کیا محلے کی کسی بد چلن عورت کے کردار کی تعمیر کے لیے کبھی چندہ اکٹھا کیا


بیٹے نے گاڑی سے سامان نکالتے ہوئے مجھے کہا کہ وہ سارا سامان لے آئے گا، میں تیز تیز قدموں اوپر چڑھ رہی تھی۔ سر پر ٹوپی رکھے، سفید کپڑوں میں ملبوس جوان آہستہ آہستہ چڑھ رہا تھا۔ میری آہٹ محسوس کر کے نظریں نیچی کیے دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا تاکہ میں پہلے گزر جاؤں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا، اور اپنی منزل کی سیڑھیاں طے کر کے اپنے فلیٹ کے دروازے پر جا پہنچی۔ دروازہ کھلا رہنے دیا کہ بیٹا آتا ہی ہو گا، مگر دو بار فون کرنے پر وہ گھر آیا، دیر سے آنے کی وجہ پوچھی، کہنے لگا۔

تبلیغی جماعت کا ایک لڑکا سیڑھیوں پر مل گیا تھا، اسلام کی تعلیمات بتا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد دروازہ بجا۔ میں دروازے پر گئی تو وہ ہی مہذب لڑکا جو کچھ دیر پہلے ملا تھا، کھڑا تھا، اس کی نظریں اب بھی زمین پر گڑی ہوئی تھیں دھیمے لہجے میں کہا کہ کوئی مرد ہو تو اسے بھیج دوں۔ میں نے ٹالنے کی غرض سے کہا اس وقت کوئی نہیں۔ اس پر بولا، شام کو میں انہیں مسجد بھیج دوں میں نے اچھا کہہ کر دروازہ بند کر لیا۔ یہ کوئی صرف اس روز کا قصہ نہیں۔ بڑے، چھوٹے شہروں میں رہنے والے ان کی تبلیغ اور ایسے واقعات سے فیضیاب ہوتے ہی رہتے ہیں۔

علماء مخصوص علاقوں اور طبقات میں دوزخ کا خوف اور شہادت کا شوق پیدا کرنے کے لیے عبادات کی اہمیت کو فروغ دینے میں کسی حد تک کامیاب رہے۔ لیکن سماجی، اخلاقی، اور تمدنی شعور بیدار کرنے میں قطعی ناکام رہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں انہیں ان کی عبادت گاہوں تک محدود کر دیا گیا۔ ہندوستان میں پنڈت نے ہندو ازم اور پاکستانی علماء نے اسلام ازم کو فروغ دینے اور اپنے کردار کو مقبول بنانے کے لیے دوسرے مذاہب، فرقوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنا یا، یوں ان کے فالورز کی لغت سے درگزر، اخوت، ایثار اور محبت کے الفاظ سرے سے حذف ہو گئے، مگر ہدف پورا ہوا۔ مخصوص طبقات میں ان کی مقبولیت بڑھی۔

ہندوستان میں سنا ہے، شودر، اچھوت جوق در جوق مسلمان ہوئے تھے، تب بھی انہیں کسی نے اس مذہب کی اچھائیاں نہیں بتائی تھیں، نہ ہی وہ اپنے دھرم سے تنگ آئے تھے، انہیں لگتا تھا کہ اسلام کے ماننے والے ذات پات، اونچ نیچ اور طبقاتی فرق نہیں رکھتے۔

کیا کسی کو ان کے دین ایمان کی فکر لاحق ہوئی، کیا کسی نے انہیں اسلام میں داخل کرنے کی کو شش کی۔ اور اگر یہ خود دین میں داخل ہوئے تو کیا ان کے گلے میں کسی نے ہار پھول ڈالے، اور کیا کسی نے ان کی خبر رکھی کہ یہ پلٹ تو نہیں گئے۔
کیا کسی مذہب میں داخل ہو نے یا ٹکے رہنے کے لیے کسی حد تک آسودہ، بے فکر اور مہذب ہونا ضروری ہے۔

خیال آتا ہے کہ سر راہ اجلے کپڑوں میں ملبوس یا سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو ہی ہدایت دینے کی ضرورت ہوتی ہے؟ نیکی کی باتیں، علماء کرام کے قصے، قرآن، و سنت، پیغمبروں کے فضائل آخرت کی زندگی، خوب صورت حوروں کے قصے سننے کے لیے آسان ہدف ہی ضروری ہے؟

زمین پر رینگتا انسان، جوتے ٹانکتا موچی، بندر نچاتا لڑکا، سانپ کے سامنے بین بجاتا سپیرا، مزار کی سیڑھیوں پر جوتے چپلوں کی رکھوالی پر مامور لڑکا، سامان ڈھوتا محنت کش بوڑھا، ٹرین میں پکوڑے بیچتا لڑکا، کھیتوں میں بالیوں سے گندم نکالتی عورتیں، چوک پر کھڑا کانسٹیبل، عید گاہ میں پہرا دیتی پولس، ناکوں پر چنگی وصول کرنے والے ملازمین، ، شانوں پر دو کین دھرے تیز تیز قدموں جاتے لڑکے، ہسپتال کے گیٹ پر بیٹھے ڈھیٹ بھکاری، شانوں پر گھر لیے پھرنے والے خانہ بدوش، راستہ ٹٹولتی اندھی بڑھیا، اورنج ڈبے میں دونوں ہاتھوں سے کوڑے کو اندر دھنساتا لڑکا، سڑک پر جھاڑو لگاتی عورت، زمین پر چپل کو سپڑ سپڑ کرتی دوسرے سے تیسرے گھر جاتی کام والی، معذور، رال بہتے لڑکے کو، کسی بچے کی پرانی پرام میں ڈالے، پرام گھسیٹتی فریاد کرتی ہوئی سخت مزاج عورت، کسی جھونپڑی کے سامنے چٹائی پر بیٹھی بچی کے سر سے جوئیں نکالتی ماں۔

کیا ان پر ہدایت اور مسجد کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ کسی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اللہ اپنے بندوں کو ماؤں سے ستر گنا زیاد پیار کرتا ہے۔ رزق کی ترسیل کے فرشتے کا نام بتایا، بتایا کہ انسان سراسر خسارے میں ہے۔ محنت کی تعلیم دی، کسی کو صبر کے اجر کی نوید دی، کسی کو بتا یا کہ شہید کبھی مرتے نہیں، والدین کے حقوق بتائے؟

جاؤ، جانوروں کو ہنکاتے چرواہے کو بتاؤ کہ ہمارے نبی بکریاں چرایا کرتے تھے، اور ایک وقت آیا کہ وہ مدینے کے حاکم بنے۔ مگر رہنے دو اس میں بہت وقت لگ سکتا ہے، ہو سکتا ہے اسے لفظ نبی، پیغمبر کا مطلب ہی نہ آتا ہو۔

گاؤں میں کلف لگے کپڑوں میں اکڑے بدمعاش، مونچھوں کو تاؤ دیتے وڈیرے کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ نہ تو آسمان کو پھاڑ سکتے ہیں نہ زمین کو چیر سکتے ہیں، پر ٹھہرو یہ وہی جہاد ہے جس کی تم مساجد اور اجتماع میں ترغیب دیتے رہے ہو، اس میں جان کو تو خطرہ ہے ہی، پر لاش غائب کر دی گئی تو شہادت کی خبر بھی نہ پھیل پائے گی۔

کبھی ٹمٹماتے ستاروں میں فجر کی اذان اور ریلوے اسٹیشن کے فرش پر، خراٹے بھرتے قلیوں کو جگا کر فلاح کا راستہ دکھایا، بتایا کہ نماز نیند سے بہتر ہے۔

کیا کبھی گرم دوپہروں میں تندور کے سامنے سنکتے ہوئے آدمی کو تسلی دی کہ اب دوزخ اس پر حرام ہوئی۔
کیا محلے کی کسی بد چلن عورت کے کردار کی تعمیر کے لیے کبھی چندہ اکٹھا کیا۔

آئے روز ہم اساتذہ کو ورک شاپ میں مختلف سرگرمیوں کے ذریعے سکھایا جا تا ہے کہ کند ذہن، بے پرواہ، شریر اسٹوڈنٹس جو کسی طرح سیکھنے کی جانب مائل نہ ہوتے ہوں، انہیں سیکھنے جانب کس طرح مائل کرنا ہے۔

گلی، محلے میں احیائے اسلام کی خاطر گلا خشک کر کے جنت پکی کرنے والوں کو بھی کچھ سرگرمیاں کرنی چاہئیں۔ دور دراز کے گاؤں جائیں تو اپنے ساتھ پرانے، نئے کیلنڈر لے جائیں، دیہاتیوں کو سورہ رحمان کی فضیلت بتاتے ہوئے تصویریں دکھائیں کہ وہ رب کی نعمتوں کا نظارہ ہی کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments