیا۔ اسی نظریہ کے تحت شفا خانوں کو پر فضا مقام پر اور ہوا دار بنانے کا آغاز ہوا۔ بیماری سے بچنے کے لئے ماسک پہننے کا رواج بھی اسی نظریہ کی دین ہے۔
4۔ جالینوس، ابن سینا اور چار مزاج
اصل میں بقراط نے انسانی جسم میں چار مزاج کو پہلی مرتبہ بیان کیا تھا لیکن پھر جالینوس نے اس تصور کی مزید وضاحت کردی۔ قرون وسطی میں عرب اطباء بالخصوص ابن سینا کی معرکة الآرا تصنیف القانون فی الطب کے توسط سے مزاج یا ہیومرز کا یہ خیال یورپ تک جا پہنچا۔ اس نظریہ کے مطابق جسم انسانی میں چار رطوبتیں خون، بلغم، صفرا اور سودا پائی جاتی ہیں۔ جسمانی اور نفسیاتی امراض ان اجزاء کے مابین تناسب اور توازن کی کمی سے پیدا ہوتے ہیں چنانچہ ان کا علاج کسی ایک رطوبت کو کم کر کے پیدا کیا جاسکتا ہے۔ جس کے لئے فصد خون (حجامہ) ، جلاب اور قئے آور ادویات کا استعمال کیا گیا جو اٹھارہویں صدی تک جاری رہا۔ طب یونانی کی بنیاد چار مزاج کا نظریہ ہے اسی لئے حکماء غذا کی تاثیر کو گرم یا سرد، بادی یا بلغمی بتاتے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابن سینا کو نظام تنفس اور جسم میں خون کی گردش کے متعلق صحیح علم نہیں تھا۔ ہاں البتہ ایک اور عرب فلاسفر ابن نفیس کو وہ پہلا شخص مانا جاتا ہے جو نظام قلب اور تنفس کو سمجھنے میں کامیاب رہا۔
حال ہی میں ثناء مکی نامی دست آور جڑی بوٹی سے متعلق گمراہ کن معلومات بھی درج بالا نظریہ کے تحت ہی پھیلائی گئیں۔
انتہائی حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ہندوستان کا قدیمی طریقۂ علاج آیور ویدک کے مطابق تین ’دوش‘ یعنی ہوا، صفرا اور بلغم کا خیال پایا جاتا ہے جن میں عدم توازن بیماری کا سبب بنتا ہے۔ جسم میں اس توازن کو دوبارہ واپس لانے کے لئے پانچ بنیادی اعمال میں قے، جلاب، اینیما، ناک کی صفائی اور حجامہ یا جونک لگا کر خون کا اخراج شامل ہیں۔
5۔ جراثیم اور بیماری کا تعلق
سترہویں صدی کے دو سائنسدان رابرٹ ہک اور انتونی وان لیوون ہوک کو اعزاز جاتا ہے کہ انہوں نے سادہ سے خورد بین کی مدد سے ان چھوٹے چھوٹے اجسام کا سراغ لگا لیا گیا جنہیں خوردبینی اجسام، جراثیم یا مائیکروب کا نام دیا دیا گیا۔
ابتدا میں سائنسدانوں کا خیال یہ تھا کہ غیر جاندار اشیاء سے خود بخود زندگی جنم لیتی ہے۔ مثال کے طور پر کچرے کے ڈھیر پر مکھیاں وجود میں آجاتی ہیں چنانچہ بیمار جسم نظر نہ آنے والی مخلوق کی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔ 19 ویں صدی کے وسط تک تمام سائنسدان اسی نظریہ پر یقین رکھتے تھے حتی کہ فرانسیسی ماہر حیاتیات لوئی پاسچر نے اپنے سائنسی تجربات سے ثابت کر دیا کہ یہ نہ نظر آنے والے اجسام اصل میں وہ جرثومے ہیں جو بیماری کا سبب بنتے ہیں۔ اس تصور نے ہزار ہا سال سے جاری انسانی جدوجہد کو اپنے انجام تک پہنچا دیا اور ایک عظیم ترین انقلاب برپا ہو گیا۔ بیماری کی ابتدا کے متعلق تمام قدیمی نظریات لغو اور افسانوی قرار پائے۔
1865 میں جوزف لسٹر نامی برطانوی سرجن نے لوئی پاسچر کے جراثیمی نظریہ کے مطابق کاربولک ایسڈ سے زخم کو صاف کرتے ہوئے تاریخ کی پہلی جراثیم کش یا اینٹی سیپٹک سرجری کی جس کے بعد سے آپریشن کے بعد انفیکشن سے مرنے والوں کی تعداد میں بہت بڑی کمی واقع ہو گئی۔ جوزف لسٹر کو جدید جراحت کا بانی کہا جاتا ہے۔
1923 میں پہلی جراثیم کش دوا پینسلین کی ایجاد کا سہرا سر الیکسنڈر فلیمنگ کو جاتا ہے۔
بیماری کے جراثیمی نظریے کی مدد سے آگے جا کر بنی نوع انسان نے انتہائی چھوٹے اجسام جنہیں وائرس کہتے ہیں کو دریافت کیا اور ان کے علاج کے لئے اینٹی وائرل اور ویکسین ایجاد کیں جن سے وباؤں پر قابو ممکن ہے۔
- مس فردوس ایک باعزت موت مرنا چاہتی تھیں - 29/01/2024
- ڈھلتی عمر کے مردوں میں پراسٹیٹ کے مسائل - 13/01/2024
- سال 2023 میں طب کے میدان میں عظیم ترین پیش رفت - 01/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).