طالبان سے شکست کھانا افغان حکومت اور امریکہ دونوں کی ذمہ داری ہے



افغان حکومت کا طالبان سے شکست کھانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ امریکہ اور افغان حکومت دونوں کی ناکامی ہے۔ امریکہ جو بیس سال افغانستان میں رہا 3 لاکھ افغان افواج کی ٹرینگ کی۔ جدید اسلحہ دیا۔ ڈالر کی ایک کثیر رقم بھی ان افغان افواج کو تربیت دینے میں خرچ کیں۔ اب امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کے بعد وہ تربیت یافتہ افغان افواج کہا ہیں؟ اور طالبان کو روکنے میں کیوں ناکام ہو رہے ہیں؟ حالانکہ طالبان کے پاس نہ جدید اسلحہ ہے نہ منظم فوج لیکن آئے روز طالبان افغانستان کے شہر کے شہر آسانی سے فتح کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔

کیا امریکہ نے جو 20 سال سے 3 لاکھ افغان فوجیوں کو تیار کیا تھا وہ صرف کرائے کے فوجی تھے؟ یا امریکی ڈالر کھانے کے لئے تھے؟ یا یہ فوجی اتنے کمزور ہیں کہ جو ایک ان ٹرینڈ طالبان کا مقابلہ نہیں کر سکتے؟ بجائے خود اپنی بزدلی اور شکست کو ماننے کے الزام پاکستان پر ڈالا جا رہا ہے حالات بتا رہے ہیں کہ یہ افغان فوجی خود طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں یا یہ جان بوجھ کر علاقے طالبان کے حوالے کر رہے ہیں حالانکہ پاکستان ایک دفعہ واضح کر چکا ہے کہ یہ افغانوں کا آپس کا مسئلہ ہے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ آپس میں مل کر طے کریں اور پاکستان ایک ہمسائے کی حیثیت سے جو بھی افغانستان کی حکومت آئے گی اس کے ساتھ تعاون کرے گا۔

اشرف غنی اور افغان حکام کا طالبان کی کامیابیوں کا الزام پاکستان پر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان، افغانی کرائے کے فوجوں کے بدلے لڑے اور قربانیاں دے۔ ابھی تک ہم 40 سال سے 30 لاکھ افغان مہاجروں کو برداشت کر رہے ہیں۔ ان افغانیوں کے جنگوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ہمارے ملک کی معیشت تباہ ہو گئی۔ ہمارے 70 ہزار لوگوں نے قربانیاں دی۔ ملک میں دہشت گردی اور بدامنی پھیلی اب ہمیں مزید افغانیوں کے مسائل میں الجھ کر اپنے ملک کو تباہ و برباد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نے 80 کی دہائی اور 2001 میں افغانستان اور امریکیوں کی جنگ لڑ کر بڑی غلطی کی ہے جس کا خمیازہ ابھی تک ہم بھگت رہے ہیں۔ اشرف غنی پاکستان پر الزام لگانے کی بجائے ان تین لاکھ فوجیوں کے ساتھ طالبان کا مقابلہ کر کے اپنے علاقے خالی کروائے طالبان کو روکنے کی ذمہ داری افغان فوجیوں کی ہے پاکستان کی نہیں۔

تلوار کے زور پر قبضہ کرنا، قبائل کا آپس میں لڑتے جھگڑتے رہنا، قتل و غارت کرنا، افغانوں کا پرانا وتیرہ اور کلچر ہے۔ امریکہ 20 سال تک افغانستان میں رہا ہے امریکہ کو پاکستان سے زیادہ افغانستان اور افغانوں کے بارے میں علم ہونا چاہیے طالبان اس وقت بھی موجود تھے مزاحمت کر رہے تھے اور بہت سے علاقے بھی طالبان کے زیر اثر تھے اس وقت امریکہ نے افغان حکومت کے ساتھ مل کر طالبان کو روکنے کے لئے کوئی مضبوط اسٹریٹیجی کیوں نہیں بنائی؟ اور دوسری اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے تھا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد بھی ایک مضبوط جمہوری پراسس جاری رہ سکے اور اقتدار کی منتقلی امن و امان اور منصفانہ طریقے سے ممکن ہو سکے لیکن امریکہ افغانستان میں ایک مضبوط عوامی سسٹم دے کر جانے میں بھی ناکام رہا۔

افغانستان نصف صدی سے خانہ جنگی کا شکار رہا ہے افغانستان کے معاملات کو سنبھالنا کسی ایک یا دو ملک کے بس میں نہیں ہے۔ اگر افغان حکومت اور فوج یا طالبان حالات کو معمول پر لانے میں ناکام ہو جاتے ہیں اور انسانی حقوق اور جانوں کے ضیاع کے المیہ کا خطرہ بڑھ سکتا ہے تو اس سے پہلے عالمی برادری کو اقوام متحدہ کے تحت دوبارہ سے افغانستان میں فوجی تعینات کر کے امن بحال کروانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments