وزیر اعظم اور علما کے بیانات: اصل سوالات حل کئے بغیر مذہبی تشدد روکنا ممکن نہیں


آج دن کے دوران دو اہم واقعات رونما ہوئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ سیالکوٹ سانحہ نے قوم کو بیدار کردیا ہے اور اب وہ اپنی زندگی میں ایسا کوئی واقعہ ملک میں رونما نہیں ہونے دیں گے۔ اس سے پہلے مختلف مکاتیب فکر کے علما پر مشتمل ایک وفد نے اسلام آباد میں پریانتھا کمارا کی دردناک موت پر تعزیت کے لئے سری لنکا کے ہائی کمشنر سے ملاقات کی ۔ علما نے ایک بیان میں 10 دسمبر کو اس سانحہ کے خلاف یوم مذمت منانے کا اعلان کرتے ہوئے اس واقعہ کو اسلام اور شریعت کے خلاف قرار دیا اور ملزموں کو قرار واقعی سزائیں دینے کا مطالبہ کیا۔

یہ دونوں واقعات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں اور مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے ملک میں قابل ذکر تبدیلی لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔ لیکن ابھی تک اس سوال کا جواب سامنے نہیں آیا کہ یہ اہم کام کیسے ممکن ہوگا۔ یہ درست ہے کہ سیالکوٹ کا واقعہ نہایت افسوسناک اور دل ہلا دینے والا تھا اور اس کی وجہ سے ملک بھر کے عوام میں شدید پریشانی اور خوف پایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عوام کی واضح اکثریت اس بات پر بھی متفق ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا آخری واقعہ ثابت نہیں ہوگا۔ جب ملک کا وزیر اعظم اور تمام طبقات فکر کے علما مل کر یہ اعلان کررہے ہیں کہ اس قسم کے تشدد کو قبول نہیں کیا جائے گا اور مستقبل میں ایسا کوئی ظلم دیکھنے میں نہیں آئے گا تو کیا وجہ ہے کہ عوام کی اکثریت اس پر اعتبار کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم اور علمائے کرام اگر اس حوالے سے غور و فکر نہیں کریں گے اور اس سانحہ پر اظہار افسوس اور مذمت کے بعد اسے بھلا کر آگے بڑھ جائیں گے تو حالات جوں کے توں رہیں گے۔

یہ واضح ہونا چاہئے کہ سیالکوٹ کا واقعہ ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ توہین مذہب کے الزامات عائد کرتے ہوئے تشدد سے ہلاک کرنے کے متعدد واقعات اس سے پہلے بھی سرزد ہوچکے ہیں۔ اگر ان واقعات سے یہ قوم ’بیدار‘ نہیں ہوئی اور مذہب کو ہتھیار بنا کر تشدد اور جبر و ستم کا طریقہ ختم نہیں کیا جاسکا تو سیالکوٹ کے واقعہ میں ایسی کون سا انوکھا پہلو ہے کہ اب عوام بیدار ہوجائیں گے اور اب کسی کو ایسا تشدد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ہلاک ہونے والا شخص ایک دوست ملک سے تعلق رکھتا تھا اور حکومت پاکستان اور ملک کے عوام اپنی عالمی شہرت کی حفاظت کے لئے اس رجحان کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے؟ یہ ایک جواز تو ہوسکتا ہے لیکن یہ اتنا ٹھوس اور طاقت ور وجہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ملک میں گزشتہ کئی دہائی سے مذہب کی بنیاد پر ہونے والی سیاست کا رخ موڑا جاسکے۔

پریانتھا کمارا کی ہلاکت کے حوالے سے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس واقعہ پر رد عمل کی ایک وجہ اس وقت سوشل میڈیا تک ہر کس و ناکس کی رسائی ہے ۔ اس واقعہ کی درجنوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوئی ہیں۔ اس تشہیر کی وجہ سے عوام کا غم و غصہ بھی سامنے آیا اور مین اسٹریم میڈیا کے علاوہ وزیر اعظم اور آرمی چیف بھی متحرک دکھائی دیے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ اور مذہبی تشدد کے عوامل پر نگاہ ڈالتے ہوئے یہ کہنے میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہئے کہ ایک واقعہ پر حکومت کے رد عمل سے کوئی بڑی تبدیلی رونما ہونے کا امکان نہیں ہے۔ خاص طور سے اگر حکومت فوری طور سے مذہب کے سیاسی استعمال سے گریز کا عملی مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتی دکھائی نہ دے۔ پریانتھا کمارا کی یاد میں منعقد کی گئی جس تعزیتی نشست میں وزیر اعظم نے مذہب اور توہین رسالت کے نام پر قتل کے رجحان کا قلع قمع کرنے کا اعلان کیا ہے، اسی گفتگو میں وہ اپنا مذہبی سیاسی ایجنڈا بھی پیش کررہے تھے۔ اور یہ ظاہر کررہے تھے گویا ملک کے نوجوانوں کو سیرت رسولﷺ اور اسلام کے پیغام کا علم نہیں ہے جس کی وجہ سے جہالت میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ اب حکومت نے رحمت اللعالمین اتھارٹی بنا کر سیرت نبیؑ کے بارے میں معلومات عام کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس لئے اب ایسی گمراہی دیکھنے میں نہیں آئے گی۔

وزیر اعظم کی یہ دلیل خود اپنے ہی جواز میں بے معنی ہے۔ عمران خان اپنے اسلامی سیاسی ایجنڈے کو فروخت کرنے کے لئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ نسل در نسل مسلمان رہنے والے پاکستانی عوام کو اسلام کے پیغام اور رسول پاکﷺ کی سیرت ، احکامات اور سنت سے آگاہی نہیں ہے۔ اس بیان کی روشنی میں تو یہ سمجھنا چاہئے کہ اب تک ملک میں جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں، ان میں کسی نے بھی اسلام کا پیغام اور رسول پاک کا عفو و رحمت کا طریقہ عام نہیں کیا۔ البتہ عمران خان نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے رحمت اللعالمین اتھارٹی بنائی ہے جو نوجوانوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے گی۔ اس طریقہ سے اگر کوئی سیاسی حکمران اپنی سیاست کو چار چاند لگانے کی کوشش کرے گا تو یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ ملک میں مذہب کے حوالے سے جذباتیت اور کم علمی کا خاتمہ ہوگا اور مستقبل میں دلیل اور حجت کی بنیاد پر ہر کام انجام پانے لگے گا۔

 خود اسی تقریر میں وزیر اعظم نے بلاسفیمی قوانین اور ان کے منفی اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’ملک میں لوگ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کو ہلاک کرتے رہے ہیں۔ اگر کسی پر توہین مذہب کا الزام عائد ہوتا ہے تو وہ شخص جیل میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ کوئی وکیل اس کا مقدمہ لڑنے پر تیار نہیں ہوتا اور کوئی جج اس مقدمہ کو سننے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا۔ ہر شخص خوفزدہ رہتا ہے‘۔ کیا بہتر نہ ہوتا کہ وزیراعظم کو اگر اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ توہین مذہب کے غلط الزام میں لاتعداد لوگ بے گناہی کے باوجود جیلوں میں بند ہیں کیوں کہ ایک ناجائز اور ظالمانہ قانون کی وجہ سے ملک میں ایک ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس قانون کے تحت گرفتاری میں ضمانت نہیں ہوسکتی اور عدالتیں ان مقدمات کو سننے پر آمادہ نہیں ہوتیں ۔ یوں بے گناہ لوگ سال ہا سال تک جیلوں میں حکومت اورسیاسی قیادت کی بے عملی اور بے حسی کی سزا کاٹتے رہتے ہیں۔ کچھ کو قتل کردیاجاتا ہے ، کچھ خود ہی جیل میں راہی عدم ہوجاتے ہیں لیکن جنرل ضیا کے دور کے اس انسان دشمن قانون میں ترمیم کی بات زبان پر نہیں لائی جا سکتی۔

آج کی تقریر میں عمران خان نے جذباتی انداز میں یہ دعویٰ تو کیا ہے کہ’ آئندہ کسی نے بھی اسلام اور نبی کریمؐ کا نام استعمال کرکے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش تو اس کو چھوڑا نہیں جائے گا۔ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ اب اس ملک میں ایسا ظلم سرزد نہ ہو‘۔ اس دعوے کے بعد وزیر اعظم نے اس واقعہ پر بھارتی میڈیا کی رپورٹنگ پر ناراضی کا اظہار تو کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ کسی وجہ سے سہی اگر پریانتھا کمارا کو نہیں بچایا جاسکا تو جو لوگ توہین مذہب و رسالت کے جھوٹے الزامات میں جیلوں میں بند ہیں اور بقول عمران خان جنہیں نہ وکیل میسر آتا ہے اور نہ ہی کوئی جج ان کا مقدمہ سنتا ہے، تو ان کی داد رسی کے لئے حکومت کیا اقدام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال میں مذہب فروخت تو کیا جاسکتا ہے لیکن مظلوم کو انصاف دلانے کے لئے کوئی بھی حکومت کوئی قدم اٹھانے پر تیار نہیں ہوگی۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ عمران خان کی حکومت تحریک لبیک کے دہشت گردوں اور قاتلوں کو قومی مفاد اور امن بحال کرنے کے نام پر معاف کردیتی ہے لیکن توہین مذہب کے جھوٹے الزامات میں غیر معینہ مدت تک قید لوگوں کو ریلیف دینے کی بات زبان پر نہیں لاسکتی۔ ایسا بے بس وزیر اعظم اور ایسی کمزور حکومت کس برتے پر ملک میں مذہبی انتہاپسندی کے خاتمہ کا اعلان کررہی ہے؟

اسی طرح علما کے ایک وفد نے سیالکوٹ واقعہ کی مذمت بھی کی ہے، اسے شریعت کے خلاف بھی کہا ہے اور اس کے خلاف ایک دن وقف کرکے اپنے دکھ و غم کا اظہار کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ لیکن علما یہ بتانے سے قاصر رہے ہیں کہ وہ اس مزاج اور رجحان کو ختم کرنے کے لئے ماحول کیسے سازگار بنائیں گے؟ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ علمائے کرام متفقہ طور سے شرعی قوانین کو ملکی آئین و قانون سے بالادست سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے وہ حکومت کے جس اقدام کو یا عدالت کے جس فیصلہ کو شریعت کی اپنی تفہیم سے متصادم سمجھتے ہوں، اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ کورونا وبا سے بچاؤ کے لئے لاک ڈاؤن کے دوران مساجد کھولنے اور سرکاری پابندیوں کو ماننے سے انکار کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ اس سے پہلے اور بعد میں بھی ایسے حکومتی فیصلوں کو ماننے سے انکار کیا جاتا رہا ہے جنہیں شرعی تفہیم سے متصادم سمجھا جائے۔ گویا ایک قانون آئینی انتظام کے تحت ملک میں نافذ ہے لیکن دوسرا نظام علمائے کرام شرعی وضاحتوں کے ذریعے نافذ کرنے کی جد و جہد کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ہر موقع پر حکومت ہی کو کوئی نام نہاد بیچ کا راستہ نکال کر پسپا ہونا پڑتا ہے۔ جب علمائے کرام ملکی قوانین کے بارے میں ایسا غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کریں گے تو وہ کس منہ سے عوام کو یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ اسلام کے نام پر قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا جاسکتا۔

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو سپریم کورٹ نے سزا دی تھی لیکن ملک کے مولویوں نے اس سزا کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اب اس کے مقبرہ کو حرمت رسولﷺ کی علامت بنادیا گیا ہے۔ اسی طرح توہین مذہب کے مقدمہ میں ملوث کی گئی آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ نے بری کیا تھا لیکن حکومت کو اسے چوری چھپے ملک سے باہر بھیجنا پڑا اور وہی علما جو آج وفد بنا کر سری لنکا کے ہائی کمشنر کو اپنی معتدل مزاجی کا یقین دلارہے تھے، آسیہ بی بی کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور حکومت پر یہ الزام عائد کیاجاتا رہا ہے کہ اس نے ایک گستاخ رسول ؑ کو ملک سے فرار ہونے میں مدد دی۔

مذہب کے ایسے وکیلوں اور مذہبی جذبات کو انگیختہ کرکے سیاسی مقاصد حاصل کرنے والے لیڈروں کے ہوتے ملک کے جذباتی نوجوانوں کے ہجوم کو کیوں کر لاقانونیت اور انسانیت سوز حرکتوں سے روکا جاسکے گا؟ عمران خان کی طرح علمائے کرام بھی جانتے ہیں کہ اس مزاج کو تبدیل کرنے کے لئے جذبات کی آگ بجھانا پڑے گی۔ یہ کام ان دونوں میں سے کسی کے لئے بھی سود مند نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments