آزادی وطن کے حوالے سے ایک بزرگ کا سنایا سچا واقعہ


ہم ہندوستان پنجاب کے ایک گاؤں میں رہتے تھے جہاں مسلمانوں کے علاوہ سکھ اکثریت میں تھے، جبکہ ہندو تعداد میں کم تھے۔ میرے سسر میاں عبدالکریم صاحب گاؤں کی ایک مسجد کے پیش امام تھے ان کی علاقے میں بہت زیادہ عزت تھی جس کی ایک وجہ۔ امامت کے ساتھ ساتھ میاں صاحب کا دم درود بھی تھا جو پورے علاقے میں مشہور تھا، خاص طور پر جب وہ گائے یا بھینس کے لئے اس وقت پانی دم کر کے دیتے جب گائے یا بھینس کے دودھ میں کمی واقع ہوجاتی، اور اپنے جانوروں کے لئے لوگ میاں صاحب سے دم کروانے دوردور سے آتے اور پھر میاں صاحب کے دم والے پانی کو بیمار گائے یا بھینس کو پلایا جاتا جس کے بعد وہ پہلے سے بھی دوگنا دودھ دیتی اور اس دم درود کے لیے ان کے پاس نہ صرف مسلمان بلکہ سکھ اور ہندو بھی دور دور سے آیا کرتے اور آس پاس کے علاقوں میں بھی میاں صاحب کی وجہ شہرت یہی دم درود بن چکا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان اور ہندو سکھ سب آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن کر رہتے تھے اور علاقائی سطح پر کم ازکم ان میں کوئی دشمنی نہ تھی اور سب ایک دوسرے کا خیال رکھا کرتے، ان ہی دنوں دوقومی نظریہ کے تحت مسلمانوں نے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کر دیا اور پھر آہستہ آہستہ مسلمانوں کی تحریک آزادی نے زور پکڑ لیا اور جلد ہی یہ تحریک سارے ہندوستان میں پھیل گئی اور گلی گلی میں یہ نعرہ گونجنے لگے

لے کے رہیں گے پاکستان
آزادی، آزادی

کئی ایسے علاقوں میں جہاں مسلمان گھرانے تعداد میں کم تھے اور ہندو اکثریت میں وہاں ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں پر حملہ کی اطلاعات بھی آنا شروع ہو گئیں تھیں جن میں لوٹ مار، قتل و غارت گری اور عورتوں کے اغواء کے واقعات بھی عام تھے جنہیں سن کر ہم سب گھر والے بہت۔ گھبراتے تھے لیکن میاں صاحب کا اطمینان دیدنی تھا وہ ان حالات میں بھی بہت زیادہ مطمئن رہتے جس کی وجہ ان کا وہ اندھا اعتماد تھا جو وہ اپنے علاقہ کے ہندو اور سکھ پر کرتے، ان کا کہنا تھا علاقہ کے علاوہ آس پاس کے لوگ بھی بنا کسی مذہبی تفریق کہ ہماری عزت کرتے ہیں، ہم سے دم کروانے دور دور سے آتے ہیں یہ لوگ کبھی ہم پر حملہ نہیں کریں گے کیونکہ وہ اپنی گاؤ ماتا کی بیماری میں مجھ پر بھروسا کرتے ہیں، اس لیے ہمیں ان سے کوئی خطرہ نہیں اور یہ یقین دہانی ہمارے پڑوسی کرتار سنگھ کی جانب سے دن میں کئی بار میاں صاحب کو کروائی جاتی کیونکہ کرتار سنگھ اور میاں صاحب کا یارانہ بہت پرانا تھا دونوں کے والدین کئی سالوں سے اسی علاقے میں ایک دوسرے کے پڑوسی رہے تھے، کرتار سنگھ اور میاں صاحب ایک ساتھ پل بڑھ کر جوان ہوئے، اس لیے انہیں کرتار سنگھ سے کبھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا، بلکہ کئی مواقع پر جب ہمیں مسلمان ہونے کی بنا پر کوئی مشکل پیش آئی تو کرتارسنگھ نے ہمیشہ میاں صاحب کی مدد کی اس لیے بلوے کے ان دنوں بھی ہماری فیملی بالکل مطمئن تھی اور پھر کرتار سنگھ کے کہنے کے مطابق گھر کی تمام خواتین نے اپنے قیمتی زیورات جو ان دنوں زیادہ تر چاندی کے ہوتے تھے ایک مٹکی میں بھر کراس کا منہ بند کر کے کنویں کے قریب گڑھا کھود کرزمین میں دفن کر دیے جس کا علم ہمارے علاوہ کرتار سنگھ کو بھی تھا، ان زیورات میں میرے علاوہ میری کنواری نند اور ایک شادی شدہ نند جو ہم سے کچھ دور رہتی تھی اس کے زیورات بھی شامل تھے

کچھ ہی عرصہ میں ہندوستان میں شروع ہونے والی تحریک آزادی نے پوری طرح زور پکڑ لیا جس کے نتیجے میں فسادات کی آگ بڑے بڑے شہروں میں پھیلتی ہوئی کئی چھوٹے قصبے اور ان سے منسلک گاؤں دیہات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گئی اور ان حالات نے میرے شوہر عبدالرحمن کو پریشان کر دیا جس پر انہوں نے اپنے والد سے کہا کہ ہمیں فوری طور پر اس گاؤں کو خالی کر دینا چاہیے کیوں کہ یہاں سکھ، ہندو اکثریت میں ہیں اور آس پاس کے گاؤں میں بھی ہندو اور سکھ کی اکثریت ہے کہیں ایسا نہ ہو یہ سب مل کر ہمیں کوئی نقصان پہنچائیں، مگر میاں جی کسی کی کوئی بات مانتے نہ تھے اور کرتار سنگھ پر اندھا بھروسا کرتے تھے جس کی تسلیاں بھی مسلسل جاری تھی جب کہ ان کا بیٹا دھرمندر سنگھ بھی اپنے باپ کی طرح نہ صرف ہماری ہر ضرورت کا خیال رکھ رہا تھا بلکہ دونوں کا کہنا تھا اگر کبھی ایسا ہوا کہ کسی بلوی نے آپ کے گھر کا رخ کیا تو پہلے ہماری لاشوں سے گزرے گا میاں صاحب کو ان کی ہر بات پر یقین تھا اور اسی یقین کے تحت وہ ان حالات میں بھی بڑی بے فکری کی زندگی گزار رہے تھے

جبکہ دن بدن بگڑتے ملکی حالات نے ہم سب کو پریشان کر دیا تھا ایسا لگتا جیسے کچھ ہونے والا ہے اور ایک رات ہمارا خدشہ کسی حد تک سچ ثابت ہو گیا وہ شاید جمعہ کا دن تھا سب کھانا کھا چکے تھے، میاں صاحب عشاء کی نماز کے بعد گھر آئے، تو میں اپنی نند کے ساتھ مل کر بستر لگا رہی تھی کہ اچانک دروازے پر زوردار دستک ہوئی جو ان حالات میں رات کے اس پہر بڑی خوفناک محسوس ہوئی اور متین صاحب نے دروازہ کے قریب جا کر پوچھا ”کون ہے؟

دوسری طرف میری بڑی نند اپنے چار بچوں اور شوہر کے ساتھ۔ تھی وہ سب بے حد گھبرائے ہوئے تھے کیونکہ بلوائیوں نے ان کے گھر پر حملہ کر دیا تھا اور دونوں میاں بیوی بچے لے کر بڑی مشکل سے جان بچا کر ہم تک آئے تھے جنہیں میاں صاحب نے گھر کے اندر کیا اور فوری طور پر کرتار سنگھ کو بلایا کیونکہ اب ہمیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہمارا اس علاقے میں مزید رہنا شاید کرتار سنگھ کے لیے بھی نقصان دہ نہ ہو اس لئے بہتر تھا کہ وقت پرہی یہاں سے نکل کر کسی محفوظ مقام پر پہنچ جائیں اور یہ پہلا موقع تھا کہ جب ہم سے بات کرتے کرتار سنگھ کا لہجہ کچھ بدلا ہوا محسوس ہوا جو یقین دہانی ہمیشہ اس کے لہجے میں ہوتی تھی آج نہیں تھی آج اس کا لہجہ کھوکھلا تھا جسے شاید میاں صاحب نے محسوس نہیں کیا مگر میرے علاوہ میرے شوہر کو بھی ایسا محسوس ہوا جیسے کرتار سنگھ کے دل میں کچھ اور ہے اور وہ زبان سے کچھ اور کہہ رہا ہے مگر یہ سب باتیں میاں صاحب جیسے بندہ کو سمجھانا بہت مشکل کام تھا جو آنکھیں بند کر کے، کرتارسنگھ پر دل و جان سے یقین کیے بیٹھے تھے اور پھر وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا

یہ واقعہ میری بڑی نند آپا زینب کے ہمارے گھر آنے کے تقریباً دو دن بعد پیش آیا جب رات عشاء کی نماز پڑھا کر میاں صاحب گھر آئے ہی تھے کہ بلوائیوں نے ہماری حویلی پر حملہ کر دیا یہ بلوائی اس وقت گاؤں کے اندر داخل ہوتے ہی آن مسلمان گھرانوں پر حملہ آور ہو چکے تھے جو میاں صاحب کی وجہ سے اب تک اس گاؤں میں تھے اب پر طرف ایک چیخ و پکار اور ہنگامہ تھا حویلی میں بھی چاروں طرف شور اور آہ بکا جاری تھی جبکہ ہمارے پڑوسی کرتار سنگھ کے گھر مکمل خاموشی تھی اور وہ اب تک ہماری مدد کو نہ آیا تھا ان حالات میں بھی گھر کے مردوں کا مقصد صرف اتنا تھا کہ خواتین کو باعزت گھر سے نکال لیا جائے اس لئے متین، میرے نندوئی احسان بھائی، ایک ملازم اور میاں صاحب بھی بلوائیوں کا پورا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے حملہ میں شریک سارے بلوائی مفلروں سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھے اور ہا تھوں میں کرپان لئے گھر کے ہر فرد پر حملہ اور تھے ایسے میں جب ایک بلوائی نے میاں صاحب پر پیچھے سے حملہ کیا تو میں نے کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھا کر اس کی کمر میں مارا، اور میاں صاحب کو بچا نے کی کوشش میں اس شخص کے چہرے پر موجود مفلر سرک گیا اور حملہ آور کا چہرہ دیکھ کر میرے اور میاں صاحب کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی کہ یہ حملہ آور کوئی اور نہیں کرتار سنگھ کا بڑا بیٹا دھرمندر سنگھ تھا، اب میاں صاحب تو سکتے میں آ گئے، انہیں یقین ہی نہ تھا کہ بلوائیوں کے ساتھ اس حملہ میں کرتارسنگھ کا گھرانا بھی شامل ہو سکتا ہے لیکن اب دیر ہو چکی تتھی ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا سوائے اس کے کہ گھر کی عورتوں کی عزت بچا کر یہاں سے نکل جائیں اور اس وقت جب ہم پچھلی طرف سے نکل کر بھاگ رہے تھے اچانک میری بڑی نند زینب کے پیٹ میں کرتار سنگھ نے کرپان گھونپ دی جو اب بے خوف اپنا چہرہ کھولے ہمارے سامنے دندنا رہا تھا اور یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ وہ کرتار سنگھ ہے جو پچھلے پچاس سال سے میاں صاحب کا دوست تھا مگر حالات نے ہر چہرہ بدل دیا تھا اور اب ہماری مجبوری تھی کہ ہم زینب آپا کے لئے کچھ نہ کر سکتے تھے اور ان کو اسی حالت میں تڑپتا چھوڑ کر ہمیں گھر سے بھاگنا پڑا کیوں کہ اگر ہم آن کی حالت کے پیش نظر وہاں رک جاتے تو شاید حملہ آور مجھے اور میری کنواری چھوٹی نند عائشہ کو اغوا کر لیتے، ہماری عزت بچا نے کے لئے آپا زینب کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا اور یہ بات برداشت کرنا بہت مشکل تھا کہ اپنی پیاری بیٹی کی بے گور و کفن لاش چھوڑ کر میاں صاحب کو وہاں سے نکلنا پڑا، ہم خالی ہاتھ اس حویلی سے نکل کر بھاگے، ہمارے ساتھ آپا زینب کے چاروں بچے بھی تھے جو اپنی ماں کو رو دھو رہے تھے اور پھر اندھیرے میں بھاگتے ہم لوگ ایک قریبی کھیت میں داخل ہو گئے ہمارے پیچھے کوئی بھی بلوائی نہ تھا میں سمجھ چکی تھی کرتار سنگھ نے بلوائیوں کو گھر میں موجود دیگ کے بارے میں بتا دیا تھا جس میں ہمارے زیورات اور قیمتی سامان دبا ہوا تھا یقیناً اس وقت وہ لوگ اس دیگ کو کھوجنے میں مصروف تھے جس کی بنا پر ہمیں گھر سے بھاگنے کا موقع مل گیا پھر وہاں سے ہم کس طرح بے سروسامانی کی حالت میں اسٹیشن پہنچے وہ الگ کہانی ہے اس دوران راستہ میں میرا سات سالہ بیٹا عبدالرحمان ہم سے بچھڑ گیا جسے چھوڑ کر میں روتی دھوتی پاکستان پہنچی جہاں پاکستانی کیمپ میں بہت وقت گزارا اور جب وہاں کسی گمشدہ بچے کا اعلان کیا جاتا میں اور متین ضرور دیکھنے جاتے آخر پورے ایک ماہ بعد ہمیں عبدالرحمان مل گیا جو ہمارے بعد والے کسی قافلہ کے ساتھ پاکستان آیا تھا

ہمارے لٹے پٹے قافلے نے خالی ہاتھ اپنا نیا سفر شروع کر دیا کیونکہ سارا دھن دولت ہم حویلی میں ہی چھوڑ آئے تھے جس کا کوئی دکھ نہ تھا، غم تھا تو صرف زینب کا تھا اور وہ غم آج بھی ہمارے دلوں میں تازہ ہے آج بھی تڑپتی زینب میری نظروں کے سامنے ہے، جس کی لاش کے ساتھ جانے ان بلوائیوں نے کیا سلوک کیا ہوگا اور اس بات کا افسوس ہے کہ ہمارے اعتماد کو کرتار سنگھ نے ٹھیس پہنچائی ہم نے دوست نما سانپ پر بھروسا کیا جس نے ہماری کمر میں خنجر گھونپا، میاں صاحب جب تک زندہ رہے ہمیشہ کرتار سنگھ کا دھوکا یاد کر کے رویا کرتے تھے اپنی بیٹی کی موت کے دکھ کے علاوہ وہ کرتار سنگھ کو بھی نہ بھولے

اور ایسی کتنی زینب نہ جانے کتنے باپ اس سرزمین پر تڑپتے چھوڑ آئے تھے، میرا عبدالرحمان تو یہاں مہاجر کیمپ سے مل گیا مگر جانے کتنی مائوں کے بیٹے انہیں کبھی نہ ملے، کتنی زینب تھیں جن کی قربانیاں دے کر ہم اس سرزمین پر پہنچے، جانے کتنی بیٹیوں کی اپرو ریزی کے بعد ہم نے یہ وطن حاصل کیا، کتنے بیٹے اس دھرتی ماں کی نظر کیے ، وہ دکھ جو ہجرت کا تھا آج تک ہماری رگوں سے نہیں جا تا، جوان بیٹے، بیٹیوں کا لہو اس وطن کی بنیادوں میں شامل ہے، وہ چند دن جو میں نے اپنے بیٹے کے بنا گزارے ان کی اذیت میں آج بھی محسوس کرتی ہوں اور ان ماؤں کا دکھ جنہیں اپنی اولاد دوبارہ نہ ملی ان کا دکھ میرا کلیجہ چیرتا ہے یہ وطن ہم نے ضرور حاصل کیا لیکن اس کے لئے اپنے پیاروں کی جانوں کا نذرانہ بھی دیا جانے کتنے جوانوں کئی قربانیوں کے بعد ہم نے یہ سرزمین حاصل کی دعا ہے کہ اللہ اسے ہمیشہ شاد و آباد رکھے یہ وطن سلامت رہے، یہ سلامت رہے گا تو ہم سلامت رہیں گے کیونکہ یہ وطن ہے تو ہم ہیں اور یہ وطن ہی ہماری پہچان ہے

نفیسہ سعید
Latest posts by نفیسہ سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments