طالبان کی واپسی


سنہ 2001 میں امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج کے افغانستان پر حملہ آور ہونے کے بعد ملک پر طالبان کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے وقت کے ساتھ ساتھ طالبان کی طاقت میں دوبارہ اضافہ ہوا۔ اور بہت قلیل وقت میں طالبان افغانستان کے اہم شہروں کو فتح کرتے ہوئے کابل میں بھی پہنچ گئے۔ طالبان نے جس سبک رفتاری سے ملک کے مختلف علاقوں پر قابض ہوئے وہ حیران کن ہے۔ طالبان کی پیش قدمی اکثر فریقین کی سوچ سے زیادہ تیز ہے۔

جنرل آسٹن ملر جو افغانستان میں امریکہ کی سربراہی میں موجود مشن کے کمانڈر ہیں نے جون میں خبردار کیا تھا کہ ملک میں بدترین خانہ جنگی کا آغاز ہو سکتا ہے جو دنیا بھر کے لیے ’خدشے کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے کیے گئے تجزیے کے مطابق افغان حکومت امریکی افواج کے انخلا کے چھ ماہ بعد ہی گر سکتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ان کے توقعات سے بھی پہلے ہو گیا۔ اس وقت طالبان کابل میں داخل ہو چکے ہیں اور ان کو کہیں سے بھی افغان افواج کی طرف سے مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔

طالبان نے جنگجوؤں کو حکم دیا ہے کہ کابل میں تشدد سے گریز کریں اور ایسے لوگوں کو حفاظتی مقامات پر منتقل ہونے دیں جو دارالحکومت سے نکلنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے طالبان جنگجوؤں نے گزشتہ دو ماہ میں جتنے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اتنا وہ سنہ 2001 میں اقتدار سے علیحدہ کیے جانے کے بعد سے کبھی نہیں کر سکے تھے۔ طالبان نے ان علاقوں پر بھی قبضہ کیا جن پر طالبان کے دوران حکومت میں بھی ان کا قبضہ نہیں تھا۔

امریکا نے سفارتی عملے کو کابل سے نکالنے کے لیے پانچ ہزار فوجی بھجوائے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ سفارتی عملہ نکالنے میں رکاوٹ نہ ڈالیں جبکہ نیٹو عہدیدار کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سٹاف کے کئی ارکان کو کابل میں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ افغان نیشنل آرمی کیا کر رہی ہے؟ انہوں نے مزاحمت کیوں نہیں کی ان کے پاس فضائی طاقت بھی تھی اس کو کیوں استعمال نہیں کیا؟

افغان نیشنل آرمی کو امریکا اور نیٹو افواج نے تربیت دی تھی اور بالخصوص امریکیوں نے انہیں بہترین اسلحوں سے اچھی طرح لیس کیا تھا تو پھر مزاحمت کیوں نہیں ہوئی؟ جو 3 لاکھ افغان فوج لڑے بغیر ہتھیار ڈال رہی ہے اس کی ٹریننگ پر 88 ارب ڈالر خرچ ہوئے، طالبان لڑائی کے بغیر ہی افغانستان پر قبضہ کر رہے ہیں۔ جو کچھ افغانستان میں 20 سالوں تک ترقی، جمہوریت اور افواج کی ٹریننگ کے نام پر خرچ ہوا، اس کی دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

کاسٹ آف وار پراجیکٹ کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں 2226 ارب ڈالر اس جنگ میں جھونکے۔ اس رقم سے پوری دنیا میں تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کی جا سکتی تھیں۔ امریکی ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کی 2020 ء کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے جنگی اخراجات میں 815.7 ارب ڈالر خرچ کیے ۔ پاکستان کا کل غیر ملکی قرضہ اس وقت 116 ارب ڈالر ہے یعنی پاکستان کے کل غیر ملکی قرضے سے 7 گنا زیادہ امریکہ نے جنگ میں صرف کیے ۔ اتنا کچھ کرنے کے باوجود امریکی جلدی میں افغانستان سے نکلے اور ان کے لائے ہوئے اشرف غنی کی افواج بغیر لڑے یہ سب کچھ طالبان کے حوالے کر رہی ہیں۔

سپاہی صرف دو سبب سے جان دینے پر آمادہ ہوتا ہے۔ نظریے کے لیے یا پھر وطن کے لیے۔ سپاہی تب تک کھڑا رہتا ہے جب تک اس کا کمانڈر بھی کھڑا رہے۔ لیکن غنی حکومت پر یہ طالبان یہ الزام لگاتے آئے ہیں کہ وہ غیر ملکی ایجنٹ ہے افغان عوام کے بجائے بین الاقوامی قوتوں کے لیے کام کرتا ہے۔ ان کے حکومت میں بھی زیادہ تر غیر ملکی شہریت افغان نژاد افراد کی تعداد زیادہ تھی۔ اور ایسے افراد کو سرکاری اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا جو ان عہدوں کے لیے تو نا اہل تھے لیکن سیاسی سفارش کی وجہ سے ان کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔

افغان حکمران طبقے کو 20 برس کا وقت ملا تھا۔ اپنے ملک کو کھربوں ڈالر کی مدد سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جس کی وجہ سے ان کے پاس عوامی سپورٹ بھی انتہائی کم تھی۔ جبکہ طالبان کے پاس مذہب کارڈ تھا جو انہوں نے بہت اچھی طریقے سے کھیلا۔ ان کے پاس مذہبی ریاست کا ایک نظریہ موجود تھا۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان سنہ 2018 میں براہ راست بات چیت کا آغاز ہوا تھا اور فروری 2020 میں دونوں فریقین کے درمیان دوحہ امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت امریکہ نے افغانستان سے انخلا کو یقینی بنانے جبکہ طالبان نے امریکی فوجیوں کو حملوں سے بچانے کی ذمہ داری لی تھی۔

طالبان سے یہ وعدہ بھی لیا گیا تھا کہ وہ اپنے زیرانتظام علاقوں میں القاعدہ یا کسی دوسرے عسکریت پسند گروہ کی اجارہ داری قائم نہیں ہونے دیں گے۔ طالبان نے مذاکرات میں یہ بھی اشارے دے کہ وہ خواتین کی تعلیم کی محالفت نہیں کریں گے۔ اور وہ سخت گیر اسلام نہیں بلکہ معتدل اسلام ملک میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق، میڈیا نمائندوں اور سفارتکاروں کی آزادی کا یقین دلاتے ہیں۔

طالبان کے زیر کنٹرول بعض شہروں میں کچھ ذرائع یہ دعوے کر رہے ہیں کہ طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے تاہم بعض جگہوں میں صرف چھٹی جماعت تک کی بچیوں کو سکول پڑھنے کی اجازت دی ہے اور اس سے بڑی عمر کی بچیوں کو سکول جانے سے روک دیا گیا ہے۔ تاہم طالبان کا دعویٰ ہے کہ‘ شرعی اور افغان معاشرے میں قابل قبول لباس میں لڑکیاں سکولوں اور کالجوں میں جا سکتی ہیں ’اور ان کے مطابق اب بھی ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں سکولز اور کالجز کھلے ہیں۔

کابل میں طالبان کے داخل ہونے کے بعد اشرف غنی استعفیٰ دے چکے ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی کے استعفے کے بعد عبوری حکومت قائم ہوگی۔ طالبان اور افغان حکومت میں قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ اللہ کی ثالثی میں مذاکرات ہوئے۔ جس میں علی احمد جلالی نئی عبوری حکومت کے سربراہ نامزد کیا گیا۔ جبکہ طالبان کے اہم لیڈر ملا برادر قطر سے کابل پہنچ گئے ہیں۔ آئندہ کچھ گھنٹے اور دن افغانستان کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔ غنی اشرف کو مذاکرات کے بعد با حفاظت نکلنے کا راستہ دیا گیا اور خصوصی ہیلی کاپٹر سے تاجکستان روانہ ہو چکے ہیں۔ اس تمام صورتحال میں طالبان ایک فاتح کے طور پر نظر آ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments