سیالکوٹ واقعہ: سوگواری اور شرمندگی کی علامت


لفظ “سیالکوٹ” ایک بار پھر گردش میں ہے، سوگواری اور شرمندگی کی علامت بن کر، اس ہجوم نما قوم کی بے حسی اور تماشہ بینی کی تصویر بن کر۔ ایک اکیلا انسان اور دوسری طرف مشتعل ہجوم، ایک طرف جان بچانے کی کوشش اور دوسری جانب بےحس درندے۔ ایک شخص کو چھت سے کھینچ کر نیچے سڑک کے بیچ لایا جا رہا ہے اور اشتعال زدہ لوگ ڈنڈے، پتھر، لاتیں، کھونسے جس کو جو میسر تھا اس پر برسا رہے ہیں۔ یہاں تلک کہ ظلم و تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے روح جسم کو چھوڑ جاتی ہے۔ مگر لوگوں کا غصہ ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا، غصے کی اس آگ کو بجھانے کیلئے اب اس بے جان سے جسم پر پٹرول چھڑکا جا رہا ہے۔ نہ پولیس پہنچتی ہے نہ ہجوم میں سے کسی کا ضمیر جاگتا ہے اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے اس بے جان جسد کی جگہ راکھ کی ڈھیری لے لیتی ہے۔
یہ واقعہ تو شرمندگی اور بے حسی کی جو مثال ہوا سو ہوا اسکے ساتھ جڑواں شرمندگی یہ کہ یہ سب ایک جم غفیر کے سامنے کھلے عام ہوا لوگ جو اس سب میں ملوث نہیں بھی تھےوہ بھی روکنے یا مزاحمت کرنے کی بجائے اس ظلم کو اپنے اپنے کیمروں میں محفوظ کرنے میں مگن تھے۔ ایک انسانی جان بچانے کیلئے ان لوگوں نے کچھ نہ کیا اور بجائے اس بات پر شرمندہ ہونے کے وہ آگ میں جھلستے اس بد قسمت کے ساتھ سیلفیاں لے کر ویڈیوز بنا کر اپنا چشم دید گواہ ہونے کے ثبوت اکٹھے کرتے رہے۔
اور عین اس وقت کچھ لوگ محبت رسول صل اللہ علیہ وسلم کے نعرے بلند کرتے بھی نظر آئے۔ اس ہجوم کے اندر کس بات کی آگ تھی! آخر کیا بات بات تھی جس نے انھیں اتنا اشتعال دلایا کہ ایک انسان کی جان لے کر بھی ہر سکون نہیں ہوئے؟
کہا گیا کہ اس واقعے کا شکار سری لنکن شہری، راجکو انڈسٹریز کا جنرل مینیجر پریینتھا ڈیاواڈانا، شان مصطفیٰﷺمیں گستاخی کا مرتکب ہوا تو فیکٹری ملازمین اور اردگرد کے لوگ یہ جان کر بےقابو اور مشتعل ہوگئے۔
سوال یہ ہے کہ گستاخی کا کیا ثبوت ہے! عین ممکن ہے غیر ملکی ہونے کی وجہ سے وہ پوسٹر پر لکھی گئی اردو زبان سے نا آشنا ہو اور اگر اس پر گستاخ رسول ہونا ثابت تھا بھی تو اسکو سزا دینا عوام کا کام ہے یا ریاست کا! اور اگر اس ہجوم کے دلوں میں محبت رسولﷺاس قدر پیوست تھی کہ وہ کہ گستاخ رسول کو برداشت نہیں کر سکے تو کیا یہ ہجوم دروس رسولﷺ سے ناواقف ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا، آگ تک لگا دی جبکہ آگ کا عذاب دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
پاکستان کے ایک غیر ملکی کا اس طرح مذہب کا نام پر پرتشدد طریقے سے مارا جانا پاکستان کیلئے حالات کو مزید ناموافق بنا دے گا۔ بین الاقوامی سطح پر اسے اسلام کی تعلیمات پر سوالیہ نشان کی طرح پرکھا جائے گا۔ اسلام پر انتہا پسندوں کا دین اور پاکستان پر انتہا پسند ملک کا ٹیگ لگا کر خوب ڈھول پیٹا جائے گا بلکہ یہ سلسلہ آج کے دی گارڈین اور دیگر اخبارات شروع بھی کر چکے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ناموس رسالت کے قوانین بھی تنقید کی زد میں ہیں۔ اس تمام صورتحال میں پاکستان کا فاٹف کی گرے لسٹ سے نکلنا اور بھی مشکل یا شاید ناممکن ہو جائے اور نتیجہ مزید معاشی بحران۔ اور سری لنکا کے سامنے بحیثیت قوم جو شرمندگی ہے وہ الگ۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments