عظیم سانحات اور ہمارا دوغلا پن


سیالکوٹ میں انتہائی المناک وقوعہ ہوا، بلاسفیمی یا توہینِ مذہب کے الزام میں ایک غیر ملکی باشندے کو انتہائی بدترین تشدد کے بعد جلا دیا گیا۔ بتایا تو یہ بھی جاتا ہے کہ جس وقت اس مظلوم کو جلایا جا رہا تھا اس وقت اس میں زندگی کی ہلکی سی رمق باقی تھی۔

ریسکیو ادارے کے اہلکار اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار موقع پر موجود تھے مگر کسی میں ہمت نہیں ہوئی کہ جا کر اس مظلوم کی جان بچا سکیں۔ شقی القلب قاتلوں کی دیدہ دلیری اور میڈیا کی “ذمہ داری” کا مظاہرہ دیکھیں کہ بعد از جاں سوز واقعہ برسرِ عام لائیو کوریج اور انٹرویوز شروع کر دیے گئے اور ایک نام نہاد صحافی کی جانب سے بہیمانہ ظلم و تشدد اور بربریت کا نشان بننے والے کو ہی کوسا گیا۔
مرنے والا سری لنکن تھا، غیر ملکی باشندہ تھا اس لیے عالمی میڈیا اور وطنِ عزیز کے حکمرانوں کی توجہ کا مرکز بن گیا اور حکومت کو بھی ازالے کیلیے کچھ اقدامات کرنے پڑے تاکہ عالمی سطح پر کچھ بھرم قائم رہے یا بھرم بن جائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس مظلوم سری لنکن باشندے کی جگہ کوئی پاکستانی ہوتا تو کیا حکومت کی طرف سے اسی طرح ہمدردی کا اظہار کیا جاتا۔؟
ہمیں اب یہ دوغلا پن اور منافقت چھوڑ دینی چاہیے۔ عالمی سطح پر ہمارا جو تاثر بن چکا ہے وہ اول نمبر کے بھیک منگوں اور متشددانہ رویوں کے حامل ملک کا ہے۔ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے بنیادی سطحوں پر انقلابی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
مگر مچھ کے آنسو، دکھاوے کی ہمدردی، وکٹم بلیمنگ، دیت کی رقوم کی بندر بانٹ جیسی فرسودہ اور گھسی پٹی سوچ سے آگے نکل کر سوچنا پڑے گا۔ پابلو نرودا کے مطابق جس چوک میں ظلم ہوا ہے اسی چوک میں ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی تو عالمی سطح کے ساتھ ساتھ ملکی و مقامی سطح پر بھی شاید کچھ منفی تاثر زائل ہو سکے۔
یہ تو ایک غیر ملکی تھا، سیالکوٹ جیسے بڑے شہر میں وقوعہ پیش آیا اور سوشل میڈیا و مین سٹریم میڈیا سمیت ہر ایک سطح کے میڈیا نے اس کو بھرپور کوریج دی۔ آپ نے کبھی جنوبی پنجاب کے گاؤں تُرک والہ کا نام سنا ہے؟ کبھی تونسہ کے دور دراز گاؤں جھوک بودو کا نام سنا ہے؟ کبھی آزاد کشمیر کے کسی دور دراز گاوں کا نام سنا ہے؟ اگر خدانخواستہ ان دور افتادہ جگہوں پر ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ گیا تو حکومت کیا کرے گی کہ جب اس تک کوئی اطلاع ہی نہیں پہنچے گی۔
میں ایک بار پھر دہراتا چلوں کہ اس معاملے پر نچلی سطح سے انقلابی اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں تاکہ آئندہ کوئی ملکی یا غیر ملکی اس وحشت بربریت اور جنونیت کا شکار نہ بنے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments