طاہر انوار پاشا ”نیل کے سنگ “


شاعر سعود عثمانی بھی کچھ نہ کچھ ٹھیک ہی کہتے ہونگے کہ کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے اور یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی۔ اگر اسے بالکل درست بھی مان لیا جائے پھر بھی اس صدی کا ابھی اکیسواں برس ہی شروع ہوا ہے۔ ابھی اس صدی کو ختم ہونے میں بہت عرصہ چاہئے۔ پھر عشق روٹھ بھی جائے تو عشاق میں ایک عرصہ تک وضع داریاں ضرور برقرار رہتی ہیں۔ سو ابھی کتابیں بھی شائع ہو رہی ہیں۔ فروخت بھی ہو تی ہیں۔ پڑھنے والے بھی زندہ سلامت ہیں۔ لکھنے والے بھی موجود ہیں۔ لاہور وحدت روڈ پر سید قاسم علی شاہ فاﺅنڈیشن کے زیر اہتمام طاہر انوار پاشا کے مصر کے سفر نامہ ”نیل کے سنگ“کی تقریب رونمائی تھی۔ کالم نگار بھی اس تقریب میں مدعو تھا۔ وہاں پہنچا۔ آڈیٹوریم بھرا ہوا پایا۔ نوجوان طالب علم خاصی تعداد میں موجود تھے۔ اس تقریب پر دو بندے حاوی دکھائی دیئے۔ اگر تذکیر و تانیث کا خیال رکھاجائے تو ان دونوں میں ایک بندہ تھا اور دوسری بندی۔ بندہ ملک کے معروف مزاح نگار گل نو خیز اختر اور بندی تھی عظیم شاعر منیر نیازی کی بھانجی اور سابق آئی جی پنجاب پولیس طاہر نواز پاشا کی نصف بہتر۔

شریف منش پاشا صاحب کی بہتری میں ان کی نصف بہتر کا عمل دخل ضرور ہوگا۔ موصوفہ اپنے میاں کے سفر نامہ کے کسی صفحے سے غائب نہیں پائی جاتیں۔ تقریب میں صاحب کتاب سے زیادہ موصوفہ کا ہی ذکر اذکار رہا۔ کتاب سے اکثر مقررین یہ کہہ کر پنڈ چھڑاتے رہے کہ ابھی ہمیں یہ کتاب پڑھنے کا موقع نہیں ملا لیکن موصوفہ کا ذکر کسی نہ کسی طور ضرور کرتے رہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ موصوفہ پاشاصاحب سے یوں چپکی رہتی ہیں کہ یک جان دو قالب کا گمان گزرتا ہے۔ انہیں ملے بغیر کوئی پاشا صاحب سے مل ہی نہیں سکتا۔ دوسری بات یوں ہے کہ عام طور پر پولیس افسران دوران سروس لٹھے کی طرح آکڑ خاں ہوتے ہیں۔ البتہ ریٹائرمنٹ پر ململ کی طرح ملائم ضرور بن جاتے ہیں۔ بینک نوکری سے زندگی آغاز کرنے والے شائستہ اور ملائم طبعیت طاہر انوار پاشا شاید پولیس کی وردی میں بھی لٹھا نہ بن پائے ہوں۔ پھر ایسے ملائم طبعیت بندے کو مل مل کر مزید شائستہ اور ملائم بنا لینا کسی ”نیازی زادی“ کیلئے کچھ مشکل بھی نہیں۔ یوں گماں گزرتا ہے جیسے نصف بہتر نے اپنے دوسرے نصف کو بھی بہتر بنا لیا ہو۔ آج کل پاکستان میں گھر گھر اپنی پیرنی کا رواج ہے۔ تصوف میں اپنے مرشد سے کسی دوسرے پیر کو افضل و برتر سمجھنا شرک ہے۔

اسٹیج سے تلاوت قرآن پاک کیلئے راﺅ مبارک علی کا نام پکارا گیا۔ ایک اونچے لمبے، وجیہہ، درویشی فیشن کا لمبا کرتہ پہنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں سونے چاندی کی بڑے بڑے پتھروں والی انگوٹھیاں سجائے اک صاحب اسٹیج کی جانب بڑھے۔ انہوں نے مائیک سنبھال کر سورة والتین کی تلاوت فرمائی۔ تلاوت کا یہ تحکمانہ انداز کم ا ز کم کالم نگار کو پہلی مرتبہ ہی سننے کو ملا۔ ان کے لب و لہجے میں عاجزی اور انکساری کا کہیں دور دور تک شائبہ نہیں تھا۔ انہوں نے اسی دبنگ لہجے میں تلاوت کی گئی سورة کا اردو ترجمہ پڑھا۔

کالم نگار کوبھولا بسرا گیت یاد آنے لگا۔ ”ماٹی کے پتلے تجھے کتنا گمان ہے۔ تیری اوقات کیا تیری کیا شان ہے ؟“۔ اللہ کی مخلوق کے سو رنگ ہیں۔ پھر یہ بات بھی تو ہے۔ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا :

گستاخی و بے باکی رمزیں ہیں محبت کی

ہر شوق نہیں بے باک ہر جذب نہیں گستاخ

کالم نگار کے جی میں اس درویش سے ملاقات کا ارمان بہت ہے۔ دیکھئے اللہ اپنے بندے سے کب ملواتا ہے۔ تقریب میں اک بانکی شخصیت ڈاکٹر اشفاق ورک کو بھی دیکھنے سننے کا موقع ملا۔ اردو ادب میں مزاح کے موضوع پر ان کا پی ایچ ڈی مقالہ بہت شاندار ہے۔ تقریب میں پڑھا جانے والا ان کا مضمون بھی بہت شاندار تھا۔ اک چھوٹے سے کوزے میں خشک و تر پنج دریا سمائے ہوئے تھے۔

الف انوار ب بیوی ف فرعون

بلھیا کیہہ جاناں میں کون

تقریب کے سبھی شرکاء کو کتاب ”نیل کے سنگ “ عنایت فرمائی گئی۔ چند نشستوں میں اسے پڑھ کر فارغ ہوا۔ اتنی محنت سے یہ کتاب لکھی گئی ہے کہ اب لکھنے میں بھی اتنی محنت کا چلن رہا نہیں۔ دوران سیر و سیاحت کوئی چھوٹی سے چھوٹی غیر اہم سی شے بھی لکھنے سے نہیں رہی۔ اسے پڑھتے ہوئے مختار مسعود کی کتاب ”سفر نصیب“ کی طرف دھیان جاتا ہے لیکن اس کتاب میں علمی وجاہت ہے۔ یہاں سادگی و پرکاری کی جلوہ فرمائی۔

 طور پہاڑ انسانی تاریخ میں ایک اہم باب ہے۔ شاعروں نے اس پر بہت لکھا ہے۔

طور کی برباد مٹی ہو گئی

آپ کا کیا حضرت موسیٰؑ گیا

کالم کے اختتام پر تبرک کے طور پر ”نیل کے سنگ“ سے چند سطریں۔ یہ کوہ طور کا منظر نامہ ہے۔

”شفق کی سرخی آنی شروع ہوئی تو سب مشرق کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو گئے۔ کسی مسلمان یہودی یا عیسائی کی تمیز نہ رہی۔ ہر ایک اپنے اپنے انداز میں ایک ہی خالق سے دعا مانگ رہا تھا۔ یہودی گریہ کر رہے تھے۔ عیسائی کراس بنائے جا رہے تھے اور مسلمانوں نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے۔ یہی وقت ہوتا تھا جب حضرت موسیٰؑ رات بھر کی عبادت اور ہمکلامی کے بعد مشرق کی طرف رخ کر کے دعا مانگا کرتے تھے۔ اک عجیب روحانیت اور رقت سے بھرپور ماحول تھاجو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments