جلی ہوئی کشتیوں کا سپہ سالار


پاکستان سے میرے لیے ایک پیکٹ آیا تھا۔ میں اور توفیق وہ سامان لے کر ریجنٹ پارک کی مسجد سے باہر نکل ہی رہے تھے کہ مجھے نوید بھائی نظر آئے۔ انہوں نے بھی ہمیں دیکھ لیا تھا۔ بڑی گرم جوشی سے ہم سے ملے تھے۔ فوراً ہی انہوں نے ہمیں کھانے کے لیے مدعو کر لیا تھا۔ ہم لوگ بھی فارغ ہی تھے لہٰذا فوراً تیار ہو گئے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ انہیں دس منٹ کے لیے کیٹ اسٹیون سے ملنا ہے، اس سے مل کر چلتے ہیں پھر کہیں کھانا کھائیں گے۔

کیٹ اسٹیون یورپ کا مشہور پاپ سنگر ہے اور اپنے وقت میں اس نے خوب گانے گائے تھے۔ خوب مشہور ہوا تھا اور اب مسلمان ہو کر اپنا نام یوسف رکھ لیا تھا۔ اس کا بھی ایک دفتر ریجنٹ پارک کی مسجد میں ہے۔ ہمیں بھی اس سے ملنے کا شوق تھا لہٰذا نوید بھائی کے ساتھ ساتھ ہم بھی ہو لیے تھے۔

کیٹ اسٹیون بڑے تپاک سے ہمیں ملا تھا۔ نوید بھائی نے اپنے کچھ گورے مریضوں کی ایک میٹنگ رکھی تھی، وہ لوگ اسلام کے بارے میں کچھ سوالات کرنا چاہتے تھے۔ نوید بھائی کا خیال تھا کہ سوال کے جوابات تووہ خود بھی دے لیں گے مگر کیٹ اسٹیون ہو گا تو ایک مقامی نومسلم کچھ زیادہ ہی بہتر طریقے سے سوالوں کا جواب دے سکے گا۔ کیٹ اسٹیون فوراً ہی تیار ہو گیا تھا۔ ہم لوگ وہاں کافی دیر تک ٹھہرے تھے۔ نوید بھائی کیٹ اسٹیون اور ہم لوگ بہت سے سوالات و جوابات کرتے رہے تھے۔

نومسلم یوسف سے جب توفیق نے کہا تھا کہ ”آج کے اسلامی دنیا کے بادشاہ اور ڈکٹیٹر اسلام کے لیے کچھ نہیں کر سکتے ہیں“ تو وہ مسکرایا تھا۔ اس نے کہا تھا ”اسلام کو ان کی نہیں، ان کو اسلام کی ضرورت ہے۔ یہ کیا کریں گے اسلام کے لیے۔ یہ تو خود لٹیرے ہیں۔ کوئی اقتدار کا لٹیرا تو کوئی دولت کا لٹیرا۔ کی بادشاہ کیا ڈکٹیٹر، مصر سے پاکستان تک اور سعودی عرب سے مراکش تک۔ میں نے پہلی دفعہ دو داڑھی والے مولوی نما انسانوں کے منہ سے ایسی بات سنی تھی جو میرے دل کو لگی تھی۔

اس رات ہم نے وکٹوریہ اسٹیشن کے ساتھ ایک پاکستانی ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا تھا۔ نوید بھائی نے خوب باتیں کی تھیں۔ توفیق ان سے الجھتا رہا تھا اور وہ مسکرا مسکرا کر جواب دیتے رہے تھے۔ نہ کوئی غصہ، نہ کوئی نفرت، نہ کوئی فتویٰ نہ کوئی فیصلہ۔ ایک موقعہ پر جب توفیق کی کچھ نہ بنی تو وہ کہنے لگا کہ سو یہودی ایک مودودی کے برابر ہیں، مسلمانوں میں ایسے لوگوں کا ڈھیر ہے، مودودی سے خمینی تک ہر ایک دیوانہ ہے دیوانہ۔

نوید بھائی مسکرائے تھے۔ ایک اعتماد سے پر مسکراہٹ۔ انہوں نے توفیق کے ہاتھ پر دھیرے سے اپنا ہاتھ رکھ کر کہا تھا ”جب بھی کوئی شخص کسی علمی بحث کے دوران الفاظ کو چھوڑ گالیوں پر آ جاتا ہے، دلیل کے بغیر غصہ کرتا ہے تو اس کا مطلب اس کی کمزوری ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں جماعت اسلامی کا آدمی ہوں نہ ہی مصر کے اخوان المسلمین سے میرا تعلق ہے اور نہ ہی میں امام خمینی سے ملا ہوں نہ ان کا ایران دیکھا ہے۔ پر یہ بات جانتا ہوں کہ ان لوگوں کا دل اسلام کے نام پر دھڑکتا ہے۔

ان کے طریقے شاید مختلف ہیں مگر یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہی حکمرانی ہو، انصاف کا بول بالا ہو، اس میں کیا برائی ہے۔ ان کے مخالفوں کو تو دیکھو۔ شاہ ایران، شاہ فاروق، جمال ناصر، ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق ان لوگوں نے کیا دیا ہے اپنی قوموں کو۔ جہالت، افلاس اور غلامی۔ ذلتوں کا طوق، جذباتی نعرے۔ اور غریب جس طرح سے تکالیف میں مبتلا ہیں اس کا اندازہ تو آپ لوگوں کو زیادہ ہونا چاہیے کیسی غربت ہے کیسی پستی ہے۔ ”ان کے چہرے پہ ایک تاریک سا سایہ سا آ گیا تھا۔“ ہمیں تو اپنا کام کرنا چاہیے اپنا کام۔ خدا نے ایک فرض دیا ہے اسے نبھاؤ۔ نیکی کا کوئی مذہب، کوئی نام نہیں ہے۔ نیکی تو صرف نیکی ہے۔ روشنی کسی رنگ کی ہو اندھیرا نہیں کرتی۔ سیاہی نہیں بکھیرتی ہے۔ ”

توفیق تھوڑا گڑبڑا سا گیا تھا ”نہیں، میں معافی چاہتا ہوں۔ میرا یہ ہرگز مقصد نہیں تھا۔ یہ تو ایک نعرہ ہے جو میں نے دہرا دیا تھا۔ شاید آپ ٹھیک کہتے ہوں گے۔ میں تو ویسے بھی ذرا جاہل سا آدمی ہوں۔“ وہ دونوں ہنس دیے تھے۔

کھانا ختم کرتے کرتے انہوں نے پوچھا تھا کل تو ہفتہ ہے اگر کام نہیں کر رہے ہو تو میرے گھر چلو، تھوڑی اور گپ شپ رہے گی۔ ہم دونوں ہی فارغ تھے لہٰذا ان کے گھر رات گزارنے کا پروگرام بن گیا تھا۔

سٹن کے علاقے میں ان کا خوبصورت سا علیحدہ بنگلہ تھا جس میں ان کی کلینک بھی تھی۔ یہ علاقہ لندن کا مہنگا علاقہ ہے۔ اس علاقے میں کلینک آسانی سے نہیں ملتی ہے۔ ان کی برسوں پرانی پریکٹس تھی۔ وہ وہاں اکیلے ہی رہتے تھے۔ 23 سال پہلے وہ اپنی بیوی عائشہ کے ساتھ پاکستان سے یہاں آئے تھے۔ ایک اسپتال میں کام کے دوران عائشہ کو اپنے والد کی بیماری کے سلسلے میں پاکستان جانا پڑ گیا تھا اس کے والد تو صحت یاب ہو گئے تھے مگر عائشہ مر گئی تھی۔

کچھ تھوڑی سی بیمار پڑی تھی جس کے لیے کسی ڈاکٹر کے پاس گئی تھی جنہوں نے شاید پنسلین کا انجکشن لگایا تھا پھر وہ دوبارہ سانس نہیں لے سکتی تھی۔ ”بڑا گہرا زخم لگا تھا“ وہ بڑے درد سے بولے تھے ”وہ تو کہو لندن کی مصروف زندگی ہے۔ اسے پاکستان میں دفنا کر آیا تو یہاں کے کاموں میں الجھ گیا ہوں۔ اسے بھولا نہیں ہوں مگر اپنے آپ کو مصروف رکھا ہوا ہے۔“

ان کا گھر سلیقے کا گھر تھا۔ ہر چیز قاعدے سے رکھی ہوئی تھی۔ نوید بھائی، یہ اکیلے آدمی کا گھر نہیں لگتا ہے۔ ”

گھر تو اکیلے ہی آدمی کا ہے مگر مسز کیو یہاں کی ہاؤس کیپر ہے۔ کلینک اور گھر کی دیکھ بھال ان کی ذمہ داری ہے۔ میری غیر موجودگی میں ہی سب کچھ ہوجاتا ہے اور اچھا ہوتا ہے۔ ”

ان کے گھر کے سیٹنگ روم میں نو بچوں کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ ”آپ کے نو بچے تو نہیں ہوسکتے۔“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔

نہیں۔ میرا تو ایک بھی نہیں ہے مگر یہ سارے میرے ہی ہیں۔ پہلا عظیم کشمیر میں رہتا ہے، دوسری سارہ ہے یہ فلسطین میں رہتی ہے، تیسری فاطمہ ہے یہ فلپائن میں ہے، چوتھا جلیل ہے بنگلہ دیش کا، پانچواں اور چھٹا خلیل اور کفیل ہیں یہ ایتھوپیا میں رہتے ہیں، ساتواں ناظم ہے بھارت میں رہتا ہے، آٹھویں اور نویں کامبی اور فیزانہ ہیں کینیا کے۔ یہ سب میرے بچے ہیں، ان کو میں نے ان کی تعلیم کے لیے اڈوپٹ کر لیا ہے۔ اب ہر سال ان میں سے کوئی نہ کوئی تعلیم سے فارغ ہوتا جائے گا۔ ”انہوں نے بڑے فخر سے یہ تفصیل بتائی تھی۔ رات تھوڑی سی گپ شپ کے بعد ہم لوگ سو گئے تھے۔

صبح میں اپنی عادت کے مطابق سویرے ہی اٹھ گیا تھا مگر وہ شاید فجر سے ہی اٹھے ہوئے تھے۔ نہا دھو کر میں نے کافی پی تھی پھر ان کی لائبریری کا جائزہ لیتا رہا تھا۔ ان کے پاس دنیا جہان کی انگریزی، اردو، فرنچ کتابیں تھیں۔ روز مرہ کے اخبار اور رسالوں کی بھرمار تھی۔ صبح بڑی تیزی سے گزر گئی تھی۔ 10 بجے توفیق بھی تیار ہو گیا تھا تو ہم لوگوں نے انڈوں کے آملیٹ اور آلو کی بھجیا کا ناشتہ کیا تھا جو انہوں نے خود ہی بنایا تھا۔ توفیق نے اعلان کیا تھا کہ دوپہر کا کھانا وہ بنائے گا۔ ہم لوگ اسے گھر کے باورچی خانے میں چھوڑ کر بازار چلے گئے تھے۔ نوید بھائی نے گھر کے لیے کچھ سامان خریدنا تھا۔

وہ کئی مصروف سے سینٹر چھوڑ کر ایک بڑے غیر معروف سی دکان میں لے گئے تھے۔ یہ کسی لبنانی کا ڈپارٹمنٹل اسٹور تھا۔ میں نے پوچھا تھا ”نوید بھائی اتنے دور آنے کی کیا ضرورت تھی۔“

”یہ سارے بڑے بڑے اسٹور اسرائیل سے پھل اور سبزیاں منگواتے ہیں۔ میں وہاں سے نہیں لیتا ہوں۔ دیکھو نہ اس آمدنی کا کچھ حصہ ان بموں کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے جس سے بیروت میں بچے مرتے ہیں، جھلستے ہیں اور زخمی ہو جاتے ہیں۔ میں کیوں اس ظلم میں شامل ہوں۔ یہ لبنانی اسپین سے سبزیاں اور پھل منگاتا ہے میں یہاں سے لیتا ہوں۔“

مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی میں بارکلے بینک کی مشین کی تلاش میں تھا۔ جب میں نے انہیں مشین دکھائی تو انہوں نے گاڑی روک دی تھی۔ میں دوڑ کر جا کر مشین سے پونڈ نکال کر لے آیا تھا۔ گھر پہنچے تو توفیق کی پکائی ہوئی دال، قیمہ، آلو اور مرغی تیار تھی۔ کھانا لگا ہوا تھا۔ کھانے کے دوران میں نے توفیق کو بتایا تھا کہ نوید بھائی مارک اسپنسر سے سامان نہیں لیتے ہیں کیونکہ وہاں اسرائیل کا سامان بکتا ہے۔ میں نے ابھی جملہ مکمل بھی نہیں کیا تھا کہ انہوں نے کہا ”میں نے بارکلے بینک سے اکاؤنٹ بھی ختم کر دیا ہے۔“

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments