جناح کا پاکستان اور بھٹو کی پاکستانیت


گاندھی نے ایک بار قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ خط و کتابت میں سوال اٹھا دیا کہ اگر ہندوستان کے سارے لوگ اسلام قبول کر لیں تو کیا وہ ایک قوم بن جائیں گے؟ اس کے جواب میں قائداعظم نے جداگانہ مسلم قومیت کا ثبوت صرف دو نقاط میں سمو کر بتا دیا کہ ہم دس کروڑ پر مشتمل ایک قوم ہیں اور مزید برآں ہم اپنی جداگانہ تہذیب و ثقافت میں بھی ایک قوم ہیں۔

یہاں یہ بات قابل غور اس لیے ہے کہ گاندھی کا سوال خالص مذہبی نوعیت کا تھا جسے بھانپتے ہوئے قائد اعظم نے اپنا جواب سیاسی، تاریخی، علمی اور قانونی معنوں سے اٹھا کر دیا۔ کیونکہ جواب کو سیاسی معنوں پر پرکھا جائے، تو اس وقت ہندوستان کی مجموعی آبادی تقریباً اڑتیس کروڑ تھی، جس میں مسلمانوں کا عددی وزن تقریباً ایک چوتھائی کے برابر تھا، اور جس سے مراد مسلم قوت اقتدار کی جمہوری بساط گنوانا تھا۔ تاریخی معنوں سے جانچا جائے تو انگریزی اقتدار کے مسلط ہونے سے پہلے ہندوستان پر حکمرانی مسلمانوں کی چلی آ رہی تھی اور آخر میں جب بٹوارہ ہوا تو بھی کابینہ مشن پلان میں مجوزہ گروپ بندی کے لحاظ سے بھی ہندو اکثریتی صوبوں کے بالمقابل مسلم اکثریتی صوبوں کا موازنہ مشروط رکھا گیا تھا۔

اور اسی کے عین مطابق عبوری کابینہ کی تشکیل میں چھ کانگریسی وزراء کے مقابلے میں پانچ لیگی وزراء کی متفقہ منظوری مسلم اقتدار کی جزوی و جداگانہ نشاندہی کا علانیہ ثبوت تھا۔ اسی طرح مسلم تہذیب و ثقافت کی جداگانہ شناخت قانونی معنوں میں مسلم وجود کی سالمیت اور برقراری کے مطابق بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں شمار کی جا سکتی ہے۔ اس لئے قائداعظم میثاق لکھنؤ سے لے کر میثاق تقسیم ہند کے آخری فیصلے تک، مسئلہ ہند کا حل ہندو مسلم دو قومی تفریق کے میثاقی بندھن پر استوار متحدہ ہندوستان کی سالمیت و برقراری کی خاطر منانے اور منوانے پر کانگرس سے بہر طور مصر رہے اور یہی قائداعظم کی اولین ترجیح رہی تھی۔

لیکن دوسری طرف کانگریس اور اس کے ساتھ انتہا پسند ہندو قیادت مسلمانان ہند کے جداگانہ قومی اکائی کے حق کو ٹھکرانے پر اس حد تک اڑی کھڑی رہنے پر کاربند رہی کہ اس ضمن میں ہندوستان سے مسلمانوں کو نکال باہر کرنے کے لیے اگر تقسیم ہند کی نوبت بھی نکل پڑے تو وہ ایسی نوبت کو بھی قبول کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کرے گی کیونکہ 1923 میں ایک ہندوتوا لیڈر لالہ لجپت رائے خود یہ پیش بندی منظر عام پر علانیہ گرما چکے تھے کہ مسلم اکثریت کے صوبے اور علاقے مسلمانوں کو دے کر ان سے ہمیشہ کے لئے ہند کی زمین خالی کرا لی جائے اور جس کے مصداق بالآخر ان کے طے کردہ علاقوں کو ہی پاکستان بنا کر مسلمانوں کو ہند کی سرزمین سے علاقہ بدری پر مجبور کر دیا گیا۔ علامہ اقبال کا خطبہ الہ باد 1930 میں آیا۔

تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان دونوں میں یہ تاریخ نہیں پڑھائی جاتی۔ اس کے برعکس ہندو قیادت وہاں اپنا تقسیم ہند کا جرم چھپانے کے لئے اکھنڈ بھارت کی اس قرارداد کی تدریس پیش کرتی ہے جو تین جون 1947 کے میثاق تقسیم ہند کے بیٹن پلان کی علانیہ توثیق کے بعد 14 جون کی کانگریسی و ہندو مہا سبھائی قیادتوں نے پاس کر کے اپنے تحریری و علانیہ معاہدے کی رو گردانی اکسا کر پیدا کی کہ ”جب تک علیحدہ ہونے والے علاقے دوبارہ واپس لے کر یونین آف انڈیا کے اٹوٹ انگ نہیں بنا لیے جاتے اس وقت تک اور اس کے سوا کبھی یہاں امن قائم نہیں ہونے دیا جائے گا“ (شہاب نامہ)

اس کا سفارتی توڑ پاکستان میں ’میثاق پاکستان‘ کے بیانیے سے دنیا کے آگے لایا جا سکتا تھا، جو مسلمانان پاک بھارت کی تہذیب و ثقافت کا بنیادی حق تھا کہ سرزمین ہند ان کا آبائی مادر وطن ہے جو مکہ کی طرح واپس لینا باقی ہے کیونکہ بھارتی مسلمان وہاں تیس کروڑ عددی وزن سے آباد ہیں اور کانگریس کی اس وقت کی اتحادی مسلم قوتوں نے بھارت کے حق میں ووٹ دیا تھا، لیکن یہاں نظریہ پاکستان کی تدریس اکسا لی گئی جس کا صاف مطلب علیحدگی پسندی بنتا ہے اور جس کے مصداق پاکستان کی جانب سے بھارت میں باقی رہ جانے والے اپنے مادر وطن سے علانیہ دستبرداری بھی ٹھہرتا ہے اور اکھنڈ بھارت کے بیانیے کو کھل کھیلنے کی یک طرفہ چھوٹ بھی مل جاتی ہے۔

کیا پاکستان میں قائداعظم کی دسمبر 1916 کی تقریر کے وہ الفاظ معلوم ہیں جو میثاق لکھنو کے فوراً بعد انہوں نے لیگ کے لکھنؤ سیشن کے خطبہ صدارت میں ادا کیے تھے اور جن کے مطابق سرزمین ہند کو مسلمانوں اور ہندوؤں سب کا مشترکہ اور مساوی ’مادر وطن‘ قرار دیا تھا؟ اکھنڈ بھارت کے آگے نظریہ پاکستان پر مبنی سفارتکاری زچ ہو کے رہ گئی ہے۔ جناح کا پاکستان بھارت کی جارحانہ سفارتکاری کے آگے مسلسل ڈھیر ہونے کی نوبت سے دوچار کرنے کی تمام تر ذمہ داری اس دفاعی سفارتکاری پر عائد ہوتی ہے جس کے معنی ’میثاق پاکستان‘ پر استوار کرنے کی بجائے ’نظریہ پاکستان‘ پر جا جوڑے۔ نظریہ پاکستان کے معنوں پر مبنی ہماری دفاعی سفارتکاری جناح کے پاکستان کو اکھنڈ بھارت کی جارحانہ سفارتکاری کے حملوں سے بچانے میں کہیں پہلے کام دے سکی ہے نہ آج تک موثر ثابت ہو رہی ہے، اور نہ آئندہ ہو گی۔

جناح کا پاکستان ٹوٹ گیا تو باقی پاکستان کی سربراہی زیڈ اے بھٹو کو سونپ دی گئی۔ بھٹو اس سے پہلے جب وزیر خارجہ تھے تو بھارتی جارحیت کے مقابلے میں جارحانہ دفاع کا جبرالٹر آپریشن فوج کو سونپا۔ عین جب سری نگر قبضے کا پاکستانی پلان فیصلہ کن مرحلے میں تھا تو نہ جانے اعلیٰ سطحی کمانڈ کو کیا سوجھی کہ محاذ کی کمانڈ جنرل اختر ملک سے لے کر جنرل یحییٰ کو دے دی گئی اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اس کے بعد بھٹو اقتدار میں آئے تو ان کی زیر قیادت پاکستانیت کی جوہری سفارتکاری کے آگے بھارت اور اسرائیل پورے ایشیا میں آئسولیٹ ہو کے رہ گئے۔

امریکی ورلڈ آرڈر ایشیا ورلڈ آرڈر کے بڑھتے اثر کے آگے ماند پڑتا دکھائی دینے لگا۔ اس پر بھٹو کو پھانسی دلوا دی گئی تو اس کے ساتھ ہی بھٹو پاکستانیت کا وہ جوہر بھی ایسا سلب ہو کے رہ گیا کہ پھر آگے چراغوں میں آج تک وہ روشنی باقی نہیں رہی۔ البتہ اس کی جگہ پاکستانیت کی جو من مانی ’ضیاء‘ پھوٹی اس کی چکاچوند کے ’نو ستارے‘ الف، ب، ق، م، نون لیگو میں کبھی ادھر ابھرے تو کبھی آئی جے آئی میں ادھر جا ڈوبے۔ کبھی غیر جماعتی سرابوں کے ہتھے جا چڑھے اور کبھی ایموں کی کیمسٹری سے پروان چڑھتے ہوئے پیٹریآٹوں کی پٹڑیاں بن بن کے ’چھوڑوں گا نہیں‘ کی پٹیاں پڑھنے تک جگمگا لیے گئے۔

اتنے پاپڑ بیلنے کی دھن میں یہ تک بھی یاد نہ رکھا گیا کہ کم ازکم اس ضیاء کو بہاولپور کی فضاؤں میں بجھنے کے لئے بے سروسامانی کی سپرد کیوں کر دیا گیا جس کی اڑان بہر حال پاکستان کے عسکری جوہر کی اجتماعی شان تو ضرور تھی۔ سرزد ہونے والی غلطیوں کی نشاندہی نہیں ہوگی تو وہ کیوں کر قابل قبول ہو پائیں گی؟ قابل قبول نہیں ہو پائیں گی تو ان کی اصلاح اور درستگی کا سامان کیسے ہو پائے گا؟ اصلاح اور درستگی نہیں ہو پائے گی تو قائد اعظم کے پاکستان اور بھٹو کی پاکستانیت کی تاریخ سے تعلق داری کا حق ادا کرنے کی تیاری کیسے ممکن ہو گی؟

بحیثیت مجموعی ہم سب پاکستانی اپنے محاسبے کے حق دار ہیں کیونکہ جناح کا پاکستان ہم نے خود بھلا کر پرے رکھ دیا ہے اور بھٹو کی پاکستانیت کو غداری کا طوق پہنا کر دفن کر دیا ہے۔ اگر ہم پھر بھی نہیں مانتے تو امریکی پروفیسر ڈی شوؤمن کا وہ لیکچر سن لیں جو اس نے تین جون 1949 کو نیویارک میں دیتے ہوئے کہا تھا کہ

”حال ہی میں جنوب مشرقی ایشیا میں پاکستان نام کی ایک ریاست وجود میں آئی ہے۔ یہ ریاست بہت بڑے خطرات سے دوچار ہے جو اسی کے ساتھ خاص ہیں۔ اس کا وجود زد پذیر ہے اور وقت یہ ثابت کر کے دکھائے گا کہ نصف صدی سے بھی کم مدت میں یہ ریاست بیٹھ جائے گی اس کے اپنے لوگوں کی وجہ سے جو پیدا ہی غلامی کی زنجیریں پہنے ہوئے اور جن کے مزعومات ایک آزاد ملک کا تصور ہی رکھنے سے قاصر ہیں اور جن کا دماغ ذاتی خود غرضانہ مقاصد سے اوپر اٹھ کر سوچ ہی نہیں سکتے میرے الفاظ نوٹ رہیں، میں ان لوگوں کے باطنی حالات سے بخوبی واقف ہوں“ (جنگ، 2 ستمبر 2007)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments