پی ٹی آئی کارکنوں کے لئے ایک کالم


سٹاک ایکسچینج ایک دن میں اکیس سو پوائنٹس گر گیا اور سرمایہ کاروں کے ساڑھے تین سو ارب سے زائد ڈوب گئے۔

تجارتی خسارہ اور ڈالر سر پٹ دوڑ رہے ہیں اور دونوں تاریخ کی بلند ترین اور تباہ کن سطح پر پہنچ گئے ہیں۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق کرونا فنڈ کی مد میں ملنے والی ایک سو بیس ارب کے امداد میں چالیس ارب کی کرپشن ہوئی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل وفاقی وزیر مراد سعید کے بارے میں بتا رہی ہے کہ موصوف کی وزارت میں ایک سو سترہ ارب کی کرپشن سامنے آئی ہے اس کے علاوہ سات ارب رشوت کا الزام الگ سے ہے

پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ممبر قومی اسمبلی میجر ریٹائرڈ طاہر صادق اپنی ہی پارٹی کی وفاقی وزیر زرتاج گل پر پینتیس لاکھ ڈالر کی کرپشن کا الزام لگا رہے ہیں۔

سابق وزیر اعلی خیبر پختون خواہ اور موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک پر انچاس ارب بی آر ٹی کا ٹھیکہ سڑ سٹھ ارب روپے پر دے کر اربوں روپے کمشن لینے کے ساتھ ساتھ سونامی بلیئن ٹری اور مالم جبہ کے اربوں کے الزامات کا ایک طویل سلسلہ ہے۔

فیصل واوڈا خسرو بختیار عامر کیانی رزاق داود علی زیدی ڈاکٹر ظفر مرزا زلفی بخاری اور اعظم سواتی سمیت وزیروں کی فوج ظفر موج کرپشن کے الزامات کی دلدل میں لت پت ہیں۔

احساس پروگرام میں آٹھ لاکھ بیس ہزار سے زائد لوگوں کے جعلی انگوٹھے لگائے گئے اور کرپشن کا اندازہ چالیس ارب سے زائد ہے لیکن حکومت اپنی چوری کی رپورٹ کو خود ہی مسترد کر چکی ہے۔

(پاپا جونز پیزا والے کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جب کاغذ کے ایک سادہ سے ٹکڑے پر وزیراعظم نے ملزم کو بری کر دیا تھا )

وزیراعظم عمران خان کے قریبی دوستوں بلکہ اے ٹی ایمز جہانگیر ترین چینی چوری جبکہ ملک ریاض اور ابراج گروپ کے عارف نقوی عالمی ڈکیت ڈکلیئر کیے جا چکے ہیں۔ کرپشن اور بے ضابطگیاں اتنی گمبھیر ہیں کہ معاملات اربوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔

فارن فنڈنگ دوسرے ممالک سے ملنے والے تحائف علیمہ خان اور ساڑھے تین سو کنال پر محیط بنی گالہ کی ریگولرائزیشن تو گویا ذاتی ”کارکردگی“ کے زمرے میں آتے ہیں۔

معیشت کی بربادی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ پاکستانی ایک روپیہ پچپن افغانی پیسوں کے برابر آ گیا ہے۔

خوفناک مہنگائی کے سبب عوام کی اکثریت خط غربت کے نیچے کراہنے لگی ہے۔ آٹا گھی چینی دالیں گوشت اور سبزیاں جیسی روزمرہ کی اشیاء خریدنے والے بھی دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں۔

اسی تحریک انصاف کا گورنر پنجاب چودھری سرور سر عام خود گواہی دینے لگا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر ملک کو گروی رکھ دیا گیا ہے اور اس ملک پر اب اصل اختیار بھی آئی ایم ایف ہی کا ہے۔

عالمی سطح پر پر پاکستان تنہائی تو کیا بلکہ طنز اور تضحیک کی علامت بن چکا

یہاں تک کہ طالبان کے ترجمان کو بھی میڈیا پر وزیراعظم عمران خان کا مذاق اڑاتے اور طعنے دیتے ہوئے سنا گیا

سعودی عرب جیسا ملک بھی اس حد تک چلا گیا کہ ملائیشیا کانفرنس میں جاتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے جہاز کا رخ تک موڑ دیا۔ اپنا قرض ایک بار ہزیمت خیز انداز میں واپس لے چکا جبکہ موجودہ قرض (تین ارب ڈالر ) کے حوالے سے حال ہی میں یہ شرط عائد کر چکا کہ ”بوقت ضرورت“ پاکستان بہتر گھنٹوں کے اندر اندر قرض واپس کرنے کا پابند ہو گا۔

امریکہ ہمیں بھول چکا چین ہمارے کرتوتوں پر مسلسل ہماری کلاس لینے لگا ہے۔ ہندوستان ہمارا تمسخر اڑا رہا ہے اور برطانوی عدالتیں براڈ شیٹ سے ملک ریاض تک کے کرتوت روز روز دنیا کے سامنے طشت از بام کرتے چلے جا رہے ہیں۔

یہ تو مشت از خروار کی مانند معمولی سی مثالیں پیش کی گئیں ورنہ تو سلسلہ و معاملہ اس سے کہیں زیادہ طویل بھی ہے اور خوفناک بھی!

لیکن یہاں اہم ترین سوال عمران خان کی پیرو کاری کے حوالے سے ہے۔

کہ کیا ضروری ہے کہ ایک عظیم کھلاڑی ایک عظیم لیڈر بھی ثابت ہو اور اگر ایک دیوانہ وار چاہت کے ساتھ اس کی آرزو کی بھی جائے لیکن بدقسمتی سے معاملات الٹ سمت بلکہ تباہ کن رخ پر چل پڑیں تو مراجعت اور ازالہ کی بجائے احمقانہ ضد اور ہٹ دھرمی ہی کو شعار بنا کر مزید تباہی و بربادی کا سامان کیا جائے۔

اس سے پی ٹی آئی کارکنوں کی سنجیدگی اور ذمہ دارانہ طرز عمل کا کوئی تاثر ابھرنے کی بجائے حد درجہ لاپرواہی اور لا ابالی کا تاثر سامنے آنے لگا ہے جو یقیناً ان سیاسی (عموماً نوجوان ) کارکنوں کے حوالے سے ایک تشویشناک بات ہے۔

اور اس طرز عمل سے وہ خود کو ملکی اور سیاسی معاملات سے بہت دور لے جائیں گے

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تحریک انصاف کی اٹھان اور عمران خان کی اچانک سیاسی شہرت کے پس پردہ عوامل سے الگ پی ٹی آئی کارکنوں میں جوش و جذبے اور خلوص کی ہرگز کوئی کمی نہ تھی لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس نوجوان سیاسی لاٹ کو عقل و خرد سیاسی بصیرت اور مردم شناسی کے حوالوں سے فقدان کا سامنا تھا (وقتی طور پر ہی سہی )

ورنہ دھرنے کے دنوں میں بنی گالہ کے گیٹ پر شدید بیماری سے تڑپتے ہوئے ایک پختون نوجوان کے دوستوں کی درخواست پر مدد سے بنی گالہ کا انکار اور دروازوں کی بندش ہو۔

ملتان جلسے میں گرمی اور حبس سے تڑپتے اور بے جان ہوتے کارکنوں کے خاندانوں سے ہمدردی کیے بغیر اسلام آباد واپسی ہو

زہرا شاہد کی لاش کو بے یار و مددگار چھوڑنا ہو۔ کرک جلسے میں اپنے امیدوار برائے قومی اسمبلی کو سٹیج پر لوگوں کے سامنے تھپڑ مارنا ہو۔ فیصل آباد کا واقعہ ہو یا نعیم الحق جیسے مخلص اور پرانے ساتھی کی موت پر تعزیت کے لئے کراچی سے اس کے خاندان کو اپنے دفتر بلا کر پانچ منٹ میں فارغ کرنا ہو۔

اسی طرح سیاسی حوالے سے امپائر کی انگلی سے پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو اور چپڑاسی رکھنے سے انکار لیکن وفاقی وزیر بنانے پر رضا مندی سے سینیٹ میں پیپلز پارٹی سے اتحاد تک قدم قدم اور لحظہ لحظہ اپنے مفادات اور خواہشات کی تکمیل ہی ہے۔

رہے شفاف طرز حکمرانی دو نہیں ایک پاکستان وزیراعظم اور گورنر ہاؤسز کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنا سبز پاسپورٹ کی عزت کرپشن فری پاکستان باہر بینکوں میں پڑا پیسہ واپس لانا ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر!

تو ان دلفریب نعروں کے ذریعے ایک معصوم خلقت کو لوٹ بھی لیا گیا اور برباد بھی کر دیا گیا۔

عرض یہی کرنا ہے کہ اس ملک کے عوام نہ تو کسی وردی پوش آمر طبقے کے غلام ہیں اور نہ ہی عمران خان کے ذاتی غلام بنیں بلکہ نہ نواز شریف کے نہ زرداری کے اور نہ ہی مولانا فضل الرحمن یا اسفندیار ولی کے۔

کہنا یہی ہے کہ آپ کو اگر خدا نے آزاد پیدا کیا ہے تو آزادی کے ساتھ جینا بھی سیکھ لیں اور یہ سب کچھ تب ممکن ہے جب آپ ضد ہٹ دھرمی اور جذباتیت کی بجائے عقل و خرد ہوش مندی اور تدبر و بصیرت سے کام لیں

پھر خود ہی صحیح سمت اور رخ کا تعین بھی ہو جائے گا اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ہماری بربادی کے اصل وجوہات کیا ہیں۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments