عورت ”جیب“ اور جنسی تفریق


جیب بھی ظالم شے ہے۔ کسی بھی مرد کو روک کر پوچھیں کہ جیب کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جھٹ سے جواب دے گا کہ بھائی جیب سائنس کی چند شاندار ایجادوں میں سے ایک ہے۔ کرنسی، کارڈ، ہلکے پھلکے کاغذات کوئی چھوٹی موٹی کھانے کی چیز کچھ بھی ٹھونس دیں اس میں یہ مینج کر لیتی ہے۔ سب سے بہترین بات، آپ کھڑے ہیں سامنے بندہ بات کر رہا ہے آپ بات سن رہے ہیں اور بہت دیر سے آپ نے ہاتھ کولہوں پر رکھے ہوئے ہیں جو اب تھک چکے ہیں تو کوئی ٹینشن نہیں لینی۔

سائیڈ کی جیبوں میں گھسا دیں۔ ٹھنڈ لگ رہی ہے اور دستانے نہیں ہیں تو کوٹ یا اپر کی جیبیں ہیں نا! فکر کی کوئی بات نہیں۔ تصویر لے رہے ہیں اور آپ پوز بنا چکے ہیں لیکن آپ کو لگتا ہے آپ کے ہاتھ کہیں صحیح طریقے سے ٹک نہیں رہے۔ اوکے ہے بھائی یہاں بھی جیب ہی آپ کی جان چھڑائے گی۔ دونوں ہاتھ جینز کی جیبوں میں ڈال دیں، پوز بنائیں۔ قصہ ختم۔

ایسے تو جیب کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن جس شکل میں جیبیں آج ہیں ان کا ذکر مغرب میں سولہ ویں یا سترہ ویں صدی کے آس پاس شروع ہوتا ہے ہے جب کپڑے کے ایک ٹکڑے کو باقی لباس کے اندر یا باہر سینے کو رواج ملا۔ اس سے قبل لمبے تھیلے ہوتے تھے جنھیں لباس کے ساتھ باہر ایک بیلٹ یا پٹی کے اندر اڑس لیا جاتا تھا۔ بیرونی جیب کا رواج مردوں کے لئے مخصوص رکھا گیا یعنی تب بھی عورتوں کے ہاں کپڑوں کے اندر پیٹی کوٹ کے نیچے چھوٹا سا تھیلا باندھنے کا رواج رہا جو کہ بذات خود ایک بڑی مصیبت کا باعث تھا کیونکہ یہ اندر ہوتا تھا اور اس میں رکھے سامان تک رسائی بہت مشکل ہو جاتی تھی۔ انیسویں صدی میں خواتین میں قدرے تنگ لباس کا تصور عام ہوا تو اس اندرونی تھیلا نما جیب کے ابھار نے اس کو غیر مقبول کر دیا اور خواتین بیگ کی طرف مائل ہوئیں۔

یہاں ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ مردوں کے لباس میں بیرونی جیب کا تصور بہت پہلے آیا اور خواتین کے لباس میں بہت بعد میں اور وہ بھی نہایت غیر مفید صورت میں۔ خواتین کے لباس میں بیگ آئے بیگوں کی پوری انڈسٹری آئی لیکن افادیت کی حامل جیب ان کے لباس کا حصہ نہیں بن سکی۔ آج بھی دیکھیں تو اب پاکستان انڈیا کی اکثر جگہوں میں خواتین کے لباس میں جیب نہیں ہے۔ اور اگر کہیں مغربی فیشن کو اپنایا گیا ہے تو وہاں بھی جیب اگرچہ موجود ہے لیکن اتنی چھوٹی کہ اس میں صرف کچھ سکے ہی سما سکتے ہیں۔

خواتین بڑی جیبوں کی عدم موجودگی یا غیر مفید جیبوں کے ساتھ خود بھی بہت مشکلات کا شکار ہیں۔ ایک ہاتھ میں بیگ دوسرے میں موبائل اور پانی کی بوتل، بغل میں کتاب یا فائلیں یا کچھ اور سامان ایسے میں بڑی جیب ہوتی تو یقیناً بہت آسانی رہتی۔ اکثر ایسے بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جب ایک عورت دوسری عورت کو کوئی نیا لباس دکھاتی ہے اور اگر اس میں جیبیں ہیں تو ان کا ذکر خوشی اور فخر سے ضرور کرتی ہے کہ دیکھو یہ کتنا پیارا ڈریس ہے اور اس میں دیکھو تو پاکٹس بھی ہیں۔ مطلب یہ کہ خواتین کو خود جیبوں سے کوئی خاص پرابلم نہیں ہے بلکہ ان کو جیبیں پسند ہیں۔

جیب کا نہ ہونا یا محض علامتی طور پر موجود ہونا پدر سری سماج میں عورت کے رول کو کم کرنے کی کوشش ہے۔ عورت کو تاریخی طور پر جیب سے دور رکھا گیا۔ اسے بتایا گیا کہ اسے جیب کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ لباس میں کوئی کارآمد شے رکھے۔ یا اگر وہ کسی ایسے رول میں کام کرنا چاہتی بھی ہے جو عمومی طور پر مرد کرتے ہوں تو جیبوں کی عدم موجودگی میں اس کے پاس اتنا سارا سامان ہو کہ اسے ذمہ داریاں نبھانے میں آسانی نہ رہے اور اس کی کارکردگی متاثر ہو۔ شاید یہ بھی ایک مفروضہ ہی ہو لیکن جس رفتار سے جیب کے فیشن کو مرد کی سہولت کے مطابق تبدیل کیا گیا ہے اتنی ہی تیزی سے خواتین کے لئے ہینڈ بیگز اور پرس وغیرہ کا فیشن آگے بڑھایا گیا ہے۔

آج سے کوئی دس پندرہ یا بیس سال پہلے خیبر پختونخوا کے کسی گاؤں کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہاں تب بڑی عمر کی خواتین کے لباس گھیر دار ہوتے تھے اور قمیض کی دونوں سائیڈوں میں لمبی اور کھلی جیبیں رکھنے کا رواج تھا۔ ان جیبوں میں چابیاں، چھوٹا چاقو ڈوری ٹافیاں وغیرہ اور چھوٹی چھوٹی کار آمد اشیاء ہوتی تھیں۔ جب تک پیداواری طریقہ زراعت رہا، پشتون سماج میں خواتین کا رول ایک سرگرم اور متحرک فرد کی حیثیت سے رہا جس میں کاشتکاری، گلہ بانی وغیرہ شامل تھا۔

تب تک جیب رکھنے کا رواج بھی عام تھا کیونکہ یہ ان کے مستعد رول میں سہولت کا باعث بنتا تھا۔ لیکن جوں جوں جدید پیداواری طریقوں جیسے کاروبار، اجرت پر نوکری اور کارخانہ جات نے زراعت کی جگہ لینا شروع کی توں توں عورتوں کا معاشرے میں سماجی اور معاشی کردار کم ہوتا گیا اور بالآخر گھر تک محدود ہو گیا اور جیب کی ضرورت بھی نہ رہی۔

تین مہینے کی عمر کے بچے کے لئے گھر میں چھ چھ جیبوں والی پینٹیں رکھی ہوتی ہیں۔ اس کی شلوار قمیض میں جیبیں ہوتی ہیں حالانکہ تین مہینے کا بچہ جیبوں کو استعمال میں نہیں لا سکتا۔ دوسری جانب تین مہینے کی عمر کی بچی کی قمیض یا پینٹ میں کوئی جیب نہیں ہوتی۔ جنس کے اعتبار سے جیب کے حوالے سے یہ تضاد کیوں روا رکھا جاتا ہے؟ اس کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments