یہ غلامی سے غلامی کا سفر لگتا ہے


غلامی کی یہ رسن بہت طویل ہے۔ اس کا سرا کبھی مغلوں کے ہاتھ میں رہا تو کبھی افغانیوں کے ہاتھ۔ سرے کو تھامنے والے حوادث کے تھپیڑوں سے بدلتے رہے۔ جن کی گردنوں میں یہ رسن تھی وہ بھی بدلتے رہے، مگر فرق صرف اس قدر تھا کہ یہ رسن ایک نسل سے اگلی نسل میں منتقل ہوتی رہی، خوش فہمی بھلا کیوں ہمیں بھی ہو کہ نسل در نسل چلنے والا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ میٹھی لوری سنا کر کسی نومولود کی طرح سلایا جاتا ہے کہ ہمیں چودہ اگست کو آزادی نصیب ہوئی تھی۔

صاحب! کیوں دھوکے میں ڈالتے ہو، خوب تم جانتے ہو کہ چودہ اگست سے پہلے بھی ہمارے آبا غلام تھے اور بعد میں بھی مسلسل رہے۔ آزادی صرف حیاتوں، ٹوانوں، جاٹوں اور ہماری ہڈیوں پر اپنے عشرت کدوں کی بنیادیں استوار کر کے دن رات زندگی سے لطف اندوز ہونے والوں کو ملی تھی، گوروں سے۔ انگریزوں کے غلام تو یہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے تھے۔ ہمارے پرکھوں سے تو پہلے بھی انگریز کو سروکار کچھ نہ تھا۔ خون چوسنے کو انگریز نے یہ کارندے نوکر کر رکھے تھے۔

ہمارے لیے وہ سائیں، چوہدری صاحب، نمبردار اور پیر صاحب تھے مگر انگریزوں کے وہ ملازم ہی تھے۔ ہماری سال بھر کی فصلوں سے حصہ لیتے، تھوڑے سے اپنی عیش کا سامان کرتے اور باقی اپنے آقا انگریز کے ہاں بھجوا دیتے۔ چودہ اگست سے پہلے جو حصہ انگریزوں کو جاتا تھا وہ اب ان وڈیروں کے پاس ہی رہنے لگا۔ ہم برابر حصہ دیتے رہے۔ خون ہمارا مسلسل جلتا رہا۔ بھوک کا بھوت ہمارے گھروں کا مکین رہا۔ ہر بچہ اپنی پیشانی پر بد قسمتی و غلامی کا داغ لیے پیدا ہوتا، چودہ اگست سے پہلے بھی، اور اس عظیم آزادی کے بعد بھی۔

آپ بھی درد دل رکھتے ہوں گے، ذری دیر کو بتائیے تو ہم کہاں آزاد ہوئے؟ چودہ اگست سے پہلے ہم صرف علاقے کے چوہدری یا نمبردار کے غلام تھے۔ آزادی کے بعد بیوروکریسی، پولیس، عدلیہ، اور سیاستدانوں کی غلامی بھی گوارا کرنا پڑی۔ ہمارے دادا پڑدادا تو اس بات سے کاملاً بے خبر تھے کہ کانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان کیا جھگڑا چل رہا ہے۔ انہیں خبر تھی تو صرف ہاتھ سے کاشت کی ہوئی فصلوں کی۔ جس سے نمبردار کو لگان بھی ادا کرنا ہوتا تھا اور سال بھر کے لیے اپنے کھانے کا انتظام بھی۔

جس سال فصل کم ہوتی، بات فاقوں سے بھی بڑھ جاتی۔ گھروں سے کئی ہفتے دھواں نہ اٹھتا۔ بچوں کے چہرے سے رعنائی عالم بالا چلی جاتی جو تمام عمر واپس نہ آتی۔ فصل کم ہو یا زیادہ، وہ اپنا حصہ پورا لیتے۔ اگلے وقتوں میں شاید کچھ رحم کی مثالیں تھیں، مگر اب ہر طرف ان انگریز کے کارندوں نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ آزادی سے پہلے زمینوں کے کاغذات نہ تھے، دہلی یا دوسرے شہروں کے مضافات میں زمینوں کے کاغذات کا کسی حد تک سلسلہ تھا۔

چودہ اگست کے بعد جس کا بس چلا وہ اتنی زیادہ زمین لے اڑا۔ دھڑا دھڑ رشوت دے کر زمینوں کے نقلی کاغذات تیار کروائے گئے۔ جو صدیوں سے زمینیں کاشت کر رہے تھے وہ بے دخل کر دیے گئے، ان کو مزارع بنا لیا گیا، غلامی کی ایک نئی قسم۔ ہماری زندگی کا محور پہلے بھی دو وقت کی روٹی تھی اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ ہمارے پرکھے بھی مشقت کرتے دنیا سے رخصت ہوئے، ہم بھی ایسا کرتے ہی کوچ ادھر کو کریں گے جہاں سے کوئی نہیں پلٹتا۔

ملتان کے قریشی ہوں یا ڈیرہ غازی خان کے سردار، گوجرانولا کے چٹھے ہوں یا سندھ کے نواب زادے، ہر کسی کو آزادی مبارک، مگر ہم ایسوں کو نہیں۔ یہ غلامی سے غلامی کا سفر نہیں تو اور کیا ہے؟ ہر بار کیوں آپ ہمارے آبلوں پر نمک پاشی کرتے ہیں کہ آج ہم آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔ آزادی سے پہلے اور بعد میں کسان نمبردار کے خلاف کہیں مل بیٹھ کر سرگوشی کر لیتے تھے۔ آج کسی کے ساتھ مل بیٹھنے کا تو وقت ہی میسر نہیں، تاہم سوشل میڈیا اس کمی کو پورا کر رہا ہے۔

کیا سوشل میڈیا پر آزادانہ بولا جا سکتا ہے، لکھا جا سکتا ہے۔ تو پھر کاہے کی آزادی۔ بولو تو اسد طور کی طرح بازو تڑواؤ، لکھو تو احمد نورانی کی طرح جلا وطن ہو۔ زندگی کا کوئی ایک پہلو تو جہاں پر لفظ آزادی کا اطلاق کیا جا سکے۔ ہمیں تو کوئی بھی ایسا پہلو نہیں ملا، یقین رکھیں کہ آپ کو بھی نہیں ملے گا۔ سوچ ہار کر پلٹ آئے گی۔ کیا آزادی کا لفظ ہماری تاریخ سے خذف ہو سکتا ہے، اگر کوئی ایسا کر دے تو ہم اس کی غلامی میں آنے کو رضا مند ہیں کہ کچھ مشقت نہیں اگر ایک آقا اور بڑھ جائے۔

نوٹ: اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس تحریر کا عنوان عباس تابش کے مصرعے ”یہ مدینے سے مدینے کا سفر لگتا ہے“ کا سرقہ ہے، تو وہ بالکل ٹھیک سمجھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments