مذہب کے نام پہ خون


سیالکوٹ میں ایک سری لنکن عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے مینیجر سے ذاتی دشمنی ہونے کی بنا پر مزدوروں نے اس پر توہین رسالت کا الزام لگایا زد و کوب کر کے تشدد کیا اور بری طرح زخمی کر دیا اس پر بھی دل نہ بھرا تو زندہ کو ہی آگ لگا دی اور ان درندوں کی ذہنی پسماندگی اور بربریت ملاحظہ ہو کہ ان جلتے ہوئے زندہ انسان کی آپ و پکار سن کر ان کے دل میں ہمدردی یا رحم جیسے جذبات تو درکنار وہ فخر و تحسین کے سے انداز میں ساتھ سیلفیاں لیتے رہے۔ پھر اس کے گرد گھیرا ڈال کر ”ہم نبی کے دیوانے ہیں“ کا نعرہ لگاتے رہے۔

اتنا ظلم اتنی بے رحمی اور اتنی بربریت کا مظاہرہ اس رحمۃ اللعالمین کے نام پر ہوا جو سلامتی کا مذہب لے کر آیا تھا۔ وہ مذہب جو وحشیوں کو انسان بنانے آیا تھا۔ یہ لبیک یا رسول اللہ کے نعرے لگانے والے یہ کون سے درندے ہیں جو اس غیر انسانی رویہ کو اس پاک ہستی سے منسوب کر رہے ہیں۔ لبیک کہنا ہے تو اس کی غیر مسلمانوں سے حسن سلوک کی حسین تعلیمات پر لبیک کہو۔ لبیک کہنا ہے تو اس کی اس سنت پر لبیک کہو جب وہ کوڑا کرکٹ پھینکے والی عورت کو قتل نہیں کرتا بلکہ اس کی عدم موجودگی محسوس کر کے اس کے ساتھ رحم فرماتا ہے۔

لبیک کہنا ہے تو اس واقعہ پر لبیک کہو کہ ایک یہودی کے مسجد میں پیشاب کرنے کے بعد بھی آپ نے اسے کچھ کہنے سے منع فرما کر خود وہاں پانی کے ڈول بہائے۔ لبیک کہنا ہے تو اس عمل پر کرو جب آپ ﷺ کے سامنے سے ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو آپ اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ لبیک کہنا ہے تو اس بات پر کہیے کہ نجران کے نصرانیوں کے وفد کو نہ صرف مسجد نبوی میں ٹھہرایا بلکہ ان کو ان کے طریق کے مطابق وہاں عبادت کرنے کی بھی اجازت مرحمت فرمائی۔ ان کی مہمان نوازی کی ان سے حسن سلوک کیا۔ لبیک کہنا ہے تو میثاق مدینہ والے اور واقعہ طائف سے جو سبق ملتا ہے اس پر لبیک کیجیے ناں۔

لبیک کہنا ہے تو اولوامر کی اطاعت کے حکم پر لبیک کہیے گا
لبیک کہنا ہے تو اس ارشاد الہیٰ پر لبیک کہیے ”اور تم مت برا کہو ان لوگوں کو جو اللہ کے ماسوا کو پکارتے ہیں، کہیں وہ اللہ کو بلا سمجھے زیادتی کرتے ہوئے برا نہ کہنے لگیں“

لیکن نہیں ہم نہ عفو و درگزر کی تعلیم پر لبیک کہیں گے نہ رحمدلی اور برداشت کی تعلیم پر عمل کریں گے۔

ہم کیوں کسی کا معاملہ خدا پر چھوڑیں خدا تو رحمان و رحیم ہے وہ تو وہاب ہے تواب ہے وہ تو ان کے ساتھ رحم کا سلوک بھی کر سکتا ہے ہم جو شیطان کے چیلے ہیں ہم جو جانوروں سے زیادہ خونخوار اور چیرنے پھاڑنے والے درندے ہیں ہم خود کیوں نہ سارے حساب برابر کریں۔ ہم یوم آخرت کا انتظار کیوں کریں ہم خود یوم حساب مقرر کر کے جزاء اور سزا کا فیصلہ کیوں نہ کریں۔ کیونکہ ہم جنگلی جانوروں کی طرح آزاد ہیں کوئی حکومت کوئی قانون ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ ہم خود قانون بنانے والے ہیں ہم تو جو اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اسے سلمان تاثیر کی طرح اسی کے باڈی گارڈ کے ہاتھوں قتل کروا دیتے ہیں پھر اس قاتل کو عوامی ہیرو کا درجہ دیتے ہیں تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی ایسا قومی ہیرو بننے کی ترغیب ملے۔ اس کا ماتھا چومتے ہیں۔

اس کا عرس مناتے ہیں۔ یہ اعزاز تو جی صرف ہمیں حاصل ہے۔ یہ ہم ہی ہیں جو اقلیتوں کو ترقی کرتے دیکھ نہیں سکتے ان کے ڈاکٹرز وکلاء پروفیسرز کو چن چن کر ڈھونڈتے ہیں اور ان کی پہچان بھی بآسانی ہو جاتی ہے۔ جو ایمان دار، وقت کا پابند، اپنے کام سے مخلص، سچ بولنے والا، دیانت دار ہو گا وہی اقلیت سے تعلق رکھتا ہو گا۔ کیونکہ ہم مسلمان تو بس اسی آسرے پر ایسی کوئی نیکی کرنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ہماری تو شفاعت ہو ہی جانی ہے بس مسلمان گھرانے میں پیدا ہو کر خود پر اسلام کا ایک ٹھپا لگ چکا ہے اور بس جی اب جنت ہماری اور جہنم اقلیتوں کی۔ دیکھ لیں اتنے بڑے ہجوم میں فقط ایک انسان تھا جو اس ”کافر“ مینجر کو بچانے کی بات کر رہا تھا یقیناً وہ بھی اسی جیسا ہو گا ورنہ ہم بھلا کبھی حق کا، ساتھ دینے کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ہم تووہ بندر ہیں کہ جو ڈگڈگی فسادی مولوی اور ملک دشمن عناصر ہمارے لیے بجاتے ہیں ہم اندھا دھند اس پر ناچتے ہیں۔

ہم وہی قوم ہیں جو تین روزہ تراویح پڑھ کر سارا رمضان قرآن کی تعلیم سے ناآشنا رہ کر ہر وہ کام کرتی ہے جو تقدس رمضان کے خلاف ہے کیونکہ بھئی تین روزہ تراویح پڑھ کر اللہ پر احسان کر دیا ہے اب اللہ کا یہ فرض ہے کہ ہمیں لازمی معاف کرے نہ صرف ہماری بخشش ہو بلکہ ان تین دن کے علاوہ جتنے دن بھی ہم خدا تعالی کے احکامات کے منکر ہوں وہ بھی ہمارے نامہ اعمال میں درج نہ کیے جائیں۔

پھر شب قدر یا شب برات میں فیصل مسجد یا بادشاہی مسجد میں ایک رات عبادت کر لو بس پورے سال کے گناہ معاف کروا لو

کم خرچ بالا نشین!

انہی شارٹ کٹس نے عوام کو یہ سمجھایا کہ بس کوئی ایک نیکی کر لو جو ان کو اللہ یا اس کا رسول یا اس کی کتاب نہیں بلکہ اس کا نام نہاد مولوی اس کو بتاتا ہے بس وہ کر کے خود جنت کے حقدار بن جاؤ اور باقیوں کے لیے ان کی زندگی جہنم بنا دینے کے لیے تیار۔ اس وقت حساب اس ابوجہل اور ابو لہب کے پیروکاروں سے لینے کی بجائے ارباب اختیار سے جواب طلبی کی جائے۔ کیوں تحریک لبیک جیسی مذہبی جنونی ذہنیت والی کالعدم جماعت کو صلح جو اور ملک دوست قرار دے کر اسے پھر غنڈہ گردی کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔

کیا ان پولیس والوں کا خون اتنا ہی ارزاں تھا جو ان کو مارنے والوں کو اتنی جلدی آزادی مل گئی۔ کیوں ان کو عبرت کا نشان نہ بنایا گیا۔ محترم وزیر اعظم صاحب مبارک ہو آپ پاکستان میں تبدیلی لے آئے ہیں۔ پہلے مجرم ڈرتا تھا اپنا جرم چھپاتا تھا اب وہ علم رکھتا ہے اسے آپ کا مکمل تعاون حاصل ہے اسی لیے تو کوئی بھی غیر اسلامی یا غیر قانونی کام کرتے وہ بطور خاص وڈیو بناتا یہ کہ کوئی وہ وڈیو دیکھ کر اسے پہچان بھی لے گا تو کیا کر سکتا یہ یہ بے خوفی اسے اس قانون نے دی ہے جس نے ایسے کسی جرم کو جرم رہنے ہی نہیں دیا۔ ہر کام کے لیے توہین رسالت کا جواز موجود ہے۔

جس پر چاہو یہ الزام لگاؤ بغیر کسی گواہی کے بغیر کسی قانونی کارروائی کے بس ایک آواز لگاؤ کہ اس نے توہین رسالت کی ہے اور جس طرح خونخوار درندے اپنے شکار کی طرف لپکتے ہیں اسی طرح عقل و شعور سے عاری کچھ دماغ و جسم جنہیں انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے بنا سوچے سمجھے منہ سے جھاگ نکالتے اس انسان پر پل پڑتے ہیں اور جب تک اس کے جسم کا آخری قطرہ تک نہ نچوڑ لیں اسے چھوڑتے نہیں یہ ظالم درندے اسے جھنجھوڑنا نہیں چھوڑتے۔

جنرل ضیاء مذہبی جنونیت کی جو چنگاری سلگا کر گیا تھا اس کو اتنے سال ہوا دے دے کر اب اتنا بھڑکایا جا چکا ہے کہ قوم کے بچے بچے کے دل میں وہ الاؤ بن کر ہر دوسرے کو جلانے کے لیے کافی ہے۔ چاہے وہ مشعال خان ہو چاہے اسی شہر کے دو معصوم حفاظ بھائی کوئی شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا یا کوئی احمدی ڈاکٹر اسی طرح یہ لبیک یا شیطان والے جاہل دماغ ان کو گدھ بن کر نوچتے رہیں گے یہ بھیڑیے اسی طرح ان کا خون چوستے رہیں گے۔

یہ مذہبی آتش فشاں جابجا اگلتے رہیں گے اور معصوم بے گناہ جانیں ایسے ہی جاتی رہیں گی۔ پاکستان میں اس وقت صرف دو طرح کی سوچ والے افراد ہیں ایک یہی مذہبی جنون رکھنے والے جانور اور دوسرے وہ جو یہ سب دیکھ کر جلتے کڑھتے ہیں اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب ان کی سنی نہیں جاتی بلکہ ان کو بھی ڈرایا دھمکایا جاتا ہے تو ان میں سے اکثر خاص کر نوجوان حساس طبقہ مذہب سے بیزار اور لاتعلق ہو جاتا ہے۔ اور پھر آہستہ آہستہ خدا کی ذات سے بھی منکر ہو جاتا ہے تو اگر یہی صورتحال رہی تو پاکستان میں بس ملحدین اور توہین رسالت کے علمبردار ہی بچیں گے۔

جو دونوں ہی انتہائیں ہیں اور دونوں کا نصیب بربادی ہے۔ ابھی بھی وقت ہے اگر ابھی بھی گورنمنٹ ملک میں قانون ہاتھ میں لینے والوں کو قرار واقعی سزا دینے کا قانون بنا دے تو کیسے جرات ہو گی ایسے جاہل افراد کی کہ وہ قانون ہاتھ میں لین۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم اب جن جن لڑکوں نے بڑے فخر سے وڈیوز ریکارڈز کیں سیلفیاں بنائیں کم از کم ان کے لیے تو عمر قید یا سزائے موت جیسی سزا مقرر کر کے ان کو نشان عبرت بنایا جائے تاکہ پھر کسی کو یہ خون کی ہولی کھیلنے اور ایسے شمشان گھاٹ سجانے کی ہمت نہ ہو۔

پھر کسی بے گناہ مشعال خان کی ماں جب اپنے مردہ بیٹے کے ہاتھ چومنا چایے تو اس کی انگلیاں ظالموں کے تشدد سے ٹوٹی نہ ہوں۔ کوئی اپنی تمام جمع پونجی لگا کر کے اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنائے تو اسے احمدی ہونے کی وجہ سے گھر کے سامنے قتل نہ کیا جائے۔ کسی عیسائی مذہب والے کو کسی ہندو مذہب والے کو اپنی ذاتی دشمنی کی وجہ سے توہین رسالت کا مجرم بنا کر دردناک موت کی سزا نہ سنائی جائے۔ اور علماء صاحبان یہ حوروں کی خوبصورتی اور قد و قامت بتلانے اور کھیرا کاٹنے کا طریقہ اور کیلا رکھنے کا درست طریق سکھانے کی بجائے یہ حدیث یاد کروائیے کہ ”ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے“ ۔

رحم دلی اور عفو و درگزر کے واقعات سنائیں اپنے پاس سے گھڑ کر الٹے سیدھے فتاویٰ جاری نہ کریں۔ اگر مذہب کا چولا پہنا ہے تو جو درست تعلیمات ہیں ان پر عمل کروانا بھی آپ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اپنے فرض کو پہچانیں اور لوگوں کو ان کے فرقے ان کے عقیدے کے مطابق زندہ رہنے کا حق دیجیے۔ ایک بزرگ کا قول ہے جو مجھے بے حد پسند ہے کہ ”سب سے عمدہ تبلیغ وہ ہوتی ہے جس میں آپ کو بولنا نہ پڑے“ یعنی آپ کا عمل دوسرے انسان کو یہ بتا رہا ہو کہ آپ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ تو کاش کہ ہم تبلیغ کے اس طریق پر کاربند ہو جائیں اور عمل سے اپنے آپ کو مسلمان ثابت کر سکیں۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments