قسط نمبر 2 ( یادوں کے دریچے )


اس سے پہلے کہ میں مزید کسی اور شخصیت کا ذکر کروں صحافت کی دنیا کا بڑا نام جناب مجید نظامی صاحب کے بارے بات نہ کرنا مناسب نہیں ہو گا روز نامہ مشرق آنے سے پہلے میں نے مجید نظامی صاحب سے رابطہ کیا انہوں نے شفقت کی اور مجھے ملاقات کا وقت دے دیا پہلی ملاقات میں ہی انہوں نے مجھے اپنے کام کا ریکارڈ لانے کو کہا میں بہت خوش تھا کہ مجھے انہوں نے وقت بھی دیا اور جاب کی امید بھی دلائی شاہد ہم کا تعلق ایک ہی شہر سے تھا جس کا نام سانگلہ ہل ہے لیکن اس سے بھی زیادہ مجھے وقت دینے کی وجہ میرے والد محترم تھے ان کے نام اور مقام کی وجہ سے میرے کئی کام خود ہی آسان ہو جاتے ہیں۔

خیر میں نے اپنے کام کا سارا ریکارڈ گھر سے لیا اور اگلے ہی روز پھر ان کی خدمت میں حاضر ہو گیا ان دنوں اخبار میں شائع ہونے والی خبروں کو محفوظ رکھنے کا بہت شوق تھا اس لیے تمام ریکارڈ محفوظ تھا سب کچھ نظامی صاحب کے حوالے کیا انہوں نے انتظار کرنے کو کہا کچھ دنوں بعد مجھے روزنامہ نوائے وقت سے ایک خط ملا اور جاب کی آفر کی گئی لیکن میں نے یہ جاب نہ کی جس کا مجھے آج بھی افسوس ہے اس وقت مجھے سمجھ نہ آئی لیکن نظامی صاحب میری صحافت میں تربیت کرنا چاہتے تھے اور میں نے یہ موقع گنوا دیا۔

اب دوبارہ روزنامہ مشرق کی طرف آتے ہیں جہاں پر ہماری ملاقات معروف فیچر رائیٹر ریاض بٹالوی صاحب سے ہوئی۔ وہ صحافت میں بڑے نام کے ساتھ بڑے انسان بھی تھے وہ اپنے چھوٹے سے آفس میں کتابوں کی مکمل لائبریری کے ساتھ ہر وقت اپنے کام میں مشغول رہتے وہ عارضہ قلب میں مبتلا تھے لیکن سگریٹ پینے سے باز نہیں آتے۔ آفس میں ان کے بعض ساتھی ان کو سگریٹ نوشی سے منع کرتے لیکن وہ چوری چھپے ایک آدھا کشں لگا لیتے۔ جب ان کو زیادہ طلب ہوتی تو وہ سگریٹ نوش صحافی کی تلاش میں نکل پڑتے اس مشن کی کامیابی پر وہ خوشی میں ایک دو بڑے کشں لگا کر سکون حاصل کرتے۔

مجھ سے ان کو گلہ رہتا کہ میں بوریت والے فورم ارینج کرواتا ہوں مجھے اکثر کہتے باجوہ کبھی دل کو خوش کرنے والے فورم بھی کروا دیا کرو تمہیں کبھی نور جہاں، ریما اور شو بز کے دوسرے افراد کو بلانے کا خیال نہیں آیا۔ شاید وہ اس ادارے کو بند ہوتا دیکھ کر دکھی ہو رہے تھے وہ کارکنوں کو تفریح کا موقع دینا چاہتے تھے سنیئر ہونے کے ناتے میں ان کو جواب دینے کی ہمت نہیں رکھتا تھا مجھے افسوس ہے کہ میں ریاض بٹالوی صاحب کی خواہش پر تفریحی فورم نہ کروا سکا۔

اس اخبار کے ایڈیٹر سعادت خیالی صاحب سادہ طبعیت اور لباس کے ساتھ چار بجے سہ پہر آفس تشریف لاتے۔ وہ پان کھانے کے شوقین تھے۔ کرتا پاجامہ آن کی پسند کا لباس تھا۔ وہ اکثر قینچی چپل کے ساتھ ہی آفس آ جاتے ایک دن انہوں نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور کہا کہ آپ کے کام کی رفتار بہت تیز ہے۔ ایک اخبار کے ایڈیٹر کے یہ الفاظ میرے لیے حیران کن تھے۔ میری خاموشی کو توڑتے ہوئے انہوں نے کہا بیٹا کامرس رپورٹر کے پیٹ پر لات نہ مارو اور تاجروں کا فورم مت کرو ان کی یہ بات سن کر میں وہاں سے چلا آیا اور سوچتا رہا کہ اخبار کے زوال کی کیا وجوہات ہیں۔

اسی دوران میری ملاقات روزنامہ آفاق کے چیف ایڈیٹر شوکت حسین شوکت صاحب سے بھی ہوئی ملاقات تو آن سے پرانی تھی لیکن وہ والد محترم کے حوالے سے تھی جب شوکت صاحب کا آفس میکلوڈ روڈ پر ریجنٹ سنیما میں تھا۔ اس کے بعد انہوں لاہور کے کئی مقامات پر اپنا آفس بنایا اپنے اخبار کے علاوہ وہ روزنامہ خبریں میں بھی کالم لکھتے تھے۔ انہوں نے بیروزگاری کے عرصے میں مجھے جاب کی آفر کی تھی لیکن میں آن کی بعض شرائط کی وجہ سے وہاں کام نہ کر سکا

ان کو میں نے جناح باغ سیر کرتے دیکھا ہے۔ وہ گھٹن کے ماحول میں کھلی فضا میں سانس لینے کی کوشش کر رہے تھے لیکن حالات نے آن کو مزید موقع نہ دیا اور وہ دنیا سے کوچ کر گئے۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے روزنامہ مشرق اور روزنامہ خبریں کے درمیانی سفر میں میری ملاقات بزرگ صحافی ادیب کالم نگار میاں شفیع المعروف (م ش) صاحب سے رہی انہوں نے مجھے ممتاز احمد خان کی طرح قیام پاکستان کے لیے علامہ اقبال اور قائد اعظم کی کوششوں کے بارے میں بتایا م ش صاحب کا کہنا تھا کہ صحافت مسلسل جہدوجہد کا نام ہے۔

میں جب بھی گارڈن ٹاؤن ان کے گھر جاتا تو ان کے حکم پر چائے کے دو کپ آ جاتے اور پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا جس میں زیادہ تر پاکستان کی تاریخ میں نشیب و فراز موضوع ہوتا مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے اپنے سینے میں چھپے رازوں کو آشکار کیا یا پھر یہ تاریخ ان کے سینے میں ہی دفن رہی ایک دن انہوں نے مذاقاً مجھے کہا کہ کون سی سواری پر آئے ہو میں نے جواب دیا کہ موٹر سائیکل پر تو انہوں نے فوراً کہا باجوہ یعنی میرے والد صاحب کو کہتا ہوں کہ تمہیں گاڑی لے کر دیں آج کے دور میں اچھی سواری بہت ضروری ہے۔

م ش صاحب نے اخبار میں کام کرنے خاص طور پر رپورٹنگ کے متعلقہ بنیادی اصول اور خبر حاصل کرنے طریقے بتائے اپنے علم کو دوسروں تک منتقل کرنے والے یہ عظیم لوگ دنیا میں کم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں سے پھر ضیاء شاہد صاحب کا پیغام مجھے شو بز کے رپورٹر ندیم سلیمی کے ذریعے ملا میں نے ضیاء صاحب کو کال کی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ میرا انتظار کر رہے ہیں۔ میں حاضر ہوا اور روزنامہ خبریں کی ٹیم کا حصہ بن گیا جہاں پر شہزادہ سلیم سے میری ملاقات رہی

وہ اپنے نام کی طرح شہزادے تھے۔ مجھے کئی بار لگتا کہ وہ مغلوں کے خاندان کی نشانی ہیں کیونکہ ان کے کچھ کام مغلوں والے تھے جن کو تحریر میں لانا ممکن نہیں وہ اپنے آخری دنوں میں مالی مشکلات کا شکار رہے۔ میں نے ان سے وعدہ بھی کیا لیکن وعدہ وفا نہ کر سکا ان کے ہاتھ سے لکھا ہوا ان کا ایڈریس مجھے اپنا وعدہ پورا نہ کرنے کا احساس آج بھی دلاتا ہے۔

وہ اپنی تحریر میں ایسے موتی بکھیرتے تھے کہ بندہ ان کی تحریر کی خوبصورتی کو دیکھ کر پورا مضمون پڑ لیتا لیکن انہوں اپنی تحریر پر اپنے اندر کی ٹوٹ پھوٹ کو ظاہر نہیں ہونے دیا اور اسی ٹوٹ پھوٹ کو اپنے اندر ہی لے کر خاموشی سے دنیا سے چلے گئے یہاں پر ہی عالمی خبروں پر نظر رکھنے والے اطہر عارف صاحب سے بھی ملاقات رہی وہ اپنی دنیا میں ہی مگن رہتے تمام صحافی ان کی دل سے عزت کرتے ایک دفعہ میں اور شوکت اشفاق صاحب کے ساتھ ان کے گھر خصوصی کام کے لیے بھی گئے تھے۔

وہ نڈر اور ذمے دار صحافت کے حامی تھے اور اپنے کام میں کسی کی ضروری یا غیر ضروری مداخلت پسند نہیں کرتے تھے۔ اگلے دور میں عباس اطہر صاحب سے مختصر ملاقات رہی اور میں ان سے طویل ملاقاتوں کا متمنی رہا لیکن ایسا نہ ہو سکا اسی طرح روز نامہ جنگ کے حامد جاوید بھی صحافتی سیاست کے ماہر اور ہر ایک کے مشکل وقت میں ساتھ دینے والے اپنی طرز کے منفرد صحافی تھے اور سب سے بھر کر لاہور پریس کلب کی رونق ان کے دم سے نمایاں تھی۔

اسی دور میں تاج الدین حقیقت اور سعود ملک بھی ان صحافیوں مین شامل تھے جو خوش لباسی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ یہ لوگ صحافت کی گرتی ہوئی ساکھ پر ہمیشہ پریشان رہتے ہمیں ان صحافیوں کو یاد رکھنا چاہیے اور ان کی یاد میں سیمینار منعقد کر کے خراج تحسین پیش کرنا چاہیے تاکہ آئندہ نسل کے لیے ایک تاریخ بن جائے۔ اپنی کسی تحریر میں واصف علی واصف، اشفاق احمد، منیر الدین چغتائی احمد فراز اور شہزاد احمد جیسے شاعروں، ادیبوں اور معاشرے کی سوچ کو بدلنے والے درویشوں کا ذکر کروں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments