منٹو کا فحش افسانہ؟ بُو


منٹو کے چھے افسانوں، ”کالی شلوار“، ”دھواں“، ”بو“، ”ٹھنڈا گوشت“، ”کھول دو“، اور ”اوپر نیچے اور درمیان“ پر فحاشی کے الزام کے تحت فوجداری مقدمے چلائے گئے۔ ان میں سے ابتدائی تین کہانیوں پر مقدمات برطانوی دور حکومت میں قائم ہوئے اور بقیہ تین تحریروں پر مملکت پاکستان میں درج ہوئے۔ آج پاکستان میں منٹو کی شائع ہونے والی کتابوں میں یہ افسانے شائع کیے جا رہے ہیں۔ ان کے فحش ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ وقت نے کیا ہے۔ مدیر۔

برسات کے یہی دن تھے۔ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے اسی طرح نہا رہے تھے۔ ساگوان کے اس اسپرنگ دار پلنگ پر جو اب کھڑکی کے پاس سے تھوڑا ادھر سرکا دیا گیا تھا ایک گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ چپٹی ہُوئی تھی۔ کھڑکی کے پاس باہر پیپل کے نہائے ہُوئے پتے رات کے دودھیا اندھیرے میں جھومروں کی طرح تھرتھرا رہے تھے۔ اور شام کے وقت جب دن بھر ایک انگریزی اخبار کی ساری خبریں اور اشتہار پڑھنے کے بعد کچھ سُنانے کے لیے وہ بالکنی میں آکھڑا ہوا تھا تو اس نے اس گھاٹن لڑکی کو جو ساتھ والے رسیوں کے کارخانے میں کام کرتی تھی اور بارش سے بچنے کے لیے املی کے پیڑ کے نیچے کھڑی تھی، کھانس کھانس کر اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا اور اس کے بعد ہاتھ کے اشارے سے اوپر بُلا لیا تھا۔

وہ کئی دن سے شدید قسم کی تنہائی سے اُکتا گیا تھا۔ جنگ کے باعث بمبئی کی تقریباً تمام کرسچین چھوکریاں جو سستے داموں مل جایا کرتی تھیں عورتوں کی انگریزی فوج میں بھرتی ہو گئی تھیں، ان میں سے کئی ایک نے فورٹ کے علاقے میں ڈانس اسکول کھول لیے تھے جہاں صرف فوجی گوروں کو جانے کی اجازت تھی۔ رندھیر بہت اداس ہو گیا تھا۔ اس کی انا کا سب تو یہ تھا کہ کرسچین چھوکریاں نایاب ہو گئی تھیں اور دوسرا یہ کہ فوجی گوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہذب، تعلیم یافتہ اور خوبصورت نوجوان اس پر فورٹ کے لگ بھگ تمام کلبوں کے دروازے بند کردیے تھے۔

اس کی چمڑی سفید نہیں تھی۔ جنگ سے پہلے رندھیر ناگپاڑہ اور تاج محل ہوٹل کی کئی مشہور و معروف کرسچین لڑکیوں سے جسمانی تعلقات قائم کر چکا تھا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ اس قسم کے تعلقات کی کرسچین لڑکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ معلومات رکھتا تھا جن سے یہ چھوکریاں عام طور پر رومانس لڑاتی ہیں اور بعد میں کسی بیوقوف سے شادی کرلیتی ہیں۔ رندھیر نے بس یوں ہی ہیجل سے بدلہ لینے کی خاطر اس گھاٹن لڑکی کو اشارے پر بلایا تھا۔

ہیجل اس کے فلیٹ کے نیچے رہتی تھی اور ہر روز صبح وردی پہن کر کٹے ہوئے بالوں پر خاکی رنگ کی ٹوپی ترچھے زاویئے سے جما کر باہر نکلتی تھی اور لڑکپن سے چلتی تھی جیسے فٹ پاتھ پر چلنے والے سبھی لوگ ٹاٹ کی طرح اس کے راستے میں بچھے چلے جائیں گے۔ رندھیر سوچتا تھا کہ آخر کیوں وہ ان کرسچین چھوکریوں کی طرف اتنا زیادہ مائل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے جسم کی تمام دکھائی جاسکنے والی اشیا کو نمائش کرتی ہیں۔

کسی قسم کی جھجک محسوس کیے بغیر اپنے کارناموں کا ذکر کردیتی ہیں۔ اپنے بیتے پرانے رومانسوں کا حال سُنا دیتی ہیں۔ یہ سب ٹھیک ہے لیکن کسی دوسری لڑکی میں بھی تو یہ خاصیتیں ہوسکتی ہیں۔ رندھیر نے جب گھاٹن لڑکی کو اشارے سے اوپر بُلایا تو اسے کسی طرح بھی اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ سُلالے گا لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد اس نے اس کے بھیگے ہوئے کپڑے دیکھ کر یہ سوچا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیچاری کو نمونیا ہو جائے تو رندھیر نے اس سے کہا تھا۔

”یہ کپڑے اُتار دو۔ سردی لگ جائے گی۔ “

وہ رندھیر کی اس بات کا مطلب سمجھ گئی تھی کیوں کہ اس کی آنکھوں میں شرم کے لال ڈورے تیر گئے تھے لیکن بعد میں جب رندھیر نے اسے اپنی دھوتی نکال کر دی تو اس نے کچھ دیر سوچ کر اپنا لہنگا اتار دیا۔ جس پر میل بھیگنے کی وجہ سے اور بھی نمایاں ہو گیا تھا۔ لہنگا اتار کر اس نے ایک طرف رکھ دیا اور جلدی سے دھوتی اپنی رانوں پر ڈال لی۔ پھر اس نے اپنی تنگ بھنچی بھنچی چولی اتارنے کی کوشش کی جس کے دونوں کناروں کو ملا کر اس نے ایک گانٹھ دے رکھی تھی۔ وہ گانٹھ اس کے تندرست سینے کے ننھے لیکن سمٹیلے گڑھے میں چھپ گئی تھی۔ دیر تک وہ اپنے گھسے ہوئے ناخنوں کی مدد سے چولی کی گانٹھ کھولنے کی کوشش کرتی رہی جو بھیگنے کی وجہ سے بہت زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔ جب تھک ہار کر بیٹھ گئی تو اس نے مراٹھی زبان میں رندھیر سے کچھ کہا جس کا مطلب یہ تھا۔
”میں کیا کروں۔ نہیں نکلتی۔ “

رندھیر اس کے پاس بیٹھ گیا اور گانٹھ کھولنے لگا۔ جب نہیں کھلی تو اس نے چولی کے دونوں سروں کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اس زور سے جھٹکا دیا کہ گانٹھ سراسر پھیل گئی اور اس کے ساتھ ہی دو دھڑکتی ہوئی چھاتیاں ایک دم سے نمایاں ہو گئیں۔ لمحہ بھر کے لیے رندھیر نے سوچا کہ اس کے اپنے ہاتھوں نے اس گھاٹن لڑکی کے سینے پر، نرم نرم گندھی ہُوئی مٹی کو ماہر کمھار کی طرح دو پیالوں کی شکل بنا دی ہے۔ اس کی صحت مند چھاتیوں میں وہی گدگداہٹ، وہی دھڑکن، وہی گولائی، وہی گرم گرم ٹھنڈک تھی جو کمھار کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے تازہ برتنوں میں ہوتی ہے۔

مٹمیلے رنگ کی جوان چھاتیوں میں جو بالکل کنواری تھیں۔ ایک عجیب و غریب قسم کی چمک پیدا کردی تھی جو چمک ہوتے ہُوئے بھی چمک نہیں تھی۔ اس کے سینے پر یہ ایسے دیے معلوم ہوتے تھے جو تالاب کے گدلے پانی پر جل رہے تھے۔ برسات کے یہی دن تھے۔ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے اسی طرح کپکپارہے تھے۔ لڑکی کے دونوں کپڑے جو پانی میں شرابور ہو چکے تھے ایک گدلے ڈھیر کی صورت میں پڑے تھے اور وہ رندھیر کے ساتھ چپٹی ہوئی تھی۔

اس کے ننگے بدن کی گرمی اس کے جسم میں ایسی ہلچل سی پیدا کر رہی تھی جو سخت جاڑے کے دنوں میں نائیوں کے گرم حماموں میں نہاتے وقت محسوس ہوا کرتی ہے۔ دن بھر وہ رندھیر کے ساتھ چپٹی رہی۔ دونوں جیسے ایک دوسرے کے مڈ ہو گئے تھے۔ انھوں نے بہ مشکل ایک دو باتیں کی ہوں گی۔ کیوں کہ جو کچھ بھی ہورہا تھا سانسوں، ہونٹوں اور ہاتھوں سے طے ہورہا تھا۔ رندھیر کے ہاتھ ساری کی چھاتیوں پر ہوا کے جھونکوں کی طرح پھرتے رہے۔ چھوٹی چھوٹی چوچیاں اور موٹے موٹے گول دانے جو چاروں طرف ایک سیاہ دائرے کی شکل میں پھیلے ہوئے تھے ہوائی جھونکوں سے جاگ اٹھتے اور اس گھاٹن لڑکی کے پورے بدن میں ایک سرسراہٹ پیدا ہو جاتی کہ خود رندھیر بھی کپکپا اٹھتا۔

ایسی کپکپاہٹوں سے رندھیر کا سینکڑوں بار واسطہ پڑ چکا تھا۔ وہ ان کو بخوبی جانتا تھا۔ کئی لڑکیوں کے نرم و نازک اور سخت سینوں سے اپنا سینہ ملا کر کئی کئی راتیں گزار چکا تھا۔ وہ ایسی لڑکیوں کے ساتھ بھی رہ چکا تھا جو بالکل اس کے ساتھ لپٹ کر گھر کی وہ ساری باتیں سُنا دیا کرتی تھیں جو کسی غیر کے لیے نہیں ہوتیں۔ وہ ایسی لڑکیوں سے بھی جسمانی تعلق قائم کر چکا تھا جو ساری محنت کرتی تھیں اور اسے کوئی تکلیف نہیں دیتی تھیں۔

لیکن یہ گھاٹن لڑکی جو پیڑ کے نیچے بھیگی ہُوئی کھڑی تھی اور جسے اس نے اشارے سے اوپر بلا لیا تھا۔ مختلف قسم کی لڑکی تھی۔ ساری رات رندھیر کو اس کے جسم سے ایک عجیب قسم کی بُو آتی رہی تھی۔ اس بُو کو جو بیک وقت خوشبو بھی تھی اور بدبُو بھی۔ وہ ساری رات پیتا رہا۔ اس کی بغلوں سے، اس کی چھاتیوں سے، اس کے بالوں سے، اس کے پیٹ سے، جسم کے ہر حصّے سے یہ جو بدبُو بھی تھی اور خوشبو بھی، رندھیر کے پورے سراپا میں بس گئی تھی۔

ساری رات وہ سوچتا رہا تھا کہ یہ گھاٹن لڑکی بالکل قریب ہونے پر بھی ہرگز اتنی قریب نہ ہوتی اگر اس کے جسم سے یہ بُو نہ اُڑتی۔ یہ بو اس کے دل و دماغ کی ہر سلوٹ میں رینگ رہی تھی۔ اس کے تمام نئے پرانے محسوسات میں رچ گئی تھی۔ اس بُو نے اس لڑکی اور رندھیر کو جیسے ایک دوسرے سے ہم آہنگ کردیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے تھے۔ ان بیکراں گہرائیوں میں اُتر گئے تھے جہاں پہنچ کر انسان ایک خالص انسانی تسکین سے محظوظ ہوتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments