پاکستان کے لئے آنے والے دن آسان نہیں!


پاکستان شدید دباؤ میں ہے۔ صرف سوشل میڈیا کو ہی دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز کے گلی کوچے میں چھوٹے بڑے John Locke اور Rousseauرزمیہ گیت گاتے پھرتے ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے ہاں انسانی حقوق کی پاسداری، جمہوری نظام اور قانون کی بالا دستی کے لئے اگر دنیا میں کوئی سب سے زیادہ فکر مند ہے تووہ ہمارا دوست بھارت اور کابل میں کٹھ پتلی حکمران ہیں۔

ٹویٹر کو دیکھ کر بے ساختہ زیر زمین آباد چیونٹیوں کے طلسم ہوشربا شہر یاد آ جاتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں ’ورکرز‘ جہاں لاتعداد باہم متصل سرنگوں (Nets) میں دن رات سرگرم عمل رہتے ہیں۔ وطن عزیز کو جس بے چہرہ جنگ کا سامنا ہے اس کا اظہار ایسے کئی جتھوں کی ٹویٹر پر موجودگی اور منظم سرگرمیوں کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ دستانہ پوش ہاتھ کسی ایک پاکستان مخالف ’ٹرینڈ‘ کا آغاز کرتے ہیں تو اندر باہر سے سینکڑوں گمنام اور درجنوں معروف اکاؤنٹس زہر اگلنے لگتے ہیں۔ اس باب میں خود ہماری ایک بڑی سیاسی پارٹی کے سوشل میڈیا جتھے کے علاوہ ٹویٹر پر جو گروہ سب سے زیادہ فعال اور منظم نظر آتا ہے وہ ہمارے محبوب ’مغرب زدہ لبرلز‘ کا ہے۔

کچھ ماہ قبل منظر عام پر آنے والی ”انڈین کرانیکل“ نامی رپورٹ میں چشم کشا انکشافات سامنے آئے تھے۔ بھارتیوں کی ایماء پر 265 جعلی میڈیا تنظیمیں اور 800 سے زیادہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز گزشتہ 15 سالوں سے بھارتی عزائم کو پروان چڑھانے اور پاکستان کو اقوام متحدہ اور یورپی یونین جیسے اداروں کے سامنے بدنام کرنے میں سرگرم عمل رہے ہیں۔ ڈس انفو لیب نامی آزاد یورپی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس مہم میں مردہ افراد، جعلی اداروں، بوگس تھنک ٹینک اور مشکوک این جی اوز کے ذریعے پوری دنیا میں عقل دنگ کردینے والا جال پھیلایا گیا۔

65 سے زائد ملکوں میں پھیلے نیٹ ورک کے گھوسٹ اخبارات و جرائد پاکستان مخالف افراد کے انٹرویوز اور بیانات شائع کرتے، جنہیں گروپ کی ذیلی تنظیموں کے پلیٹ فارمز سے پوری دنیا میں پھیلایا جاتا۔ اسی گروپ کے زیر اہتمام اہم مغربی دارالحکومتوں میں نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان مخالف مظاہرے کرتیں۔ مذاکرے منعقد کرائے جاتے کہ جن میں پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف زہر اگلنے کی پہچان رکھنے والے چہرے دنیا بھر سے ڈھو ڈھو کر لائے جاتے۔

پاکستان کو انسانی حقوق، خواتین سے سلوک اور مذہبی آزادیوں کے حوالے سے بدنام کیا جاتا۔ پاکستان مخالف قوم پرست تنظیموں کی حوصلہ افزائی، آبیاری اور سرپرستی کی جاتی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور اس کے عسکری اداروں کے خلاف منفی تاثر پیدا کرنے کی خاطر لاکھوں فیک سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مشتمل نیٹ ورک قائم کیا گیا۔

نوے کی دہائی میں امریکی تیل کمپنی کے مفادات کی نگہبانی کی خاطر امریکی حکومت طالبان کے کابل پر قبضے کی منتظر اور پختون ملیشیا کی عملداری کے علاقوں میں روا رکھے جانے والے ’مظالم‘ سے چشم پوشی برتی رہی۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے آثار معدوم ہوتے چلے گئے تو اچانک ایک روز صدر کلنٹن کو ان کی بیگم نے انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے آنے والے دباؤ سے آگاہ کیا۔ امریکیوں نے افغانستان میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو جواز بناتے ہوئے طالبان کی حمایت سے ہاتھ کھینچا تو دو برادر ممالک ’ذاتی‘ وجوہات کی بناء پر پیچھے ہٹ گئے۔ صدی بدلی تو بھارت امریکی تعلقات ’سٹریٹیجک پارٹنرشپ‘ میں بدل چکے تھے۔ پاکستان اب صرف خطے میں ہی نہیں، عالمی تنہائی کا شکار تھا۔

نائن الیون ہوا تو فوجی آمر جنرل مشرف راتوں رات امریکہ کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ پاکستان ایک بار پھر امریکی اتحادی تھا۔ ایک ایسا اتحادی جس سے مغربی ممالک ’ڈور مور‘ کا تقاضا کرتے اور افغانستان کے باب میں دوغلی پالیسی اپنانے کا الزام دیتے۔ مشرف کا دور ختم ہوا تو نئی حکومت نے مغربی حمایت حاصل کرنے کے لئے ہر وہ کام کیا جو ان کے بس میں تھا۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان بداعتمادی تاہم عروج پر رہی۔ انہی سالوں میں امریکہ اور مغربی ممالک نے پاکستان کے اندر اپنا زیر زمین نیٹ ورک پھیلانے کا کام شروع کیا۔

حسین حقانی نے آئی ایس آئی سے کلیئرنس کے مروجہ قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہزاروں امریکیوں کو ویزے جاری کیے ۔ عسکری قیادت کو دباؤ میں لانے کا ہر حربہ برتا گیا۔ پاکستان میں مغرب زدہ گروہ کی حوصلہ افزائی کا منظم آغاز ہوا۔ نامور سکالر شجاع نواز اپنی حالیہ کتاب The Battle for Pakistan میں بتاتے ہیں کہ انہی سالوں میں ہمارے قبائلی علاقوں سے 200 نوجوانوں کو منتخب کر کے فرانس، جرمنی اور امریکہ بھیجے جانے کا اہتمام کیا گیا۔ آئی ایس آئی کو بھنک پڑی تو آڑے آئی۔ سر سبز چراگاہوں کے راستے پر مگر کون بند باندھ سکا ہے؟ پاک افغان سرحد کے ساتھ درجنوں بھارتی کونسل خانے بروئے کار تھے۔ انڈین کرانیکلز نیٹ ورک پوری طرح سرگرم تھا۔

پختون تحفظ موومنٹ راتوں رات اچانک آسمان سے نازل نہیں ہوئی تھی۔ ایک غیر معروف شخص کی قیادت میں دور دراز علاقوں میں کیے جانے والے بڑے بڑے جلسوں پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کبھی بھی ایک معمہ نہیں رہے۔ ریاست مخالف سرگرمیوں پراس تنظیم سے منسلک کوئی کارندہ پکڑا جاتا تو تکلیف سب سے پہلے افغان صدر کو ہوتی۔ اسی گروہ سے تعلق رکھنے والی گلالئی اسماعیل نامی عورت نے اسلام آباد میں کیمروں کے سامنے پاکستانی فوج پر پشتون علاقوں میں ’ہزاروں خواتین‘ کی عصمت دری اور پختون بچوں کو ’ریپ‘ کیے جانے کے خوفناک الزامات عائد کیے ۔

بعد ازاں وہ عورت پراسرار راستے سے امریکہ فرار ہو گئی۔ آج کل ’رائٹس ایکٹیوسٹ‘ کہلاتی ہے اور ٹویٹر پر سرگرم عمل ہے۔ ٹویٹر پاکستان مخالف عناصر کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ 33 کروڑ افراد صرف بھارت میں ٹویٹر کا استعمال کرتے اور اکثر پاکستان، عمران خان اور پاکستانی اداروں کے بارے میں زہر اگلتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں صرف پختون تحفظ موومنٹ نے ٹویٹر پر 150 پاکستان مخالف ٹرینڈز شروع کیے ۔ بھارت سے جن کو پذیرائی ملتی اور کابل کے حکمران ٹولے میں پاکستان دشمن عناصر جن کی تائید کرتے۔ گزشتہ دو سالوں میں پاکستان مخالف ٹویٹس کی تعداد چار ملین کے قریب بتائی جاتی ہے۔ دو عشرے پیشتر جس nexusکی داغ بیل ’سٹریٹیجک اتحادیوں‘ نے ڈالی تھی، خطے میں امریکی مفادات کی نگہبانی اور کابل میں حکمران ٹولے کو بچانے کے لئے آج اپنے جوبن پر ہے۔

قبائلی علاقوں میں ہماری سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ داسو میں دہشت گردی کے پیچھے ہاتھ بے نقاب کیے جا چکے ہیں۔ کوئی تو ہے جو ان حملوں کے پیچھے ہے۔ پاکستان کے لئے آنے والے دن ہر گز آسان نہیں۔ کابل میں اگر موجودہ حکمران ٹولہ قابض رہتا ہے تو پاکستان کے خلاف زہر انگیز مہم جوئی کرتا رہے گا۔ طالبان اگر کابل پر قابض ہو جاتے ہیں توبھی پاکستان میں شادیانے بجانے والوں کو مایوسی ہو گی۔ ہر دو صورتوں میں اپنی قبروں پر افغانی پرچم لہرانے والے قوم پرست مہروں کو ہماری پختون پٹی میں انتشار برپا کرنے کے لئے ’اتحادی‘ دستیاب رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments