کیا آپ موت کو اپنی مرضی سے گلے لگانا چاہتے ہیں؟


احمد فراز کی ایک غزل کے دو اشعار ہیں

انکار نہ اقرار بڑی دیر سے چپ ہیں
کیا بات ہے سرکار بڑی دیر سے چپ ہیں
آسان نہ کر دی ہو کہیں موت نے مشکل
روتے ہوئے بیمار بڑی دیر سے چپ ہیں

بعض اوقات موت ایک محبت بھرے دوست کی طرح آتی ہے اور روتے ہوئے بیمار کو بڑے پیار سے گلے لگاتی ہے تسلی دیتی ہے اور خاموشی سے اپنے ساتھ ملک عدم لے جاتی ہے۔

لیکن بعض دفعہ مریض روتا رہتا ہے تڑپتا رہتا ہے دکھی رہتا ہے موت کو بار بار بلاتا ہے لیکن موت اس سے روٹھ جاتی ہے۔

ماہرین طب ’ماہرین نفسیات‘ ماہرین قانون اور انسانی حقوق کے ماہرین کے لیے سوال یہ ہے کہ وہ بیمار جو کسی لاعلاج مرض میں مبتلا ہے، جو دن رات درد سے کراہتا رہتا ہے، کینسر جیسے موذی مرض کی اذیت میں دکھی رہتا ہے، کیا ایسے مریض کو اپنی مرضی سے موت کو بلانے کا اور اپنی زندگی کا آخری فیصلہ کرنے کا حق ہے؟

اور اگر ایسا مریض اپنی موت کو اپنی مرضی سے گلے لگانا چاہتا ہے تو کیا اس کے ڈاکٹر کو اس کی مدد کرنی چاہیے؟

ان سوالات کے تسلی بخش جواب تلاش کرنے کے لیے میں نے اپنے عزیز دوست ڈاکٹر بلند اقبال کو ’جو ادیب بھی ہیں‘ طبیب بھی ہیں اور میرے حبیب بھی ہیں ’جن کے ساتھ میں کینیڈا ون پر ان سرچ آف وزڈم کے ساٹھ سے زیادہ پروگرام پیش کر چکا ہوں‘ ایک سوال نامہ بھیجا۔ میرے سوال اور ان کے جواب ’ہم سب‘ کے قارئین کی خدمت میں حاضر ہیں تا کہ وہ بھی ان سوالوں اور جوابوں پر اپنے مذہب ’قانون‘ روایت اور انسانی حقوق کی روشنی میں غور کر سکیں اور وقت آنے اور ضرورت پڑنے پر دانشمندانہ فیصلے کر سکیں۔

پہلا سوال: ڈاکٹر بلند اقبال کیا آپ کے کنیڈین ہسپتال میں دکھی مریض اپنی موت کا فیصلہ خود کر سکتے ہیں؟

جواب: جی ہاں، اگر دکھی مریض سے آپ کی مراد ان مریضوں سے ہے جو اپنی فزیکل بیماری کی وجہ سے اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ اب ان کی زندگی دوبارہ صحت مند گزارنے کے لائق نہیں رہے گی اور ان کا سفر صرف تکلیف سے ہی دوچار رہے گا یا یہ کہ وہ اب بیماریوں سے لڑ لڑ کر تھک چکے ہیں اور اب ان کی توانائیاں ختم ہو چکی ہیں یا دوسرے الفاظ میں وہ اپنی زندگی سے اب مایوس ہوچکے ہیں۔ ایسے دکھی مریض یقیناً اپنی موت کا نہ صرف فیصلہ کر سکتے ہیں بلکہ اپنی موت کی تاریخ اور وقت کا بھی تعین کر سکتے ہیں۔

دوسرا سوال: کیا وہ مرنے کے لیے کسی ڈاکٹر کی مدد مانگ سکتے ہیں؟
جواب: جی ہاں، کینیڈین قوانین (بل 14 سی جو سنہ2016 میں پاس ہوا تھا جسے میڈ کہتے ہیں) Bill C-14 in 2016 for medical assistance in dying (MAID) کے تحت انہیں پورا اختیار ہے کہ وہ اپنی موت کی خواہش کا اظہار اپنی نرس پریکٹیشنر یا اپنے ڈاکٹر سے کر سکتے ہیں۔

تیسرا سوال: وہ کیا شرائط ہیں جن کے پورا کرنے کے بعد ڈاکٹر مریض کی مدد کرتے ہیں؟

جواب: پہلی شرط تو یہی ہے کہ مریض کینیڈا کا شہری ہو، اٹھارہ سال کم از کم عمر ہو اور اس میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو جسے ہم لیگل زبان میں ڈسیشن میکنگ کپیسٹی کہتے ہیں۔ اس کے بعد یہ کہ مریض ایسی دردناک اور تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہو جس کا علاج قطعی طور پر ناممکن ہو اور مریض نے بنا کسی بیرونی دباؤ یا نفسیاتی بیماری کے رضاکارانہ طور پر خواہش کا اظہار کیا ہو۔ اس سارے عمل کے دوران مریض کے علم میں اس کے مرض کی تشخیص، تمام تر طریقہ علاج کی دستیابی یا غیر دستیابی حتیٰ کہ موت کے لیے دی جانے والی دواؤں کا بھی اسے علم دیا گیا ہو اور اس نے اس طریقہ کار کے لیے رضامندی کا اظہار کیا ہو۔ یہ سب کسی سوشل ورکر اور فیملی ممبر یا قریبی دوست کی موجودگی میں لیگل پیپرز پر سائن کی شکل میں ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی ڈاکٹر یا نرس پریکٹیشنر مریض کی خواہش کا احترام کر سکتے ہیں۔

چوتھا سوال: مریضوں کو موت کے لیے کون سی دوائیں دی جاتیں ہیں؟

جواب۔ ہمارے یہاں ہسپتال میں ایسی میڈیسن استعمال کی جاتی ہیں جو براہ راست دماغ اور دل پر عمل کرتی ہیں۔ یہ دوائیں براہ راست خون میں شامل کی جاتی ہیں۔ مثلاً سب سے پہلے تو میڈازولم ایک منٹ میں انجیکٹ کی جاتی ہے۔ جو مریض کی بے چینی کم کرنے اور سلانے کے کام آتی ہے، اس کے بعد لایڈوکین دو پرسنٹ تقریباً تیس سیکنڈ میں انجیکٹ کردی جاتی ہے تاکہ مریض کو دوا دینے کے دوران درد کا احساس بالکل بھی نہ ہو، اس کے بعد پروپافول جو ایک طاقتور بے ہوش کرنے والی دوا ہے انجیکٹ کی جاتی ہے جس کی وجہ سے مریض سرجری کے دوران ہونے والی بے ہوشی کی کیفیت میں چلا جاتا ہے اس کے بعد نیورو مسکیلر بلاک کرنے کے خاطر رو کیورونیم اور سب سے آخر میں دل کو دھڑکنے سے روکنے کے لیے بیوپی وکین کا انجیکشن دے دیا جاتا ہے۔ یہ سارا عمل یوں تو دو سے پانچ منٹ کا ہوتا ہے مگر عموماً مریض دو سے تین منٹ میں ہی فوت ہوجاتا ہے۔

پانچواں سوال: آپ کی نظر میں خودکشی اور یوتھینیزیا میں کیا بنیادی فرق ہے؟

جواب :خودکشی کا فیصلہ اکثر و بیشتر سخت ترین ذہنی دباؤ کی حالت میں کیا جاتا ہے جو کبھی کبھار لمحاتی ہوتا ہے اور اندرونی یا بیرونی سماجی حالات کے بدلنے کے بعد خود اس شخص کے لیے بھی حیران کن یا بعض اوقات بزدلی کے مترادف سمجھ کر شرمندگی تک کا سبب بھی بن جاتا ہے جبکہ یو تھینیسیا کسی ذہنی بیماری کے بجائے لاعلاج جسمانی مرض یا شدید ترین تکلیف اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بدترین لائف کوالٹی کی وجہ سے کیا جانے والا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ عموماٌ ایک ایسے ذہن سے توقع کیا جاتا ہے جس کا جسم تو بیمار ہو مگر ذہن صحت مند ہو۔

چھٹا سوال: جو لوگ خودکشی کو گناہ یا جرم سمجھتے ہیں ان سے آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب۔ میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ خودکشی نہ تو گناہ ہے اور نہ ہی جرم بلکہ یہ وقت انسانوں کی زندگی میں جب ہی آتا ہے جب موت زندگی سے زیادہ سہل محسوس ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا دردناک فیصلہ ہے جس کے بارے میں رائے صرف وہی شخص دے سکتا ہے جو جذبات کی اس بدترین ذہنی کیفیت سے گزرتا ہے۔

………………………………

نوٹ : پچھلے چند سالوں اور دہائیوں میں جن ممالک میں یوتھانیزیا کے حق میں قوانین بنے ہیں ان میں کینیڈا کے علاوہ بیلجیم ’لکزنبرگ‘ نیدرلینڈ ’سوٹزرلینڈ اور امریکہ کی اوریگون اور واشنگٹن کی ریاستیں بھی شامل ہیں۔

euthanasia…Greek word
اچھی موت
یو۔ eu۔ اچھا
تھیناٹوزthanatos۔ موت

میں اگلے کالم میں آپ کی خدمت میں اس موضوع پر اپنا ایک افسانہ۔ تھکی ہوئی زندگی۔ DIGNIFIED DEATH CLINICپیش کروں گا۔

۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments