جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر وسیم اختر: چند انتظامی یادیں


ڈاکٹر سیّد وسیم اختر مرحوم سے میری ملاقات بہاولپور میں ہوئی جب مارچ 1992 میں مجھے وہاں بطور ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا ۔ ڈاکٹر صاحب حکمران اتحاد آئی جے آئی کے ایک بااثر ایم پی اے تھے۔ اس دور کے وزیر اعلیٰ جناب غلام حیدر وائیں نے، جو صحیح معنوں میں ایک درویش صفت انسان تھے اور حکمرانی میں بہتری کے لیے فکر مند رہتے تھے، ہر ضلع میں احتساب بورڈ قائم کر رکھا تھا جو سرکاری دفاتر اور افسروں کی کارکردگی پر نظر رکھتا تھا۔ ڈاکٹر وسیم اختر اس ضلعی بورڈ کے چیئرمین تھے۔ یوں ان سے پہلا تعارف ہوا اور بعد میں تفصیلی ملاقات بھی۔

ڈاکٹر وسیم صاحب سرکاری لوگوں کی کڑی نگرانی کے قائل تھے اور بطور خاص ضلعی انتظامی سربراہ یعنی ڈپٹی کمشنر کا دفتر ہر وقت ان کی نظر میں رہتا۔ ان کی نظر عقاب کی طرح تیز اور شیر کی طرح بیباک تھی۔ عوام کو ان تک مکمل رسائی تھی، اس لیے ہمارے دفاتر میں ہونے والی ہر چھوٹی بڑی چیز ڈاکٹر صاحب کے علم میں آ جاتی۔ اس بورڈ کے سیکریٹری جناب نجم الدین چودھری ایڈووکیٹ تھے، جو مسلم لیگ کے ضلعی سیکریٹری تھے اور ایک شعلہ بیان مقرر کی شہرت رکھتے تھے۔

ڈاکٹر وسیم کی کاٹ دار نظر اور چودھری صاحب کی کٹار گفتگو، نگرانی موثر اور سخت تھی۔ سرکاری لوگ عام طور پر اس دوآتشہ نگرانی سے خائف تھے لیکن میرے یہ بہت کام آئی کیونکہ میں اپنے معاملات اور ضلع کو چند پائیدار اصولوں کے تحت چلانا چاہتا تھا جو عمومی چلن کے خلاف تھا اور اس طرح کی موثر تائید کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

لیکن یہ تائید مجھے یونہی حاصل نہیں ہو گئی تھی، میں اس کے لیے ایک کڑے امتحان سے گزرا۔ ان دنوں اسلحہ لائسنس پر پابندی نہیں تھی اور دیہاتی زمیندار لوگ بڑے شوق اور سفارش سے لائسنس حاصل کرتے تھے۔ ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر صاحبان نے اس پر ایک ضلعی ڈویلپمنٹ فنڈ قائم کر رکھا تھا، کہیں کم کہیں زیادہ۔ حاصل کردہ رقم کو اپنی اپنی توفیق کے مطابق عوامی بہبود کے لیے استعمال کیا جاتا۔ میں نے اس فنڈ کی رقم دو سو سے بڑھا کر پانچ سو روپے فی لائسنس کر دی۔

یہ اضافہ اچھا خاصا لیکن قابل برداشت تھا خصوصآً جب اس کے علاوہ اور کسی قسم کی ادائیگی نہیں کرنا پڑتی تھی۔ بورڈ کے تیسرے یا چوتھے ماہانہ اجلاس میں مجھے دونوں حضرات، خاص طور پر ڈاکٹر وسیم اختر کی تند و تیز تنقید اور سخت بے رخی کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹر صاحب بہت بے چین اور سخت طیش میں تھے۔ یہ اضافہ انھیں کسی طور گوارا نہیں ہو رہا تھا۔ اللہ انھیں جزائے خیر دے۔ وہ طبعاً انصاف پسند تھے۔ جب پورے ریکارڈ کے ساتھ اور کئی دنوں پر محیط محنت کے بعد یہ واضح کر دیا گیا کہ یہ اضافہ کسی ذاتی منفعت کے لیے نہیں بلکہ اس سے کچھ نادار طالب علموں کو وظائف دیے گئے ہیں، کچھ دفاتر میں عوامی سہولیات از قسم ٹھنڈے پانی کے کولر اور انتظاری بنچ فراہم کیے گئے ہیں۔ کچھ بیواؤں کو سلائی مشینیں دی گئی ہیں۔ اور یہ کہ بہاول پور کی تاریخ کا پہلا ٹریفک سگنل اس ڈویلپمنٹ فنڈ سے نصب ہو رہا ہے۔ تب وہ مطمئن بلکہ کسی حد تک خوش اور میری حمایت پر کمربستہ ہو گئے۔ یہ حمایت اور اعتماد بعد میں میرے بہت کام آئے۔

چند ماہ بعد ضلعی کچہری میں خالی اسامیوں پر بھرتی کا مرحلہ آ گیا۔ بہت سی اسامیاں خالی تھیں۔ ڈی سی آفس کی ہمہ گیر اہمیت کی وجہ سے سفارشوں کا انبار لگ گیا۔ میں نے ادارے کے مفاد میں اور اپنی افتاد طبع اور تربیت کے عین مطابق پوری بھرتی کو میرٹ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو بروئے کار لانے میں ڈاکٹر صاحب مرحوم نے یادگار کردار ادا کیا۔ حکومتی ہدایات کے مطابق ضلعی احتساب بورڈ اس پورے عمل کا نگران تھا، اور ہماری خوش قسمتی کہ ڈاکٹر صاحب جیسا باکردار اور بااصول شخص اس کا سربراہ تھا۔ احتساب بورڈ ہماری ڈھال بن گیا۔ نہ سفارش چلی، نہ پرچی، نہ پیسہ۔ ہم نے پوری دیانت اور فراست سے باصلاحیت اور موزوں افراد کا انتخاب کیا جن میں سے اکثر کا تعلق نادار طبقے سے تھا لیکن جو ذہانت اور موزونیت سے مالامال تھے۔ کچھ یتیم بچے جو کل تک اینٹیں ڈھو رہے تھے یا ریہڑی لگا رہے تھے، جب ڈپٹی کمشنر کے دفتر کی مختلف برانچوں میں آ کر بیٹھ گئے تو ان سمیت بہت سوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ معذور لوگ بھی اپنے کوٹہ کے مطابق رکھے گئے۔ کچھ اہل کار تو بعد میں واقعی اپنے ادارے کے لیے اثاثہ ثابت ہوئے۔ اس صدقہ جاریہ کا سہرا ڈاکٹر صاحب کے سر جاتا ہے۔ اکیلا ڈپٹی کمشنر کتنا ہی باہمت یا نیک نیت ہوتا اس طرح کی سیاسی مدد کے بغیر میرٹ کا ہدف حاصل نہیں کر سکتا تھا۔

انتظامی امور میں قانون و قاعدے کی عمل داری ہماری قدر مشترک تھی جس کی بنا پر ہماری دوستی کی شروعات ہو چکی تھیں۔ چنانچہ مجھے ڈاکٹر صاحب کی سیاسی ٹیم سے، جو جماعت اسلامی کے چنیدہ ارکان پر مشتمل تھی، گاہے گاہے روشناسی کا موقع ملا۔ زیادہ غور سے دیکھا تو ان میں سے چند لوگ دیانت اور کردار میں نمایاں نظر آئے۔

چھ ماہ بعد بہاولپور کی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ رونما ہوا۔ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بہاولپور میں چلنے والے سائیکل رکشا کو ایک مربوط سکیم کے تحت ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ شاندار سکیم ڈاکٹر محمد عارف مرحوم نے، جو اس وقت چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ بورڈ پنجاب تھے، تیار کی تھی۔ ڈاکٹر عارف نہایت لائق اور عوام دوست سی ایس پی افسر تھے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور کی یونین کے صدر بھی رہے تھے اور ان کے خاندان نے تحریک پاکستان میں بھرپور شرکت کی تھی۔ سکیم پر عمل درآمد کی ذمہ داری میری تھی۔ یہ ذمہ داری ملنا بھی ایک عجیب قلبی واردات کا نتیجہ تھی۔

بہاولپور میں اپنی تعیناتی سے تقریباً تین سال قبل جب میں ڈاکٹر عارف کے ساتھ محکمہ پی این ڈی میں بطور ڈپٹی سیکریٹری کام کرتا تھا تو ایک سرکاری میٹنگ کے سلسلے میں بذریعہ ویگن ملتان سے پہلی بار بہاولپور آیا۔ لاری اڈے سے باہر نکلا تو جو سواری میسر آئی وہ سائیکل رکشا تھی۔ لاری اڈے سے چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دفتر تک ، جو اس وقت کالی پلی کے پاس واقع تھا، تقریباً تین کلومیٹر کا یہ سفر میرے لیے سوہان روح بن گیا۔ میں اس سے پہلے 1985 میں دہلی ہندوستان میں سائیکل رکشا دیکھ تو چکا تھا لیکن آج بیٹھا پہلی بار تھا۔ میں رکشا کی اگلی نشست پر براجمان تھا اور مقامی دھوتی پہنے ہوئے رکشا پلر اکڑوں ہوا، پورا زور لگا کر اس کو چلا رہا تھا۔ سائیکل کے پیڈل چلاتے جب اس کی ٹانگیں چکر مکمل کرتیں تو اس کی ننگی پنڈلیاں میرے منہ کے سامنے آ جاتیں۔ بے پناہ پیہم مشقت سے پھولی ہوئی اس کی پنڈلیاں، موٹی موٹی قریباً پھٹ جانے والی رگوں کے ساتھ، جب میرے سامنے آتیں تو مجھے شرمندگی کا ایک ایسا آئینہ دکھاتیں جس کی تاب میری روح و قلب نہیں لا رہے تھے۔

مجھے کسی طور پر یہ ہضم نہیں ہو رہا تھا کہ مجھے خراماں رکھنے کے لیے میرے ہی جیسا ایک انسان اتنی جان توڑ محنت کر رہا ہے اور جانوروں جیسے افعال اور پوزیشنوں میں سے گزر رہا ہے۔ اس وقت میرے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آہ کے ساتھ دعا نکلی کہ یارب اگر کبھی تو نے موقع دیا تو اس بلا سے انسانوں کی جان چھڑوانے کے لیے ضرور کچھ کرنا ہے۔ یقیناً وہ قبولیت کی گھڑی تھی کہ اب عین تین برس بعد میں اس مصیبت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی پوزیشن میں تھا۔ چنانچہ میں نے اس ذمہ داری کو اپنی دعا کا ثمر اور قدرت کی رضامندی سمجھ کر صدق دل سے قبول کیا اور تن من اور پوری روح کے ساتھ اس کو ادا کرنے میں جت گیا، خصوصاً جب میں یہ جان چکا تھا کہ سائیکل رکشا کھینچنے والوں میں تپ دق کی شرح خطرناک حد تک زیادہ تھی۔

ذمہ داری بہت بڑی تھی۔ پورے ضلع میں تقریباً پچیس ہزار رکشا پلرز کو معاوضہ ادا کرنا، آٹو رکشا، ٹیکسی یا کھوکھا جات کی صورت میں متبادل روزگار فراہم کرنا اور تمام سائیکل رکشا جات جمع کر، ان کے جوڑ جوڑ کو الگ کرکے نیلام کر دینا تھا۔ اس پورے کام کے لیے محض چھ ہفتے دیے گئے تھے۔ سکیم کی مالیت کروڑوں میں تھی۔ لہٰذا میں نے ڈاکٹر صاحب سے ان سمیت ان کی پوری دیانت دار ٹیم کی مدد چاہی جو انھوں نے انتہائی خوش دلی سے فراہم کی۔ میں نے انتظامی امور اپنی سرکاری ٹیم اور مالی امور ڈاکٹر صاحب کی ٹیم کے حوالے کر دیے۔

کارخانہ زرعی آلات کے خالی پڑے ہوئے وسیع و عریض احاطے میں سائیکل رکشا جمع کرنے اور معاوضہ ادا کرنے کے کاؤنٹر لگ گئے اور ان کے مختلف حصوں، ٹائروں، پیڈلوں، ہینڈلوں، پہیوں، نشستوں، لکڑی کے پہیوں وغیرہ کے مختلف ڈھیر چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کی شکل میں لگنا شروع ہو گئے۔ نگران انتظامی مجسٹریٹوں کے دفاتر اگلے چند ہفتوں کے لیے ادھر منتقل ہو گئے۔ کمرہ جات میں مختلف قومی بینکوں کی شاخیں کھل گئیں جو ون ونڈو کی طرز پر رکشا پلرز کو فوری قرضہ فراہم کرتی تھیں جس سے وہ اسی احاطہ میں موجود آٹو رکشاوں اور ٹیکسیوں کی مخلتف کمپنیوں سے اپنی پسند کے مطابق خریداری کرتے۔ بعد میں انہی نئے مالکان نے بینکوں کے ان قرضہ جات کی ادائیگی اقساط میں کرنا تھی۔ اس طرح صرف دو ماہ کے قلیل عرصے میں شبانہ روز محنت کر کے ہم بہاولپور شہر اور ضلع سے سائیکل رکشا کا نام و نشان مٹا دینے اور لوگوں کو متبادل روزگار دینے میں اس خوبی سے کامیاب ہو گئے کہ کوئی بڑی شکایت سامنے نہ آئی، نہ ہی کسی مالی بے ضابطگی کا کوئی آڈٹ پیرا بنا اور نہ کسی جواب طلبی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ حکومت وقت بلکہ وزیر اعظم کی، جو ان دو ماہ میں تین بار بہاولپور کے دورے پر آئے، بڑی کامیابی تھی۔ میں اس عظیم کار خیر میں ڈاکٹر وسیم اختر کی بھرپور مدد کا ہمیشہ ممنون رہوں گا۔ اب سائیکل رکشا صرف بہاولپور کے عجائب گھر میں یادگار کے طور پر محفوظ ہے۔

ڈاکٹر وسیم صاحب مجسم دیانت اور خدمت تھے۔ انھوں نے جب اس کی جھلک میری ذات اور کام میں دیکھی تو ہمارا انتظامی تعلق آہستہ آہستہ دوستی میں بدلنا شروع ہو گیا۔ لیکن ان کی طرف سے اور احتساب بورڈ کی طرف سے ضلعی انتظامیہ کی کڑی نگرانی جاری رہی۔ اگلے سال مارچ اپریل 1993 سے مرکز میں صدر پاکستان اور وزیر اعظم کے ٹکراؤ کے مشہور واقعات کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی ٹوٹی، بحال ہوئی پھر تمام اسمبلیاں اس ڈھنگ سے ٹوٹیں کہ سیاسی ٹکراؤ کے تمام کردار چلتے بنے۔

نئے الیکشن ہوئے۔ اب مرکز اور صوبے میں حکمران جماعت تبدیل ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب دوبارہ ایم پی اے منتخب نہ ہو سکے لیکن ان کی عوامی خدمت اسی زور شور سے جاری تھی۔ اپریل 1994 میں میرے تبادلے تک ان سے میرا رابطہ اور مشورہ بدستور استوار رہے۔

اگلے انیس بیس برس، یعنی نومبر 2013 میں میری ریٹائرمنٹ تک، ہم دوبارہ کبھی کسی سرکاری حیثیت میں اکٹھے کام نہ کر پائے لیکن ذاتی تعلق کی گہرائی اسی طرح برقرار رہی اور ہم ہمیشہ رابطے میں رہے، سوائے ایک بار کے جس کا مجھے شدید نقصان پہنچا۔

زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا طاقتور سیاسی سٹائل مجھ پر الٹا اثر کرتا تھا۔ دراصل میری طبیعت اپنے دین پر صرف پارسائی کی اجارہ داری قبول نہیں کرتی تھی کہ اس سے میرے جیسے عامیوں اور خطاکاروں کے لیے گنجائش ختم ہو جاتی تھی۔ اس دوری اور اجنبیت کو ڈاکٹر وسیم اختر کی باکمال شخصیت نے اور سائیکل رکشا سکیم اور دوسرے مشکل انتظامی امور میں جماعت اسلامی کی مخلص، دیانت دار اور بے حد محنتی ٹیم نے ختم کیا۔ میں اب ظاہر سے ہٹ کر ان کی باطنی خوبیوں سے روشناس ہو رہا تھا اور کردارسازی کے اس مجموعی عمل سے متاثر ہو رہا تھا۔ لہٰذا کسی کے کہے بنا اور کسی سے مشورہ کیے بغیر میں نے اکتوبر 1993 کے انتخابات میں سرگودھا میں اپنے آبائی حلقہ میں جماعت اسلامی کے باکردار امیدوار جاوید اقبال چیمہ صاحب کو ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالا۔

جون 1996 میں، جب میں راولپنڈی میں ڈپٹی کمشنر کے فرائض انجام دے رہا تھا، جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد صاحب نے مرکزی حکومت کے خلاف لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ مرکزی وزیر داخلہ جنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ بابر تھے جو کراچی میں اپنی انتظامی کامیابیوں کی بنا پر اب سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے تھے۔ انھوں نے مارچ روکنے کا اعلان کر دیا اور اسلام آباد میں داخل ہو کر دکھانے کا چیلنج دے دیا جو جماعت اسلامی کے پرجوش کارکنوں اور قیادت نے قبول کر لیا۔ بڑوں کی لڑائی میں راولپنڈی کی انتظامیہ پس کر رہ گئی۔ میں نے ڈاکٹر وسیم اختر سے رابطہ کرنے کی انتہائی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ موبائل فون تو ہوتے نہیں تھے۔ میں ان معتبر اطلاعات سے کافی بدحواس ہو رہا تھا کہ چند خفیہ ہاتھ کچھ لاشیں گرانے کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔ میں ڈاکٹر صاحب کے ذریعے مرکزی قیادت سے درخواست کر کے کوئی درمیانی راہ نکالنا چاہتا تھا۔ لیکن صد حیف رابطہ نہ ہو سکا۔ مخلوط صوبائی حکومت بھی دم سادھے بیٹھی تھی اور رہے مرکزی وزیر داخلہ، تو وہ پہلے ہی چیلنج دے چکے تھے۔ فضا انتہائی اشتعال انگیز ہو چکی تھی۔

24 جون 1996 کو لاہور سے علی الصبح مارچ شروع ہوا۔ کارکن ہزاروں کی تعداد میں بہت پرجوش اور پوری تیاری کے ساتھ آ رہے تھے۔ راستے میں چار اضلاع پڑتے تھے لیکن کسی نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ ان کو پرائی آگ میں پڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ سارا بوجھ راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ پر آ گیا۔ ضلع کی حدود میں اور راولپنڈی شہر کی طرف آتی جرنیلی سڑک پر کھڑی کی گئی ہر رکاوٹ کو مقامی جھڑپوں کے بعد کارکنوں نے بآسانی عبور کر لیا اور سب لوگ دوپہر کے قریب لیاقت باغ میں جمع ہونے لگے۔ بھری دوپہر اور جون کی سخت ترین گرمی میں قاضی حسین احمد ایک گروپ کے جلو میں نمودار ہوئے۔ میں نے لیاقت چوک میں آگے بڑھ کر ان سے ملاقات کی اور احتجاج ختم کرنے کے لیے بات کا آغاز کیا۔ قاضی صاحب سخت ناراضگی اور جلال میں تھے۔ وہ اسلام آباد جانے سے کم کسی بات پر راضی نہ تھے اور وہاں جانا اپنی جمہوری حق بتا رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں باقاعدہ منت سماجت کر سکتا اطراف سے بھاری پتھراو کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کارکنوں نے قاضی صاحب سے بات چیت کو شاید تکرار سمجھا تھا اور انہیں خدشہ ہوا تھا کہ قاضی صاحب کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ نتیجتاً یہ مختصر سی بات چیت بھی ختم ہو گئی اور کارکن مختلف ٹولیوں میں بٹ کر پولیس کا مقابلہ کرنے اور اسلام آباد جانے کی کوشش کرنے لگ گئے۔ جھڑپیں تین چار گھنٹے جاری رہیں۔ شہر کی دو مخلتف جگہوں پر ہجوم کے نرغے میں آئے ہوئے پولیس ملازمین نے گھبرا کر فائرنگ شروع کر دی اور دو کارکن جاں بحق ہو گئے۔ قیمتی انسانی جانوں کے زیاں پر اور شہر کے مختلف حصوں میں سخت کشیدگی کی وجہ سے میں نے فوج کو مدد کے لیے بلا لیا۔ فوج کے آنے سے صورت حال پرسکون ہو گئی اور فریقین کا مقابلہ برابری میں چھوٹ گیا۔ لیکن میرے دل پر ہمیشہ کے لیے ایک داغ چھوڑ گیا۔

بی بی سی نے اس رات جو تبصرہ کیا وہ حقیقت کے قریب تر تھا۔ راولپنڈی انتظامیہ جس کا سربراہ میں تھا واقعی نفسیاتی دباؤ میں آ گئی تھی۔ مرکزی حکومت مارچ کو روکنے اور جماعت والے اس کو بڑھانے پر تلے ہوئے تھے اور ایسے میں اس ٹکراؤ کو خونی رنگ دینے کے لیے خفیہ ہاتھوں کی منصوبہ بندی کی اطلاعات بھی انتظامیہ کے پاس تھیں۔ واقعتاً انتظامیہ اور اس کے سربراہ کے پاس بے بسی اور نفسیاتی دباؤ کے سوا کچھ نہ بچا تھا۔ مہینوں برسوں بعد بلکہ اب بھی کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اگر کسی بھی سطح پر بات چیت کا دروازہ کھل سکتا تو اس خون ناحق کو روکا جا سکتا تھا۔ شاید ڈاکٹر وسیم اختر صاحب سے رابطہ ہو جاتا تو کوئی درمیانی راستہ نکل آتا۔

چار ہی ماہ بعد یعنی اکتوبر کے آخری ہفتے میں جماعت اسلامی کی طرف سے دوبارہ لانگ مارچ کیا گیا۔ اس دوران میں ملک کی سیاسی صورت حال اور بھی ابتر ہو چکی تھی۔ کراچی میں وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھائی کو دیدہ دلیری سے قتل کر دیا گیا تھا۔ لانگ مارچ کی متحارب پارٹیوں میں اب بھی بات چیت کا کوئی سوال نہ تھا۔ میں نے اور ایس ایس پی راولپنڈی مشتاق حسین شاہ نے، جو سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک بہت اچھے پولیس افسرتھے اور بعد میں آئی جی سندھ بھی تعینات رہے، باہمی مشورے سے اور آپس میں فیصلہ کیا کہ اس دفعہ پولیس فورس کو رائفلیں بندوقیں تو دی جائیں لیکن گولیاں نہ دی جائیں۔ لانگ مارچ میں پھر وہی کہانی دہرائی گئی۔ سخت مقابلہ اور جھڑپیں لیکن اس فیصلے کی بدولت کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ مرکزی جلوس اور جتھے کو تو روک لیا گیا لیکن ایک آدھ آوارہ ٹولی ذیلی راستوں سے اسلام آباد میں داخل ہو گئی۔ اس تدبیر کی خبر اوپر بھی پہنچ گئی۔ مجھے او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ لیکن قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک ہی ہفتے کے اندر ملک کے صدر نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت اسمبلیاں توڑ کر برخواست کر دی۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی قربانی رنگ لے آئی تھی۔

ان واقعات کے بائیس تئیس برس بعد تک ڈاکٹر وسیم اختر سے میری دوستی چلتی رہی لیکن انھوں نے کبھی بھولے سے بھی ان کا ذکر نہ کیا۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی اور دوسرے وہ ان مارچوں کی حرکیات اور ضلعی انتظامیہ کی سطحی ذمہ داریوں سے بہت بہتر طریقے سے آگاہ تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا اپنی پارٹی کے اندر ترقی کا سفر جاری تھا۔ وہ پہلے پنجاب اسمبلی میں تین بار اپنی جماعت کے پارلیمانی لیڈر رہے اور پھرصوبہ پنجاب کے امیر بھی بن گئے۔ اگر زندگی ساتھ دیتی تو وہ اپنی باری پر امیر جماعت کے لیے موزوں ترین شخصیت ہوتے۔ میری تعیناتیاں اور مدارج بھی اس دوران میں بدلتے رہے۔ کبھی لاہور، کبھی کوئٹہ اور پھر اسلام آباد میں فرائض انجام دیے۔ لیکن ہمارے مابین کبھی فون پر اور کبھی بالمشافہ ملاقات ہوتی رہی۔ ملک کی مسلسل بگڑتی ہوئی سیاسی صورت حال اور خاص طور پر سیاسی اخلاقیات کی تنزلی پر ان کی بے چینی دیدنی ہوتی۔ میں ان خالصتاً نجی ملاقاتوں میں ان کی جماعت اسلامی کی پالیسیوں اور ہیئت کو عوامی امنگوں کے قریب تر کرنے کے لیے اپنی رائے کا اظہار کر دیتا۔ وہ اس سلسلے میں میرے خیالات کا احترام کرتے اور بغور سنتے۔ انھوں نے سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب اور خرم مراد صاحب کی کچھ کتابیں بھی مجھے مطالعہ کے لیے دیں اور خدمت خلق فاونڈیشن کی خدمات سے بھی آگاہ کیا۔ 2013 میں میری ریٹائرمنٹ کے بعد والی ملاقات میں انھوں نے مجھے باقاعدہ طور پر خدمت خلق فاونڈیشن میں کوئی کردار ادا کرنے کی دعوت دی۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ریٹائرمنٹ کے آس پاس میری نظر بری طرح گرنا شروع ہو گئی اور رفتہ رفتہ میں کسی بھی قسم کے مطالعہ یا کام کاج کے لائق نہ رہا۔ معذرت کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، جو انھوں نے نہایت تامل اور گہرے افسوس کے ساتھ قبول کر لی۔ سماجی خدمت اور جون 1996 میں دو قیمتی انسانی جانوں کے نقصان کا کفارہ ادا کرنے کا بھرپور موقع میرے ہاتھ سے نکل گیا۔

ڈاکٹر صاحب سے ملاقات اور رابطہ ان کی زندگی کے آخری سال تک رہا۔ جولائی 2018 کے الیکشن میں ان کی انتخابی مہم کا میں بڑے شوق سے حال احوال معلوم کرتا رہا۔ لیکن پھر انھیں ایک ایسی بیماری نے آن گھیرا جس میں خبرگیری کسی کے توسط سے ہی ہو سکتی تھی۔ چند ہفتوں میں ان کا تنومند، جفاکش، مستعد اور قوت و عزم سے بھرا جسم اپنی روح کی طرح ہلکا ہو گیا اور وہ ہولے سے اوپر پرواز کر گئے۔

ان کے جانے کا صدمہ بہاولپور کے ہر شخص نے محسوس کیا۔ رزق حلال سے پلنے والے اور چلنے والے اس بے لوث شخص کی ، جس کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے چوبیس گھنٹے حقیقتاً کھلے رہتے تھے اور جس کے اہل خانہ اور پوری ٹیم مکمل تعاون کرتے تھے، کمی بہت شدت سے محسوس کی گئی۔ ان کی بیماریوں، دکھوں اور مشکلات کو ذاتی اور اجتماعی سطح پر حل کرنے والا دردمند اور مضبوط سہارا اب رخصت ہو گیا تھا۔ بہاولپور کے عوام نے ڈاکٹر صاحب کی دیرینہ خدمت، محبت اور ریاضت کا قرض فی الفور اتار دیا۔ ان کا جنازہ بہاولپور کی حالیہ یادداشت کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ پورا شہر ہی امڈ آیا تھا۔ انبوہ کثیر نے باقاعدہ قطاریں باندھ کر اور ہاتھ اٹھا کر اپنے رب کے حضور گواہی دے دی تھی کہ اس کے پاس پیش ہونے والی روح اس کی مخلوق کے لیے ہمیشہ فلاح و خیر کا باعث بنی۔ لہٰذا امید واثق ہے کہ اپنی دنیاوی زندگی میں ہر سیاسی انتخاب میں حصہ لینے والا یہ جری شخص اپنی زندگی کا آخری اور اہم ترین انتخاب جیت کر حیات ابدی کے لیے منتخب ہو گیا۔

مجھ ناچیز پر بھی، جو ان کے جنازے میں معدے کی بیماری کے اچانک حملے کی وجہ سے شریک نہ ہو سکا تھا، میرا رخصت ہونے والا دوست جاتے جاتے ایک احسان کر گیا ہے۔ میں تو اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے پڑھے لکھے لوگوں کے اصل ہتھیار یعنی قلم سے دستبردار ہو چکا تھا، لیکن ان کی محبت میں یہ چند صفحات لکھنے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی جہد مسلسل والی روح مجھے پیغام دے رہی ہے کہ تمھارے اندر ابھی جینے کا سامان اور جواز موجود ہیں۔

(ڈاکٹر سید وسیم اختر مرحوم کی حیات و خدمات پر زیر طبع کتاب کے لیے بطور خاص لکھی گئی تحریر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments