پارسائی کے لبادے میں بے گناہوں کا قتل


آج یاد کیجئے شہید انسانیت سلمان تاثیر کو جنہوں نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے ملاقات کرنے کے بعد ایک تاریخی پریس کانفرنس میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ”توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال روکا جائے“ انہوں نے یہ بالکل نہیں کہا تھا کہ اس قانون کو ختم کر دیا جائے لیکن اتنی بات کہنا جرم ٹھہرا اور صاحبان منبر کے اشتعال دلانے کے نتیجہ میں انہی کے ایک باریش سکیورٹی گارڈ ممتاز قادری نے انتہائی سفاکی سے انہیں بزعم خود جہنم واصل کر دیا اور خود کو جنت کا مستحق ٹھہرا لیا۔

اس المناک واقعے کے بعد اس قسم کی دہشت ناک فضا بنا دی گئی تھی کہ لوگ انہیں شہید کہنے سے بھی ڈرتے تھے جبکہ ممتاز قادری کو غازی ڈکلیئر کر دیا گیا تھا۔ المیہ دیکھیے پھانسی کے بعد اسی قوم نے اسے ہیرو کا درجہ دے کر شہید ڈکلیئر کیا اور اس کا مزار تک بنا ڈالا۔ جب پیشی پر اسے عدالتوں میں پیش کیا جاتا تھا اسے ہار پہنانے میں ہمارے وکلا بھی ہوتے تھے اور آج بھی انہیں عرس کی صورت میں سیلیبریٹ کیا جاتا ہے۔ ریاست شروع سے ہی خاموش اور تماشائی بننے کا کردار نبھاتی آئی ہے ظاہر ہے اس کے پیچھے ووٹوں کا چکر ہے اور ریاست آج تک اس قسم کی المناکی پر کوئی واضح موقف اختیار نہیں کر سکی۔

کچھ عرصہ پہلے مردان میں شہید شعور و آگہی مشعال خان کو بڑی بے دردی سے قتل کیا گیا تھا اور اسے تاریخ کا ایک المناک واقعہ تصور کیا جاتا تھا کیونکہ ظالموں نے مشعال کے جسمانی اعضاء کو بھی بڑی بے دردی سے اینٹیں مار مار کر توڑ ڈالا تھا اور بعد میں عدالت نے اسے معصوم قرار دے دیا تھا۔ اب سیالکوٹ والا واقعہ سفاکی کے اول درجے پر آ چکا ہے جس میں انسانیت کے قاتلوں نے ایک فیکٹری کے سری لنکن مینیجر پریانتھا کمارا کو بے دردی سے قتل کر کے اس کی لاش کو آگ لگا دی اور لاش کے قریب کھڑے ہو کر سیلفیاں بناتے رہے۔

غور کیجئے ہجوم بالکل وہی نعرے بلند کر رہا تھا جو تحریک لبیک کا حقیقی موقف بن چکا ہے جسے حکومت نے بین کرنے کے بعد دوبارہ پیار سے گلے لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

بطور پاکستانی ہم ہڈ حرام قوم ہیں اور اپنی پروفیشنل لائف میں بھی کام کو مقدس جاننے کی بجائے عبادات کے بہانے اپنے فرائض میں کوتاہی برتی جاتی ہے۔ سیالکوٹ والا واقعہ اسی ہڈ حرامی اور بے ضابطگیوں کا شاخسانہ ہے۔ یہ جو دو نوجوان ہیں جنہوں نے میڈیا پر آ کر اپنے جرم کا بڑے فخر سے اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پریانتھا کمارا نے دیوار پر چسپاں ”لبیک یا حسین“ کا پوسٹر پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا اور ہمارے جذبات مجروح ہوئے اور ہم نے اسے جہنم واصل کر دیا۔ حقیقت میں یہ مینیجر کام کے معاملے میں بہت سخت تھا اور ہڈ حراموں کو کام ایمانداری سے کرنے کو کہتا تھا اور یہ دو نوجوان اپنی تنخواہ بڑھوانے کے تنازع پر اس سے جھگڑ چکے تھے۔

انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ توہین مذہب کا الزام لگا کر اسے سائیڈ لائن کر دیا جائے۔ ان درندوں نے اپنی سفاکی کے ذریعے سے پرانتھا کمارا کی آنے والی نسلوں کو بھی پیغام دے دیا کہ ہم جیسے نکموں کو ”ورک آہولک“ بنانے کی کوشش بھی مت کرے۔ اگر ہماری ریاست سلمان تاثیر کی شہادت اور ان کے جملوں کو سنجیدگی سے لے کر اپنا قبلہ درست کرنے کی کوشش کرتی تو آج کسی کو مذہب کارڈ استعمال کر کے بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے کی جرت نہ ہوتی۔

اب بھی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور ریاست مدینہ کی مالا جپنے کی بجائے لوگوں کی صحیح معنوں میں ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہے اور اس قسم کے نعروں کا سحر پیدا کرنے والوں کو سوچنا چاہیے جن کا استعمال کر کے لوگ کسی کی بھی جان لے لیتے ہیں۔ غور کیجیے جن افراد نے منیجر کو قتل کیا ہے وہ اشتعال انگیزی میں یہی کہہ رہے تھے کہ ”گستاخ نبی کی ایک سزا سر تن سے جدا“ جب آپ بنا سوچے سمجھے اس قسم کی ذہنیت کو فروغ دیں گے اور ان نعروں کا پرچار کرنے والوں کو ریاست اپنی چھتری تلے پناہ دے گی تو یہ سفاکیاں یونہی چلتی رہیں گی۔

یقین کریں کوئی اس آگ سے نہیں بچ پائے گا اور بڑوں بڑوں کے چراغ بجھیں گے کیونکہ نفرت کی آگ کسی عقیدہ اور فلسفہ کو نہیں دیکھتی۔ ہمارے بھولے بھالے عوام کو یہ جاننا چاہیے کہ آپ کے کانچ جیسے ایمانی جذبات کا فائدہ اٹھا کر کچھ لوگ مقبول ہونے کی کوشش کرتے ہیں، غور کیجیے کیا آج تک کبھی کسی مولوی کے بیٹے نے کسی کا سر مذہب کے نام پر اڑایا ہے یہ کسی ہجوم کا حصہ بن کر کسی پر ڈنڈے برسائے ہوں؟ ہمیشہ کوئی عام بندہ ہی جذبات کی رو میں بہہ کر انسانیت کا قاتل بن جاتا ہے۔

جب ہم اپنی عقل کا استعمال کرنا سیکھیں گے تو پھر ہی ہمیں فلسفہ انسانیت سمجھ میں آئے گا۔ اگر کوئی توہین مذہب کرتا ہے تو اس کے لیے ہماری عدالتیں اور قوانین موجود ہیں۔ ہمیں ان قوانین پر بھروسا کر کے ملکی قانون کا ساتھ دینا چاہیے ناکہ اپنی عدالت لگا کر دوسروں کی جان لینا شروع کر دیں۔ اب ہمارے علماء کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے سب کو مل کر ایک پلیٹ فارم پر ان درندوں کو ایک واضح پیغام دینا چاہیے اور اعلان کرنا چاہیے کہ کوئی بندہ گستاخی کرتا ہے تو اسے سزا ملکی قانون دے سکتا ہے ہم بالکل نہیں دے سکتے۔

ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اب مذہب کا غلط استعمال ہونے لگا ہے آپ طاہر اشرفی کی گفتگو سن لیں جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ لوگ اپنی ذاتی رنجشوں کا بدلہ لینے کے لیے دوسرے مذاہب کے لوگوں پر توہین مذہب کا الزام لگا دیتے ہیں۔ انہوں نے چھ مسیحی لوگوں کا بھی تذکرہ کیا جن پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگا دیا گیا تھا۔ ہم مجموعی طور پر ایک طرح سے اجتماعی نفسیاتی بیماری کا شکار ہو چکے ہیں، عمل سے راہ فرار حاصل کرنے والی یہ قوم انسانوں کو جلا کر جلد جنت کا وارث بننے کے رومانس میں مبتلا ہو چکی ہے۔

اب یہ خود ہی مذہبی جذبات مجروح کرنے یا ہونے کا خود ہی فیصلہ لیتے ہیں اور خود ہی قاضی اور ایک اچھے مسلمان کی اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے انسانوں کو جہنم واصل بھی کر دیتے ہیں۔ یہ کون سی جنت کا حصول ہے جو بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے کی عوض ملتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments