ہم گٹر کے پانی پر پلنے والی اقلیت ہیں، مائی باپ!


11 اگست کو اقلیتوں کے قومی دن کے موقع پر ہمارے قومی میڈیا نے مژدہ سنایا ہے کہ عمران خان کے فلاحی ریاست کے ”ویژن“ اور وزیر اعلی پنجاب کی متحرک ”قیادت“ میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے لیے ترقیاتی بجٹ میں 5 گنا اضافہ کیا گیا ہے۔

ہماری کم عقلی و کوتاہ بینی ہے کہ ”ویژنری“ وزیر اعظم کی موجودگی اور ”متحرک“ وزیر اعلی کی ”اعلی قیادت“ میسر آنے کے باوجود ہم ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ اس مملکت ناپرساں میں ”فلاح و بہبود“ کس چڑیا کا نام ہے اور ”حقوق کے تحفظ“ کی اصطلاح کو کس مفہوم میں برتا جاتا ہے۔ رہ گئی ”فلاحی ریاست“ ، تو وہ عشوہ طراز حسینہ کی طرح سولہ سنگھار کیے اسلام آباد کے شاہراہ دستور پر جھانجھریں چھنکاتی پھر رہی ہے۔

آئین پاکستان میں صرف اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ حاصل نہیں ہے، بلکہ آئین کی شق 25 کے تحت پاکستان کے تمام شہریوں کے یکساں حقوق ہیں اور مذہب، نسل، زبان اور علاقائی بنیاد پر کسی شہری سے امتیازی سلوک کی اجازت نہیں۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین کی شق 25 کے باوجود ذاتی پسند ناپسند اور برادری ازم کی بنیاد پر ترقیاتی منصوبوں میں عام شہری سے تفریق کیوں روا رکھی جاتی ہے؟

اقلیتوں کے حقوق میں ہلکان ہونے والی ہماری عظیم سیاسی قیادت کو شاید اس حقیقت کا ادراک نہ ہو کہ اقلیتوں کے ساتھ ساتھ اکثریت میں سمجھے جانے والے عام شہریوں کی بھی اس ملک میں کوئی اوقات نہیں اور آئینی ضمانت کے باوجود انہیں اپنے بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لئے جوتیاں چٹخانا پڑتی ہیں۔

اس سلسلے میں ہم یہاں اپنے ذاتی تجربات بیان کرنا چاہیں گے کہ عیدالاضحی کے دن سے ہمارے محلہ شمس کالونی میں سیوریج نظام کی ابتری کے باعث گٹروں کا غلیظ پانی ہمارے گھر کے صحن میں اوور فلو کرنے لگ گیا۔ اس دوران عملہ صفائی نے آ کر سکر مشین کے ذریعے لائن کھولی، لیکن تین دن بعد پھر وہی صورت حال۔ آج 16 دن ہو گئے ہیں کہ ہمارے گھر کے پورے صحن اور ہمارے کتابوں والے کمرے میں سیوریج کا پانی ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ میونسپل کمیٹی اوچ شریف کے چیف افسر سے لے کر سینیٹری سپروائزر تک اور وزیر اعظم سٹیزن پورٹل تک، ہر فورم آزمایا گیا ان کو گھر کی تصویریں بنا کر دکھائی گئیں، لیکن مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ کہا گیا کہ عملہ محرم روٹس پر کام کر رہا ہے، وہاں سے جب فارغ ہو گا تو آپ کا کام ہو گا۔

ہر طرف سے مایوس ہو کر ہم نے اپنے شہر کے اہل اور اہل دل سینئر صحافی ڈاکٹر ضیاء الحق شہزاد بڈانی صاحب کو اپنی تکلیف اور اذیت سے آگاہ کیا، انہوں سماجی ذرائع ابلاغ کے علاوہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں اس مسئلے کو اجاگر کیا، منتخب عوامی نمائندگان کے علاوہ چیف سیکرٹری پنجاب، کمشنر بہاول پور ڈویژن، ڈپٹی کمشنر بہاول پور اور اسسٹنٹ احمد پور شرقیہ تک کو سیوریج نظام کی خرابی اور ہمارے گھر کے صحن میں جمع گندے پانی کی تصویریں بھیجی گئی لیکن ہر کوئی بے حسی اور بے گانگی کی چادر لپیٹ کر اپنے حال میں مست رہا، کسی کے پاس محرم روٹس کا بہانہ تھا اور کوئی وزیر اعظم و وزیر اعلی کے دورہ بہاول پور میں مصروفیات کا رونا رو رہا تھا۔

اس دوران سیوریج کے پانی نے ہمارے مکان کی بنیادوں میں جانے کا رستہ بنا لیا اور آخر کار وہ وقت بھی آیا کہ گھر کا نلکا سیوریج کا یہی پانی باہر اگلنے لگا۔ مسلسل اس ابتر صورت حال، تعفن اور گندگی سے تنگ آ کر ہم نے اپنی والدہ کو ہمشیرہ کے گھر منتقل کر دیا کہ وہ پہلے ہی ان کی صحت ٹھیک نہیں رہتی، مچھروں کے ساتھ ساتھ گندے پانی پر پلنے والے حشرات الارض کی بہتات نے ہمیں یوں اپنے گھر سے بے گانہ کر دیا کہ ہمارا دو سال کا صاحب زادے اساطیر تیز بخار میں مبتلا ہو گیا، جبکہ ہم اور ہماری نصف بہتر خطرناک الرجی کا شکار ہو گئے۔ ہماری خوش دامن صاحبہ ملنے آئیں تو ہمارے گھر کی یہ حالت دیکھ کر اپنی بیٹی اور نواسے کو ساتھ لے کر اسی روز واپس چلی گئیں۔

وہ شاخ گل کی زمزموں پہ دھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا

اقلیتوں کے حقوق کا رونا رونے والے فضیلت مآب عوامی وزیر اعظم اور عزت مآب عوامی وزیر اعلی کو بہاول پور کی بادیہ پیمائی سے اگر کچھ سمے فراغت میسر آ جاتی تو ہم ان کو ضرور دوپہر کے طعام کے لئے اپنے غریب خانے کی دعوت دیتے، وہ تشریف لاتے تو ان کو اپنے گھر کے صحن میں سیوریج کے پانی کے بیچوں بیچ چارپائی پر بٹھا کر ماحضر تناول کراتے اور آئین کے آرٹیکل 25 سمیت بنیادی انسانی حقوق کے آرٹیکلز پر بات کرتے۔ ان سے گزارش کرتے کہ صاحب بہادر! ہم سیاہ بخت اور حرماں نصیب لوگ آپ کی رعایا ہیں، لاریب کہ اس دھرتی پر ہماری پچھلی اور آنے والی نسلیں بھی بے نام و نشان ہیں۔ حضور! ہم بے شک اکثریت میں ہیں لیکن آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت ”کتے جیسی زندگی بسر“ کرنے میں ہم اقلیت کے شانہ بشانہ برابر ہیں۔ مائی باپ! یا ہمیں اقلیتوں والے انسانی حقوق دے دیجئے یا پھر وہ حقوق جو اس انسانی معاشرے میں جانوروں کو حاصل ہیں۔ ہماری آنے والی سات نسلیں آپ کے اس احسان کو یاد رکھیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments