ملکیت: انسان کا اصل مسئلہ


نور مقدم، نور مقدم، نور مقدم، نور مقدم اور اب صرف چپ مقدم۔ ابھی کچھ دن پہلے انسانیت ہمیں سسکتی نظر آئی، ہر طرف کہرام برپا ہوا، گلے سڑے سماج کے متعفن وجود نے گویا جیسے کروٹ لی، جس کی سڑان نے چند دن ہمیں متحیر رکھا۔

ہر کسی نے اپنے قاصے کے مطابق پیشہ ور گداگر کی طرح اپنی صدا لگائی، خیرات حاصل کی اور چلتا بنا۔

میرے مذہبی بھائیوں نے کہا یہ ہے جدید طرز معاشرت کا شاخسانہ جہاں وہ حلال ہوئی جو اس جہاں میں حلال ہے شاید وہ اسی وجہ سے زیادہ نالاں تھے سو بجائے یہ کہنے کے کہ جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا میں مؤخر الزکر کے ساتھ دست و گریباں ہونے تک گئے لیکن بات وہیں کی وہیں رہی اور میرے محبوب لبرلز نے بھی خوب طبع آزمائی کی، انھوں نے اپنی صدا کوIslamism is a disease of islam جیسے جملوں اور

پدرشاہی کے فضائل سے مزین کیا کیوں کہ اس دفعہ گھر کو ہی آگ لگی تھی گھر کے چراغ سے، کچھ تو یوں نوحہ کناں نظر آئے کے شاید افتخار عارف صاحب نے گویا انہی کے لیے یہ خامہ فرسائی کی تھی کہ

لہجے کی تلخیوں سے نمایاں ہے دل کا زہر
اندر کے سارے خوف زبانوں میں آئے ہیں

اس سارے جاں سوز سفر میں شومئی قسمت منزل کا کوئی تعین ہمیشہ کی طرح نہ کیا جا سکا، انسانیت کی اس قسم پرسی کا اصل متحرک اک دفعہ پھر مذہبی اور فکری تعصبات کا فائدہ اٹھا کر پتلی گلی سے نکلنے میں کامیاب رہا، بقول

قاسمی صاحب
‏جہاں بھی جاؤں، اسیر حیات رہتا ہوں
یہ مسئلہ تو نہ حل ہو سکا فرار سے بھی

اس لیے ہم صدف کنول ہم تمہارے ساتھ ہیں اور بے لگام خونی لبرلز جیسے نئے نعروں سے لیس ایک دفعہ پھر انسانیت کی زبوں حالی کے لیے مورچہ زن ہیں۔

اگر آپ سلیم الطبع واقع ہوئے ہیں تو خالی الذہن ہو کے سوچیں کے حضرت انساں کا اصل مسئلہ کیا ہے تو ایک ہی بات سامنے آئے گی وہ ہے اس خاکی پتلے کا احساس ملکیت، انساں نے جس لمحے یہ احساس سیکھا تھا اسی لمحے اس نے ہر ظلم کی بنیاد رکھ دی تھی، تب سے حضرت شاید محبت کا اظہار بھی ملکیت کے پیرائے میں کرنے لگے ؛تم میری ہو؛تم میرے ہو جیسے جملوں سے احساس ملکیت کی سیخوں میں محبت کو پرو ڈالا گیا اسی طرح اگر ملکیت مادی وسائل کی فراوانی کی ہو تو وہ ظاہر جعفر کو جنم دیتی ہے اور ہم سب کسی نہ کسی صورت اپنی جگہ ظاہر جعفر ہی ہیں جب تک ہم اس حقیقت کو مان نہیں لیتے کہ چند برس کی زندگی میں تیرا میرا کچھ نہیں ہوتا اس جہاں میں جو ہے وہ سب کا ہے اور جو سب کا ہے وہی رب کا ہے۔

بظاہر یہ بات ناقابل عمل اور جھک مارنے کے مترادف لگتی لیکن حضرت انسان کو اس احساس ملکیت کو لگام ڈالنا ہوگی ورنہ انسانیت آئے روز یوں ہی کانٹوں پہ گھسیٹی جاتی رہے گی اور حضرت انساں ایک دوسرے پر ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر الزام دھرتے رہیں گے۔ انسان کو زندگی کے ہر شعبے اس مالکانہ سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا تاکہ انسانیت کے استحصال کو ختم کیا جا سکے اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے جہاں انفرادیت اجتماعیت پر قربان ہونے کو تیار نظر آئے نہیں تو وہی ہوگا جس کا خوف جالب صاحب کو لاحق تھا

‏پھر اشک بہانے کی اجازت بھی نہ ہو گی
دل خون بھی ہو جائے تو فریاد نہ کرنا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments