امر اللہ صالح: افغان نائب صدر افغانستان سے واقعی فرار ہوئے تھے یا پاکستان کی انسانی حقوق کی وزیر شریں مزاری نے ٹویٹ کرنے میں جلدی کر دی


افغان
افعانستان میں موجودہ حالات کے تناظر میں سوشل میڈیا پر ہر حوالے سے افواہوں کا بازار گرم ہے۔ جیسے جیسے بڑے شہروں میں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے، وہیں مختلف افغان رہنماؤں کے طالبان کے آگے ہتھیار ڈالنے سے لے کر ملک سے فرار کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں اور حقیقت اور افواہوں کے بیچ فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

تاہم حکومتی عہدے داروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بنا جانچ پڑتال یا سرکاری سطح پر تحقیق کیے بغیر افواہ کو پھیلانے کا سبب نہیں بنیں گے۔

گذشتہ روز افغان نائب صدر کے متعلق چند افغان صحافیوں اور مقامی میڈیا کی جانب سے ایسی ہی ایک افواہ اڑی کہ ’امر اللہ صالح، طالبان کے ڈر سے ملک چھوڑ کر تاجکستان فرار ہو گئے ہیں۔‘

افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد سے پاکستان مخالف بیانات کے باعث امر اللہ صالح اکثر پاکستان میں خبروں میں رہتے ہیں۔ لہٰذا جیسے ہی یہ افواہ سامنے آئی پاکستان کے مقامی میڈیا سے لے کر کئی سوشل میڈیا صارفین نے ان کے پارٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ’صالح گذشتہ رات تاجکستان چلے گئے ہیں اور وہاں سے ویڈیو پیغام میں آئندہ کا لائحہ عمل دیں گے۔‘

(یاد رہے حال ہی میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے پاکستان مخالف ٹرینڈز #SanctionPakistan میں بھی امر اللہ صالح کا نام سامنے آیا تھا۔)

مقامی میڈیا اور عام صارفین تو ایک جانب، پاکستان میں انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری بھی پیچھے نہیں رہیں اور انھوں نے بھی بنا سرکاری تصدیق کے ٹویٹ کیا: ’بزدل! وہ صرف سہمے ہی نہیں بلکہ بھاگ گئے۔ انڈیا نے ان کے ساتھ اچھا نہیں کیا کہ انخلا کے لیے جو طیارہ بھیجا اس میں انھیں سیٹ نہیں دی گئی۔‘

یہ ٹویٹ کچھ گھنٹوں بعد حذف کر دی گئی تاہم آپ تو جانتے ہی ہیں کہ انٹرنیٹ سے چیزیں کہاں ڈیلیٹ ہوتی ہیں۔۔۔ شیریں مزاری کی ٹویٹ کے بھی سکرین شاٹس محفوظ کر لیے گئے اور بیشتر صارفین ان پر تنقید کرتے یہ کہتے نظر آئے کہ ’خدارا ٹویٹ کرنے سے پہلے تصدیق تو کر لیں، آپ انسانی حقوق کی وزیر ہیں۔۔۔ اس طرح آئے روز پاکستان کو شرمندہ تو نہ کروایا کریں۔‘

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے فیک نیوز شیئر کرنے اور اپنی ٹویٹس کے باعث شیریں مزاری تنقید کی زد میں آئی ہوں۔۔۔ یاد رہے اس سے قبل گذشتہ نومبر میں فرانس کی طرف سے شدید احتجاج سامنے آنے کے بعد شیریں مزاری کو فرانس کے صدر ایمانویل میکخواں کے بارے میں ٹوئٹر پر جاری کیا گیا ایک بیان حذف کرنا پڑا تھا۔

اس وقت پاکستان میں فرانسیسی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ ’یہ گھٹیا الفاظ سراسر جھوٹ ہیں جو نفرت اور تشدد کے نظریات پر مبنی ہیں۔ اتنے ذمہ درانہ عہدے پر رہنے والی شخصیت کی جانب سے ایسے تبصرے انتہائی شرمناک ہیں اور ہم ان کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔‘

افغانستان میں موجود صحافی انس ملک نے شیریں مزاری پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ’پاکستان کی انسانی حقوق کی وزیر جو اپنا کام تو صحیح طرح سے نہیں کر پاتیں مگر اپنی کم معلومات کی بنیاد پر خارجہ پالیسی کے معاملات میں ٹانگ اڑانا اور فیک نیوز پھیلانا ضروری سمجھتی ہیں۔‘

انھوں نے یہ بھی لکھا کہ افغان نائب صدر افغانستان میں ہی موجود ہیں۔

علیم خان نامی صارف نے تبصرہ کیا ’اپنے ملک کے حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں اور دوسرے ملکوں پر ایسے طنز مار رہے ہیں جیسے بل گیٹس، جیف بزوز، ایلون مسک ہمارے ملک کا ویزا لگوانے کی لائن میں کھڑا ہے۔‘

صحافی نعمت خان نے لکھا ’شیریں مزاری صاحبہ وفاقی وزیر ہیں اور انھیں میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر ٹویٹ کرنے کے بجائے سرکاری تصدیق کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ حکومتی عہدیداروں کو محتاط رہنا چاہیے۔‘

بعد میں انھوں نے لکھا ’بالآخر دو پاکستانی نیوز چینلز کے سکرین شاٹس کے ساتھ کیا گیا اپنا ٹویٹ انھوں نے حذف کر دیا ہے لیکن ایسی لاپرواہی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے۔‘

کئی افراد افغانستان میں جاری سنگین صورتحال کے تناظر میں انسانی حقوق کی وزیر کے طور پر ’تشدد کے دوران موت سے بچنے کے لیے فرار حاصل کرنے والے شخص کا مذاق اڑانے‘ کو انتہائی قابلِ نفرت عمل قرار دے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ کئی افراد شریں مزاری کی توجہ پاکستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب بھی کرواتے نظر آئے۔

کیا افغان نائب صدر ملک سے فرار ہوئے تھے؟

کابل میں موجود بی بی سی کی نامہ نگار یلدا حکیم کے مطابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح کے افغانستان سے فرار کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔

یلدا حکیم سے بات کرتے ہوئے افغان نائب صدر نے چند ہفتے قبل بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کیا گیا عہد دہرایا کہ ’میں کسی صورت طالبان کے آگے سرنڈر نہیں کروں گا۔‘

جس وقت کئی افراد افغان نائب صدر کی ملک چھوڑنے کی فیک نیوز دھڑا دھڑ شئیر کرتے ہوئے ان پر تنقید کر رہے تھے اسی دوران امر اللہ صالح نے صدر اشرف غنی کی زیرِ صدارت سکیورٹی صورتحال پر منعقدہ میٹنگ کے حوالے سے ٹویٹ کی۔

انھوں نے لکھا کہ آج کی میٹنگ میں پختہ عزم کے ساتھ فیصلہ کیا گیا کہ ہم طالبان دہشت گردوں کے خلاف کھڑے ہیں اور قومی سطح پرانھیں روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

اس کے علاوہ افغان نائب صدر کے ترجمان اور مشیر رضوان مراد نے انڈین چینل سی این این 18 سے بات کرتے ہوئے امر اللہ صالح کے ملک چھوڑنے کی افواہوں کو ’دشمن، خاص کر پاکستان کا پراپیگنڈہ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔

رضوان مراد کا کہنا تھا کہ افغان نائب صدر اس وقت کابل میں ہی موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

افغان نائب صدر نے پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی تصویر کیوں شیئر کی؟

بی-52: ویتنام سے افغانستان تک تباہی پھیلانے والا امریکہ کا اڑن بارود خانہ

کابل میں افغانستان کے نائب صدر کے قافلے پر حملہ، کم از کم دس افراد ہلاک

افغان نائب صدر کے ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ چند افغان رہنماؤں، اور بزرگ رہنماؤں نے طالبان سے ڈیل کر لی ہے اور مقامی کمانڈروں کو ان کے آگے سرنڈر کرنے پر بھی قائل کر لیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ افغانستان، پاکستانی پراکسیوں کے آگے ڈھیر ہو گیا ہے۔ افغانستان ان کا مقابلہ کرے گا۔‘

امر اللہ صالح نے اپنے فیس بک پر بھی ایک بیان جاری کیا جس میں انھوں نے طالبان کے خلاف مزاحمت کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی بھی حالات میں، کسی بھی فائدے کے لیے افغانستان کے لوگوں پر طالبان کا غلبہ تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی طالبان کی وضع کردہ شرائط کے تحت کسی معاہدے کو قبول کریں گے۔

افغان نائب وزیر نے لکھا کہ ’جب تک ممکن ہوا میں افغانستان کے لوگوں کے حقوق کا دفاع کروں گا۔ میں اپنے نائب صدر کے عہدے سے حالات کو بدلنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ طالب ناکام ہوں گے۔‘

’میں خدا کی قسم کھاتا ہوں اور میں اپنے قائد کے شاندار راستے کی قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے ورثے کو داغدار نہیں کروں گا جس نے کہا تھا کہ اگر ٹوپی جتنی زمین بھی باقی رہی تو وہ مزاحمت جاری رکھیں گے۔۔۔ مجھے اپنے منصوبوں کو عوامی طور پر بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

صالح نے افغان عوام کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ ’یقین کریں مزاحمت نہ کرنا تاریخی طور پر شرمناک ہو گا۔ یقین رکھیں کہ ہم جیتیں گے لیکن قربانی دیے بغیر ایسا ممکن نہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp