چینی ذہنیت چینی ناولوں کی روشنی میں


گزشتہ کچھ عرصے سے میں نہایت دلچسپی سے چینی ناول پڑھ رہا ہوں۔ ان میں سے بیشتر گوگل سے ترجمہ شدہ ہیں۔ اس لیے ترجمہ نہایت لاجواب ہے۔ غالباً یہ چینی زبان کا کمال ہے کہ گوگل ترجمہ کرتے ہوئے ”تم“ کو ”میں“ اور ”تمہیں“ کو ”ہمیں“ کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ جب ایک کردار دوسرے کو دھمکی دیتا ہے کہ میں تمہاری ٹانگ توڑ دوں گا، تو اس کا ”میں اپنی ٹانگ توڑ دوں گا“ بن جاتا ہے۔ بہرحال پانچ دس صفحات پڑھ کر اس کی عادت پڑ جاتی ہے اور بندہ سمجھ جاتا ہے کہ کردار کس کی ٹانگ توڑے گا۔

پلپ فکشن، یا عوامی ادب پڑھ کر کسی معاشرے کا تصور کرنا کچھ کنفیوزنگ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر مصنف مظہر کلیم کے مقبول ناول پڑھنے والا یہ سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان میں مقامی بدمعاشوں کا کال پڑا ہوا ہے۔ ولایت سے ڈینی جیمسن رابرٹ وغیرہ بدمعاشی کرنے پاکستان (یعنی پاکیشیا) آتے ہیں اور ادھر ایک شراب خانہ کھول کر بدمعاشی شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پولیس کا بھی وجود نہیں۔ تمام بدمعاشوں سے محکمہ سراغ رسانی یا سیکرٹ سروس کو نمٹنا پڑتا ہے۔

لیکن بہرحال یہ ناول مقبول ہیں، کیونکہ اس میں بیان کردہ واقعات عوام کو پسند ہیں۔ یعنی اس میں بیان کردہ واقعات سے قوم کے ذہن اور سوچ کا علم ہو جاتا ہے۔ یہی حال ”داستان ایمان فروشوں کی“ ، نسیم حجازی اور عمیر احمد وغیرہ ٹائپ ناولوں کا ہے۔ ان سے ہمارے قومی رجحانات کا پتہ چلتا ہے۔

سو، چینی عوامی ادب سے بھی ایسی چیزیں پتہ چلتی ہیں۔ ایک مقبول پلاٹ یہ ہے کہ ایک نہایت غریب اور مجبور نوجوان کسی درمیانے درجے کے امیر خاندان کا گھر داماد، یعنی ”ڈور ٹو ڈور سن ان لا“ بن جاتا ہے۔ ترجمے میں سن ان لا کا مطلب داماد بھی ہو سکتا ہے اور شوہر بھی۔ عموماً یہ شادی خاندان کا بزرگ کرواتا ہے اور سہاگ رات سے پہلے ہی فوت ہو جاتا ہے اس لیے کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ اس بابے نے کیا دیکھ کر اپنے خاندان کی، بلکہ شہر کی حسین ترین لڑکی سے اس غریبڑے سے شادی کر دی ہے۔ اس کے بعد کامل تین برس تک وہ ”سن ان لا“ اپنی بیگم کو ہاتھ بھی نہیں لگا پاتا۔ وہ اس کے کمرے میں تو سوتا ہے لیکن فرش پر۔

پھر اچانک ایک دن اس کا خاندان اس سے رابطہ کرتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ وہ غریبڑا تو ملک کے امیر ترین خاندان کا سپوت ہے۔ خاندان عموماً کئی ارب ڈالر اسے دے دیتا ہے، یا شہر کی سب سے بڑی کمپنی خرید کر اس کے نام کر دیتا ہے۔ لیکن وہ کسی کو کانوں کان اس کی خبر نہیں ہونے دیتا اور سر جھکا کر اپنے سسرال میں کھانا پکانے اور برتن کپڑے دھونے کی ڈیوٹی دیتا ہے۔

خاندان کا تصور وہاں برادری جیسا ہے جس کا سربراہ ان ناولوں میں دادی ہوتی ہے۔ ساری برادری کا کاروبار اس کے تحت ہوتا ہے۔ وہ اپنے کسی فیورٹ لیکن نہایت نا اہل بھتیجے کو سپورٹ کرتی ہے جو کہ ہیروئن کے خلاف سازشیں کرتا رہتا ہے۔ ہیرو ان کا توڑ کرتا رہتا ہے۔

ان ناولوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہاں ٹانگیں توڑنے کا بہت فیشن ہے۔ ناک کا بھی بہت مسئلہ ہے۔ معمولی باتوں پر ناک کٹ جاتی ہے۔ عام طور پر بگڑے امیر زادے معمولی باتوں پر ناک کا مسئلہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور فل اکڑے رہتے ہیں۔ پھر اچانک پتہ چلتا ہے کہ سامنے والی پارٹی ان سے طاقتور ہے تو پیر پکڑ لیتے ہیں۔

پولیس کا وہاں بھی کوئی وجود نہیں۔ بلا کی خوبصورت ہیروئن بزنس ڈیلنگ کرنے جاتی ہے تو ہر دوسری ملاقات میں مخالف بزنس گروپ کا مالک اسے نشہ پلا کر ریپ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ہیرو عین وقت پر پہنچ جاتا ہے اور خوب مار پیٹ کرتا ہے۔

اصل میں دولت ملنے کے ساتھ ہی ہیرو کو کوئی قدیمی کتاب مل جاتی ہے جسے پڑھتے ہی وہ مارشل آرٹس کا ایسا ماہر بن جاتا ہے کہ سینکڑوں آدمی اس کے سامنے نہ ٹکیں۔ اس کے علاوہ وہ اسلاف کے گم کردہ چینی طب کا ماہر بھی بن جاتا ہے۔ اس کی گولی موت کے منہ سے مریض کھینچ لاتی ہے، بوڑھوں کو دس بیس سال نوجوان کر دیتی ہے، نیز روحانی صلاحیتوں میں بھی اضافہ کر کے صاحب کرامت بنا سکتی ہے۔ کتابوں میں بار بار بتایا جاتا ہے کہ ماہر ترین ڈاکٹر بھی چینی حکیم کے نسخوں کے سامنے شکست کھا گیا۔

ناولوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ چینیوں میں احساس برتری اور نسلی تفاخر بہت زیادہ ہے۔ مغرب کو نیچ سمجھتے ہیں اور جاپانیوں کو قابل نفرت۔ خاندانی نظام کے قائل ہیں۔ بزرگوں کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ دولت کے پجاری ہیں اور دکھاوے کو اہم سمجھتے ہیں۔ مثلاً کہیں چائے پینے بھی جانا ہو تو ایک سو رولز رائس گاڑیوں کے قافلے میں جایا جاتا ہے، جس کا قافلہ جتنا بڑا وہ اتنا قابلِ عزت۔ قیمتی گاڑیوں کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے چہرے کا احترام کیا جاتا ہے۔ رشوت سفارش اور غنڈہ گردی بہت ہے۔ تاجر ذہنیت ہے اور پیسے کی پوجا کی جاتی ہے۔ خاندانوں کی درجہ بندی ہوتی ہے۔ یہ پہلی صف کا امیر خاندان ہے، یہ دوسری کا یہ تیسری کا۔ فوجیوں اور خود سے زیادہ امیر خاندانوں سے رشتوں، یا پھر ٹھیکوں کے ذریعے یہ صف تبدیل کرنا ان کی زندگی کا اہم ہدف ہوتا ہے۔ کم حیثیت فرد کے سلام کا جواب بھِی نہیں دیا جاتا اور زیادہ حیثیت والے کے پیر پکڑے جاتے ہیں۔

عورتوں کو نہایت کم عقل اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔ بڑے اور امیر کبیر لوگ بے تحاشا بیویاں یا محبوبائیں رکھ سکتے ہیں۔ عام فوجیوں کو بہت حقیر سمجھا جاتا ہے۔ ان کا مقدر نجی فرم میں سیکیورٹی گارڈ بننا ہوتا ہے۔ لیکن جیسے ہی کوئی جرنیلی کی صف میں آ جائے تو اس کی طاقت بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ شہر بھر کے خاندان کوشش کرتے ہیں کہ جرنیلوں سے تعلقات بنائیں اور اپنے اثر اور دولت میں اضافہ کریں۔

ہیرو کو جب کوئی ناراض کرتا ہے تو وہ اپنے ماتحت کو فون کر کے کہتا ہے کہ دس منٹ میں فلاں خاندان کو دیوالیہ کر دو۔ کمال یہ ہے کہ ماتحت کر بھی دیتا ہے۔ یا ہیرو پانچ دس منٹ کے اندر اندر اربوں کی جائیداد بھی خرید سکتا ہے۔

دلچسپ دنیا ہے۔ اور واقعی پیج ٹرنر کہانیاں ہوتی ہیں۔ لیکن کہانی جتنی مقبول ہو گی، اتنی زیادہ طویل۔ اب آپ کا حوصلہ ہے کہ کتنا پڑھ سکتے ہیں۔ یہ چینی کہانیاں خاص طور پر امریکہ اور انڈیا میں بہت پڑھی جاتی ہیں۔ چند مقبول ترین کہانیاں آپ اس ویب سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں

Chinese Web Novels

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments