وطن عزیز میں انصاف کا فقدان اور یوم آزادی


اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے وطن عزیز پاکستان کو آزادی حاصل کیے اب 74 سال ہو رہے ہیں اور ہمیشہ کی طرح اب بھی وطن عزیز میں 14 اگست کا دن بڑے جوش جذبہ اور احترام کے ساتھ یوم آزادی کے طور پر منایا جائے گا۔ ان شاء اللہ

ہماری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وطن عزیز پر ہمیشہ اپنا سایہ رکھے۔ اور دشمن کی حاسدانہ نظر سے اسے بچائے رکھے۔ اور اہالیان پاکستان کو خوشحالی عطا کرے۔ ہر ایک کو آزادی اور امن کے ساتھ یہاں رہنا نصیب ہو۔ آمین ثم آمین

یوم آزادی منانے سے نوجوان نسل کو وہ قربانیاں یاد دلانا مقصود ہوتی ہیں جن کے بعد وطن عزیز حاصل کیا گیا۔ اور پھر یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ قوم نے کس کس میدان میں کتنی ترقی کی اور کہاں کہاں مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

جب اس نقطۂ نظر سے قوم کی حالت پر نظر دوڑائیں تو بڑا بھیانک منظر سامنے آتا ہے یہ صرف کہنے اور لکھنے کی بات نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے۔ آپ کسی بھی دن کا اخبار پڑھ لیں۔ ٹی وی پر خبریں سن لیں انحطاط اور بدامنی نظر آئے گی۔ کل اور آج کی خبروں میں ( 27۔ 28 جولائی 2021 ء) کی خبروں کی بات کر رہا ہوں کم سن بچیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کی خبریں بار بار دہرائی جا رہی ہیں۔ نیز بعض کو زیادتی کے بعد بے رحمی سے قتل کرنے کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔

نور مقدم قتل کیس، 27 جولائی 2021 ء کی خبر کے ساتھ ساتھ یہ خبریں دیکھئے۔ خیبر پختونخوا میں سگی بہن کو زنجیروں سے باندھ کر کمرے میں بند رکھنے پر تین بھائی گرفتار (بی بی سی اردو) ۔ خاموش رہیں اندر لڑکی قتل ہو رہی ہے، بی بی سی میں اردو کالم، عاصمہ شیرازی کا کالم ”ہم گناہگار عورتیں“ سیلاب، لوٹ کھسوٹ، بے ایمانی اور مذہب کے نام پر مساجد سے کلمہ مٹانے کی پولیس کی موجودگی میں کارروائی۔ مساجد کے مینار گرانے اور قربانی کرنے والے احمدی مسلمانوں اور قصائی کی گرفتاری وغیرہ وغیرہ ایسے امور ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ میں آپ کو تھوڑا سا ماضی میں لئے چلتا ہوں۔

مذہب کی آڑ اور توہین رسالت کے مذعومہ جرم میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قتل۔ شہباز بھٹی اقلیتوں کے لیڈر کا قتل کس بنا پر ہوا؟ پھر گوجرہ میں عیسائیوں کے گرجے اور گھروں کو آگ لگانے کی وطن عزیز میں کارروائی۔ احمدیوں کی دو بڑی عبادت گاہوں واقع لاہور میں 28 مئی 2010 ء کو حملہ جس میں 86 سے زائد افراد مارے گئے اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔ احمدیوں کی عبادت گاہوں کی پیشانی سے کلمہ مٹانے کی کارروائی۔ صرف یہی نہیں بلکہ احمدیوں کے قبرستان سے مردے اکھاڑے گئے۔ ان کے قبرستانوں میں نام کی تختیوں کی بے حرمتی تک کی جا رہی ہے۔ اور بعض جگہوں پر فوت شدگان کی تدفین سے بھی روکا جا رہا ہے۔ کیا یہی انصاف ہے؟ میں کیا کیا بات لکھوں؟

حال ہی میں عید الاضحیٰ پر کئی جگہ احمدیوں کو قربانی سے روکا گیا۔ جانور ہی اٹھا کر لے گئے۔ اور ان کے خلاف پرچہ بھی درج کرایا گیا۔ اس پر کسی مثبت سوچ رکھنے والے نے ٹویٹ کیا۔ کہ اب حد ہو گئی ہے، آپ نے انہیں کافر کہہ دیا۔ اسمبلی سے کافر ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کر دیا۔ آپ نے علماء سے انہیں کافر ہونے کا فتویٰ بھی صادر کرایا۔ اب ان کو جینے بھی دیں۔ اس پر اس شخص پر لوگوں کے لعن طعن کی بارش ہو گئی

اور ستم ظریفی دیکھئے کہ جب حکومتی افسران یورپین ممالک کا دورہ کرتے ہیں اور ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ یہ ناروا سلوک ہو رہا ہے تو صاف جھوٹ بول دیتے ہیں کہ نہیں ایسا ہرگز نہیں انہیں ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اس سلسلہ میں میں ایک پرانے اخبار سے جو کہ روزنامہ ایکسپریس 12 جنوری 2010 ء سے جناب جاوید چودھری صاحب کے ایک کالم سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں :

عذاب کس کو کہتے ہیں؟

”پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی ہے ہم اس جنگ میں وہ سب کچھ کھو چکے ہیں جو 62 برسوں میں حاصل کیا تھا۔ ہماری معیشت آخری دموں پہ پہنچ چکی ہے۔ ہماری انڈسٹری، کاروبار، سیاحت اور بازار بند ہوچکے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے۔ جس کے تعلیمی ادارے تک دہشت گردی کی وجہ سے بند ہو گئے تھے۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہو چکی ہے پورے ملک کا انفراسٹرکچر ٹوٹ چکا ہے۔ ملک میں 18۔ 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ تمام بڑے شہروں پر خودکش حملوں کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں جنگ ہو رہی ہے اس لئے پہلے سوات میدان جنگ تھا، سوات کی جنگ ختم ہو گئی مگر زندگی ابھی تک وہاں پر معمول کے مطابق نہیں آئی۔ سارا معاشرہ بے روزگاری، مہنگائی، تشدد، دہشت گردی، ڈپریشن اور لائیسنس (Lawlessness) کی انتہا کو چھو رہا ہے۔ اور اس جنگ میں ہمارے اتنے فوجی افسر اور فوجی نوجوان شہید ہوچکے ہیں جتنے 3 جنگوں میں نہیں ہوئے تھے۔ لیکن اس خدمت کا صلہ ہمیں تذلیل، بے عزتی اور توہین کی شکل میں مل رہا ہے۔“

خاکسار یہ بتانا چاہتا ہے کہ میں اس تراشہ کے سیاسی پہلوؤں پر تو گفتگو نہیں کرنا چاہتا لیکن اخلاقی پہلوؤں کو ضرور چھوؤں گا کہ جس قوم کے اخلاق بگڑ جائیں وہ عذاب ہی کی مستحق ہوتی ہے اور ہر قسم کی آفتیں اس پر آتی ہیں۔ ایسے میں یوم آزادی کا کیا مطلب ہوگا؟

دیکھنے والی بات اور غور کرنے والی بات یہ ہے کہ وہ کیا عزائم اور مقاصد تھے جن کی بنیاد پر پاکستان کو حاصل کیا گیا تھا۔ قائد اعظم کا پاکستان بنانے کے لئے وہ کون سا خواب تھا جو آج تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا؟

جس ملک میں انصاف کا فقدان ہو جائے۔ جس ملک میں انسانیت کا عزت و احترام ختم ہو جائے۔ جس ملک میں لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت، بے ایمانی اپنی حدوں کو بھی پھلانگ جائے وہاں کس قسم کی آزادی منائی جائے گی!

قوم کس بات پر نازاں ہے؟ کہ ہم بے ایمانی میں بڑھ گئے ہیں۔

قوم کس بات پر نازاں ہے اور فخر سے سر بلند کر رہی ہے؟ کہ ملاازم کا بھوت حکومت کے سر پر سوار ہے جو ان کی گردن کو اب خدائے واحد کے آگے جھکانے کی بجائے ملاں ازم کے آگے جھکا رہا ہے۔

جس قوم میں عزت و احترام ختم ہو جائے، مذہب کی آڑ میں انسانی قدروں کا خون کر دیا گیا ہو۔ پھر وہ یوم آزادی کس طرح منا سکتی ہے؟

جیسا کہ میں نے کہا بس سلامیاں لے کر، مساجد میں دعائیں مانگ کر، یہ دعائیں جو مانگتے ہیں خدا ان کو سنتا کیوں نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ قوم اپنی کرتوتوں پر شرمندہ نہیں ہوتی، تائب نہیں ہے، لبوں پر دعا اور دل میں کچھ اور۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تو ظالم نہیں ہے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ بندے خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔

خاکسار نے بہت پہلے ایک مضمون لکھا تھا جو امریکہ کے دیگر اخبارات میں شائع ہوا جس کا عنوان تھا۔
Freedom isn’t freedom without justice.

یہ ملک امریکہ جس کی اکثریت عیسائیت اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھتی ہے جب اس نے اپنا آئین بنایا تو ہر ایک شخص کو خواہ وہ کسی مذہب، قوم اور ملت سے تعلق رکھتا ہو۔ اسے اس میں پوری آزادی دی ہے۔ وہ کوئی بھی مذہب اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن وائے افسوس! وطن عزیز کو آزادی حاصل کرانے میں جس گروپ اور لوگوں نے قربانیاں دیں انہیں ہی آج اس ملک میں بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔

ہر دو ملک کے آئین اور قوانین کو دیکھئے آپ کو بہت بڑا فرق نظر آئے گا ”امریکہ ہر ایک کو مذہبی آزادی دیتا ہے جب کہ وطن عزیز میں یہ آزادی آئین اور قانون کے ذریعہ ختم کر دی گئی ہے۔ قائد اعظم نے تو آزادی حاصل کر کے سب کو آزادی دے دی تھی کہ تم آزاد ہو مساجد میں جانے میں تم آزاد ہو۔ اپنے مندر میں جانے کے، ریاست کا تمہارے مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہوگا۔ لیکن جوں ہی بانیٔ پاکستان نے آنکھیں بند کیں تو وہ آزادی سلب کر لی گئی اور اس پر فخر یہ کہ اسے اب آئین کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ اٹل قانون بیان فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جو خود اپنی حالت نہیں بدلتی۔ اور حالت بدلنے کی نشانیاں اور علامات یہ ہیں کہ قوم میں سچائی آ جائے، بے ایمانی ختم ہو جائے، ہر ایک کو آزادی دی جائے۔ احترام انسانیت ہو، امتیازی سلوک ختم کیا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قوم میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور تقویٰ پیدا ہو جائے۔

وطن عزیز میں رہنے والے 14 اگست کو بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کو کس چیز پر خراج تحسین پیش کریں گے۔ ان کی روح کو ایصال ثواب پہنچانے، شاید فاتحہ خوانی بھی کریں۔ لیکن اس کا کیا مقصد ہوگا؟

اے ہمارے محسن بانیٔ پاکستان ہم نے تیرے احسان کا بدلہ پاکستان کو ملاؤں کے اور دہشت گردوں کے سپرد کر کے پوری قوم کا جینا حرام کر دیا ہے۔ ہم نے اقلیتوں کی آزادی سلب کر دی ہے اور اب وہی ہاں وہی جنہوں نے اس ملک کی آزادی کی خاطر قربانیاں دی تھیں ان کو ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا ہے۔ اب بتاؤ ہم تیرے احسانوں کا کس طرح شکریہ ادا کریں۔

پس میں وطن عزیز میں رہنے والے ہر درد مند پاکستانی سے عرض کرتا ہوں کہ خدا کے لئے اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور قائد اعظم کا خواب شرمندہ تعبیر کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments