چبا لیں خود ہی کیوں نہ اپنا ڈھانچہ!


میں نے بس سنا ہی سنا ہے کہ دلی سات بار اجڑی۔ مگر گزشتہ چالیس برس میں کابل کا تین بار اجڑنا تو ہم نے بھی اپنی زندگی میں دیکھ لیا۔ کسی کو اشرف غنی کی سرکار سے ہمدردی ہے تو کسی کو طالبان کی آنے والی جیت کی شکل میں اپنے خواب پورے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

سب کی نگاہیں، میڈیا کے کیمرے، اقوامِ متحدہ کی غلام گردشیں، ہمسایہ ممالک کے دارالحکومت، سفارتی مداری، مصیبت کو منافع بخش صنعت میں بدلنے کے ماہر شکرے، معدنی دولت کھدیڑنے کے منتظر کارپوریٹئے، کرائے پر جنگی خدمات بجا لانے والی کمپنیاں اور سیاسی بچولیے منتظر ہیں کہ پلڑا کس جانب جھک رہا ہے۔

طالبان ایک کے بعد ایک صوبائی دارالحکومت لیتے جا رہے ہیں اور امریکی بی باون طیاروں کی چھتر چھایا بھی کابل حکومت کی بدانتظامی، حواس باختگی، مزاحمت کے کاغذی دعوے اور ہنوز دلی دور است کی سوچ کو تحفظ دینے میں ناکام ہے۔

بظاہر ساڑھے تین لاکھ نفر پر مشتمل افغان فوج کا بجٹ پانچ سے چھ ارب ڈالر سالانہ ہے جس کا پچھتر فیصد امریکا پورا کرتا ہے۔ ناٹو افواج اپنا بھاری سامان بھی ساتھ لے جانے کے بجائے افغان فوج کے استعمال کے لیے پیچھے چھوڑ گئی ہیں۔ افغان فضائیہ کے پاس ایک سو چھہتر طیارے اور ہیلی کاپٹرز بھی ہیں۔ چھتیس میں سے اٹھائیس صوبائی دارالحکومت بھی بظاہر کابل انتظامیہ کے قبضے میں ہیں۔

مگر ایک مربوط جنگی حکمتِ عملی کا فقدان، ہر عہدیدار کا ڈسپلن کی لڑی میں پروئے جانے سے انکار اور شیر اور شکاری کے ساتھ بیک وقت بھاگنے کی عادت اور دوستوں سے زیادہ دشمن بنانے کی غیر معمولی صلاحیت، مشکوک وفاداریاں اور یک سوئی کی قلت نے افغان فوج کو رانا سانگا کے لشکر میں تبدیل کر دیا ہے جس کے خوفزدہ ہاتھی اپنی ہی سپاہ کو روندنے پر آمادہ ہیں۔

طالبان کی تعداد اگرچہ اسی ہزار سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ ان کے پاس اسلحہ بھی ہلکا ہے۔ ان کا بنیادی ہتھیار کاشنکوف یا گن بردار ہلکے ٹرک ہیں۔ مگر ڈسپلن، یکسوئی اور دشمن کو حیرت میں ڈال دینے کی فوجی حکمتِ عملی اور پروپیگنڈے کے مروجہ جدید طریقوں کو چابکدستی سے استعمال کر کے گھوڑے کو ہاتھی کے حجم کا دکھانے کی خبری صلاحیت حیرت انگیز نتائج پیدا کر رہی ہے۔

پچھلے بیس برس میں مسلسل حالتِ جنگ میں رہنے کے سبب جنگ طالبان کی عادتِ ثانیہ اور آن دی جاب اکیڈمی بن چکی ہے۔ اس کا نتیجہ اندھا دھند لڑائی میں وسائل جھونکنے کے بجائے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سرحدی ناکوں پر قبضے اور پھر شہروں کے محاصرے والی حکمتِ عملی میں واضح جھلک رہا ہے۔

مگر کوئی عام افغان سے نہیں پوچھ رہا کہ بھیا تجھے کون چاہیے اور اس سے کیا چاہیے۔ تو پچھلے چالیس برس میں دو سپرپاورز، بیسیوں جنگجو ملیشیاؤں اور آس پاس کے ملکوں کی شطرنجی بساط پر بار بار پٹنے کے بعد، سیاسی اور معاشی کرپشن کی چکی میں لاکھوں پیاروں کو گیہوں کے دانوں کی طرح آٹا بنوانے کے بعد اب اپنے لیے اور اپنے پوتوں نواسوں کے لیے کیسا سماج اور ملک چاہتا ہے۔

اب تو مجھے وہ کہانی بھی سچ لگ رہی ہے کہ خدا نے چھ دن میں یہ دنیا بنائی اور جو فالتو پتھر، گارا، مٹی بچ گئے ان سے ساتویں دن افغانستان بنا دیا اور پھر اوپر جا کر براجمان ہو گیا۔ اگر واقعی اوپر والا انسانوں کی طرح علاقوں کی قسمت بھی پہلے سے لکھ دیتا ہے تو یقین مانو جب افغانستان کی قسمت لکھنے کا وقت آ یا ہوگا تب تک قدرت کے قلم کی روشنائی خشک ہو چکی ہو گی۔ اور پھر متعلقہ فرشتے نے افغانستان کی جنم پتری پر ٹیڑھی میڑھی لکیریں بنا کر فائل بند کر دی ہو گی۔

میں سوچتا ہوں کہ کوئی تو پیمانہ ہوگاجس کے مطابق کہیں یہ فیصلہ ہوتا ہو گا کہ اگر کوئی قوم اتنے سر کٹوا لے، اتنے ہزار لیٹر لہو خیرات کر دے اور اتنے فیصد در در کی ٹھوکریں کھا لے تو پھر اسے اتنے برس یا اتنے دن یا اتنے لمحوں کے لیے اتنے کلو سکون دے دو، اتنے لیٹر خوشی دے دو اور کھڑکی بھر نیلا آسمان دے دو۔

پچھلے چالیس برس میں تین ملین افغان باہر دھکیل دیے گئے۔ ایک کروڑ سے زیادہ اندرونِ ملک دربدر ہو گئے، لاکھوں زمین کی گہرائی میں سو گئے۔ چوتھی نسل کے نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والے بچے پشاور، لاہور، کراچی کی گلیوں میں کچرا جمع کرنے کے تھیلے لے کر گھوم رہے ہیں۔

جن کے پاس پیسہ، دبدبہ، سفارش اور تعلقات تھے انھوں نے خلیجی ریاستوں، سرسبز یورپی گلیاروں اور شمالی امریکا میں لوٹ اور کرپشن، اسمگلنگ کے پیسے اور اپنے ہی لوگوں کا مستقبل پیشگی فروخت کر کے محل کھڑے کر لیے۔ جو بیس برس سماج کی تعمیر کے لیے نصیب ہوئے تھے اس مدت میں من و سلوی کی طرح برسنے والے کھربوں ڈالر ان جیبوں میں غائب ہو گئے جن کی گہرائی بس خدا ہی جانتا ہے۔

پھر بھی کوئی بتائے کہ اور کون سی قیامت ٹوٹنے کو رہ گئی ہے، اب کون سی قربانی باقی ہے جس کے بعد افغانستان کے گھائل کشکول میں تھوڑا سا سکھ اور مٹھی بھر خوشی آ جائے۔ تو کیا افغانستان کی فائل گم ہو گئی ہے یا دنیا اندھی ہو گئی ہے ؟

پچھلے چالیس بیالیس برس سے ایسا کیوں ہے کہ ہر چند برس بعد کابل اجڑ جاتا ہے، ہرات کپکپانے لگتا ہے، قندھار کی آنکھیں خوف سے ابل کے باہر آ جاتی ہیں۔ مزار شریف کو لقوہ ہو جاتا ہے۔ مگرکیوں ؟ اگر انسانوں کی طرح ممالک کو بھی موت آ سکتی تو میں پہلا انسان ہوتا جو دعا کرتا کہ یا تو افغانستان پر سے خوف اور موت کی نحوست اٹھا لے یا پھر افغانستان کو ہی اٹھا لے۔

یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی

یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم

چبا لیں خود ہی کیوں نہ اپنا ڈھانچہ

تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم

(جون ایلیا)

بشکریہ: ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments