طالبان کی فتح میں پنہاں ہماری دائمی شکست


امکان یہی ہے کہ جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے کابل طالبان کی آغوش میں پہنچنے والا ہوگا۔ ابھی ہم اپنی آزادی کی خوشی منا کر فارغ ہوئے ہیں کہ ایک مزید خوشی ہمارے انتظار میں ہے۔ طالبان مجاہدین نے دوعشروں پر محیط جنگ جیت لی ہے اوراب افغانستان میں اسلام کا بول بالا ہوگا اور دشمنوں کا منہ کالا ہوگا۔ ہمارے ہاں طالبان پرستوں کو یقین ہے کہ اگر کابل میں طالبان ہوں گے تو نہ صرف جنوبی ایشیاءمیں اسلامی ممالک کی طاقت میں اضافہ ہوگا بلکہ ہمسایہ پاکستان میں بھی اسلام دشمن لبرل اور سیکولر افراد کا قلع قمع کرنے میں آسانی رہے گی اور یوں بھارت کے دانت کھٹے ہوں گے اور پوری دنیا میں بوریہ نشین طالبان کی دھاک بیٹھ جائے گی۔ پوری دنیا پر دھاک بٹھانے، بھارت کے دانت کھٹے کرنے، لبرل سیکولر افراد کا قلع قمع اور دشمنوں کا منہ کالا کرنے تک تو بات سمجھ میں آتی ہے اور قرین قیاس بھی ہے لیکن جب تھوڑا آگے دیکھتے ہیں تو کنفیوژن بڑھ جاتی ہے کہ پھر کیا ہوگا؟

اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں طالبان کی مخالفت کرنے والوں کی اکثریت ’ٹھکانے‘ لگادی گئی ہے جو بچے کھچے ہیں وہ غائب ہوجائیں گے یا اُن کو ’ٹھوک‘ دیا جائے گا۔ گذشتہ برسوں میں بظاہر طالبان مخالف نظر آنے والوں میں شامل اے این پی، سینکڑوں مشران، ایم کیو ایم، پی ٹی ایم، کسی حد تک پیپلز پارٹی اور اکا دُکا سیکولر لبرل ’ٹھوک‘ دئیے گئے ہیں اور اگر کہیں کسی سیاسی جماعت میں کوئی رمق نظر آتی ہے تو ممکنہ نظر آنے والی یلغار میں وہ کسر بھی پوری ہوجائے گی۔ سماجی سطح پر طالبان مخالف سوچ رکھنے والے کسی گروہ یا افراد کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ایسا کوئی ہے ہی نہیں اور اگر سوشل میڈیا کی حد تک کوئی یاوہ گوئی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو تسلی بخش جواب دینے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ گویایہ محاذ بھی صاف ہے۔ اے این پی اور پیپلز پارٹی گذشتہ انتخابات اور کئی دوسرے مواقع پر اپنے لیڈروں اور کارکنوں کی ’صفائی‘ کے بعد اچھی طرح جان چکی ہیں کہ اس محاذ پر ہمیشہ انہیں شکست فاش ہوگی۔ طالبان اور اُن کے ساتھیوں کے لیے جتنی فضا پاکستان میں سازگار ہے شاید اُتنی ابھی افغانستان میں نہیں۔ وہاں پر مزاحمت کا سلسلہ شاید کچھ عرصے تک جاری رہے اور طالبان کو مکمل سکون کے ساتھ حکومت نہ کرنے دی جائے۔

ریاست کے طور پر ہم مکمل طور پر مستحکم مقام پر کھڑے ہیں کیوں کہ آج بھی بین الاقوامی سطح پر ہم تنہا ہیں۔ یہ صورتحال ہمارے لیے نئی نہیں کیوں کہ عرصہ دراز سے ہم اسی مقام پر ہیں۔ یورپی یونین میں شامل کوئی ایک ملک بھی ہمارے ساتھ کھڑانہیں کیوں کہ باہر کی دنیا ہم پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات ایک فون کال کی دوری پر اٹکے ہوئے ہیں، ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ کال آگئی تو ہم نے کیا کرنا ہے اور اگر نہ آئی تو پھر ہم کیا کریں گے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہماری وزرات خارجہ ایسے ترانہ نویسوں کی تلاش میں ہے جو طالبان کی مدح سرائی میں منظوم مدد کرسکیں۔ یقین کریں اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے گھسا پٹا لفظ’ لم لیٹ‘ بھی ناکافی نظر آتا ہے۔ اس حوصلہ شکن صورت حال میں اگر ہم صرف پاکستان کی حدود کے اندر بسے ایسے طبقات کی طرف نظر دوڑایں جنہیں طالبانیت کے اس عفریت کا ممکنہ سامنا کرنا ہوگا تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ پھر کیا ہوگا؟

ایک بات تو تقریباً طے ہے کہ وطن عزیز میں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان رحمت بن کر آئیں گے اُن کی بلبلاہٹ سب سے پہلے سنی جائے گی۔ آسودہ حال قرار دئیے گئے سرکاری و غیر سرکاری عہدیدار سب سے پہلے وطن عزیز سے بھاگنے کی کوشش کریں گے اور امکان یہی ہے کہ اِن کی اکثریت بہت پہلے ہی اس قسم کا بندوبست کرچکی ہے، بس یہ لوگ آخری بگل کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وطن عزیز میں موجود ان کے شاندار محل انہیں پنا ہ نہیں دے پائیں گے۔ انہیں وہ سہولیات میسر نہیں ہوں گی جن کے یہ عادی ہیں۔ اس صورت میں چلے جانا ہی بہتر نظر آتا ہے۔ اگر محض سوشل میڈیا سے جاری ہونے والی معلومات اور اعدادوشمار پر یقین کرلیا جائے تو شاید ایک بھی ایسا سابق یا موجودہ اعلیٰ عہدیدار نظر نہیں آتا جس نے اس قسم کی پلاننگ نہ کررکھی ہو یا بیرون ملک سرمایہ کاری کا ابھی تک نہ سوچا ہو۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ ان کی فوری روانگی میں کرونا جیسی وباءکچھ عرصے کے لیے حائل ہوجائے کیوں کہ بین الاقوامی ہوائی سفر کسی حد تک محدود ہوچکا ہے۔ لیکن میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ لوگ ضرور چلے جائیں گے کیوں کہ انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہوگا۔

پیچھے بچے گا انتہا پسندوں کا پسندیدہ ’غذائی سامان‘ یعنی کمزور اور مختلف مذاہب و مسالک کے ساتھ وابستہ لوگ۔ ریاستی انتظامی اہلیت میں واضح قدیمی کمزوری کی باعث انفرادی سطح پر مسلح لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہی سب سے خطرناک عنصر بھی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد اپنی اپنی شناخت کے ساتھ جتھہ بند ہونے کی کوشش کرے گی تاکہ کسی حد تک مقابلہ کیا جاسکے۔ اس دوران اپنے اپنے ’حساب‘ بھی چکائے جائیں گے اور توہین وغیرہ کے الزامات کے بعد قتل و غارت گری ہوگی تاکہ جائیداد وغیرہ پر بھی قبضہ کیا جائے۔ غرض ایک اجتماعی انارکی کی کیفیت سامنے آئے گی جس کو روکنے کی اہلیت سے ریاست تقریباً دستبردار ہوچکی ہوگی۔ اقلیت کس حال میں ہوگی اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ کوئی اکثریت بھی پوری طرح محفوظ نہیں ہوگی۔ سماجی طور پر منقسم اور واضح ترین نشانیوں کی حامل اقلیتیں کب تک مقابلہ کرسکتی ہیں، اس بارے میں بہت سوچ بچار کی ضرورت نہیں، پہلے ہی ہم دیکھ چکے ہیں کہ اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے ہمارا ریکارڈ کیسا ہے۔ بہت سے لوگ یہ سوال اُٹھائیں گے کہ افغان طالبان تو ہماری طرف یلغار نہیں کریں گے پھر اس قسم کا نقشہ کیوں کھینچا جارہا ہے؟ اُن کے لیے جواب یہ ہے کہ پہلے بھی افغان طالبان نے ہمارے ستر ہزار افراد شہید نہیں کیے تھے، یہ ”اپنے“ ہی لوگ تھے، اپنے بھائی بند تھے اوراُس وقت تو مقامی سطح پر اِن کے چاہنے والوں کی تعداد بھی بہت کم تھی۔ اب تو ہم مجموعی طور پر اِن مقامی طالبان کے معترف ہیں۔ ہمارے میڈیا پر کئی کئی گھنٹے ان کے کارناموں کی باآواز بلند تعریف کی جاتی ہے۔ اب تو ہم قاتلوں کے ماتھے چومتے ہیں اور اُن کے دفاع کے لیے لاکھوں کی تعداد والی پارٹیاں وجود میں آچکی ہیں۔ اب تو ہم دیوانہ وار محبت کرتے ہیں اُن کے ساتھ۔ یہ ایک ایسی خود اذیتی ہے جس کے جال سے باہر نکلنا ممکن نہیں رہا۔ جس طرف نظر دوڑائیں مایوسی اور بے بسی نظر آتی ہے۔ ریاست اور ریاستی ادارے جس حال میں ہیں، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اور انتہا پسند اور اُن کے ساتھی جتنے خوش اور بے تاب ہیں، وہ بھی صاف واضح نظر آرہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments