گوادر کا مقدمہ


ناکوچار شمبے کوہ باطل کے دامن میں ساحل کنارے ساحلی ریت میں سیپوں کو یکجا کر کے کہ بچیوں کی مانند پھر سے اسے بکھیر دیتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کو گوادر کی جھلسا دینے گرمی نے کوئلے کی مانند بنا دیا ہے۔

چارشمبے کی عمر ڈھل چکی ہے۔ انہوں نے ادھی سی زیادہ زندگی سمندر کی لہروں سے لڑ کر گزاری۔ لیکن اب وہ انسانی رویوں کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں۔ انسانوں نے ان سے ان کی زندگی یعنی سمندر کو چھین لیا ہے۔ وہ جھریوں سے بھرے ہاتھوں کو ماتھے پر رکھ کر اپنے چہرے کو دھوپ سے بچانے کا ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ان کی آنکھوں کے سامنے جیٹی پر مچھیروں کی کشتیاں کھڑی ہیں۔ جو کئی دنوں سے سمندر کے نیلگوں پانیوں کی آغوش میں سے جانا چاہتے ہیں۔ جس کی انہیں اجازت نہیں مل رہی ہے۔

ان کشتیوں میں ایک کشتی ناکوچارشمبے کی بھی ہے۔ ناکوچارشمبے اپنی کشتی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

ان کی آنکھوں کی ساحل سے ماضی کے وہ دن لہروں کی طرح ٹکرا واپس سمندر میں مدغم ہو جاتے جب وہ اس سمندر کے مالک تھے۔ وہ سمندر کے بے رحم لہروں سے لڑ کر ان کی گود سے ڈھیر ساری مچھلیاں شکار کر کے واپس لوٹتے تھے۔

لیکن اب ایسا نہیں ہے ناکوچارشمبے کی کشتی سمیت گوادر کے مچھیروں کی کشتیاں جیٹی پر یکجا کھڑی ہیں۔ لیکن ان کے ناخدا گوادر میں ایک مقام پر یکجا ہو کر احتجاج کر رہے ہیں کہ ان کو ان کی زندگی سمندر سے جدا نہ کیا جائے کیونکہ سمندر سے ان کی زندگیاں جڑی ہوئی ہیں۔ ان کا روزگار سمندر سے منسلک ہے۔

یاد رہے گوادر کے مقامی افراد بیس سے زائد دن ہو گئے ہیں کہ دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ ان کے سترہ مطالبات ہیں جن میں سب سے اہم مطالبہ مچھیروں کا ہے۔ ان کے مطابق گوادر کے ساحلی حدود میں ٹرالر مافیا جو کہ غیر مقامی ہیں۔ وہ گوادر کے مچھیروں کا استحصال کر رہے ہیں بلکہ وہ سمندر میں سمندری حیات کو بھی ختم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ یہ مافیا بہت طاقتور ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کے دسترس میں نہیں ہے کہ وہ اس مافیا کو شکار کرنے سے روک سکے۔

مچھیروں کے مطابق ٹرالر مافیا کے پاس ایسے جال ہیں۔ جو نہ صرف مچھلیوں کو بڑی تعداد میں پکڑتے ہیں بلکہ وہ اس میں مچھلیوں کے انڈے بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ جس سے سمندر میں مچھلیوں کی افزائش نسل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ جبکہ مقامی ماہی گیروں کے ساتھ ہر سیزن کا اپنا جال ہوتا ہے۔ وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ افزائش نسل متاثر نہ ہو۔

یاد رہے گوادر کے سمندر میں قانون کے تحت بارہ ناٹیکل کی حدود میں شکار کرنے پر پابندی ہے۔ لیکن ٹرالر مافیا اس قانون سے بھی ماورا ہے۔

اس کے ساتھ یہ مافیا مقامی ماہی گیروں کو مارتے ہیں ان کے ساتھ آتشیں اسلحہ ہوتا ہے۔

یاد رہے بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے اسی فیصد مقامی افراد کا روزگار براہ راست سمندر سے وابستہ ہے۔ اب مچھیرے جب سمندر کا رخ کرتے ہیں تو وہ وہاں سے خالی ہاتھ لوٹتے ہیں کیونکہ سمندر میں ٹرالر مافیا نے مچھلیوں کی نسل کشی کافی عرصے سے شروع کر رکھی ہے۔

اس کے ساتھ بیس فیصد مقامی لوگوں کا کاروبار سرحد سے منسلک ہے وہ کاروبار بھی ٹوکن سسٹم کی وجہ سے تباہ حال ہے۔

گوادر چونکہ سی پیک کا اہم حصہ ہے ملک کے نامور معیشت دانوں کے مطابق اس منصوبے سے نہ صرف گوادر کی بلکہ ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ کیا واقعی ایسا ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

سی پیک منصوبہ 46 ارب ڈالر کا ہے اس میں سے 30 ارب ڈالر 2017 سے پہلے خرچ ہوچکے ہیں۔ اور باقی رقم بھی خرچ کے اخری مراحل میں ہے۔

لیکن گوادر کو کیا ملا ہے اس کے بنیادی مسائل حل ہوئے ہیں۔ جواب نفی میں ہو گا کیونکہ گوادر میں پانی کا مسئلہ کئی سالوں سے حل طلب ہے۔ لیکن تاحال اس کے لئے کوئی منصوبہ بندی شروع نہیں کی گئی۔ آج بھی گوادر کے باسی پینے کے پانی کے لئے ترستے ہیں۔

اس کے ساتھ بجلی کا مسئلہ بھی جوں کا توں ہے۔ مکران کے تینوں اضلاع کو بجلی ایران سے ملتی ہے وہ بھی کبھی ہوتی ہے کبھی نہیں افسوس کن امر یہ ہے سی پیک فریم ورک کے مطابق پاکستان اور چین دونوں طرف سے توانائی کی فراہمی کے لئے 16 بڑے منصوبوں کی ترجیحاتی بنیادوں پر پاکستان کے مختلف علاقوں کے لیے شناخت کی گئی ہے۔ ان میں مکران بلوچستان تو ایک طرف مرکزی بندرگاہ شہر گوادر کے علاقوں کے نام بھی شامل نہیں ہیں۔ جبکہ اس فہرست میں بہاولپور، پورٹ قاسم، سائیوال، جھمپیر، تھر، مٹیاری ٹو لاہور ٹرانسمیشن لائن ترجیحی طور پر جگہ پا گئے ہیں۔

بلوچستان کے معروف دانشور شاہ محمد مری نے اس بابت اپنی کتاب بلوچ ساحل اور سمندر میں لکھتے ہیں۔ ”ادھر پاکستان چین کے ساتھ مل کر گوادر کو ترقی دے رہا ہے۔ مگر گوادر کے عوام بے چارے سے کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے اور یہی ہے اصل خرابی کی اصل بنیاد۔“

گوادر کے عوام سے پوچھنا چاہیے ان کے مسائل حل کرنے چاہیے اور یہ پائیدار ترقی کے لئے ناگزیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments