ایک بِلے کی کہانی


مجھے نہیں پتہ بلیوں کے ان رنگوں کو کیا کہا جاتا ہے تاہم یہ جو اورنج سے رنگ کا ہے اسے ہم “جنجر” کہتے ہیں اور جو دوسرا  گرے سا ہے، اس کا نام “مَیلا” ہے.
ابھی اس بات کو ایک سال پورا نہیں گذرا جب یہ ہمارے گھر آئے تھے. جنجر اور اس کا ایک روئی کے گالے ایسا سفید رنگ کا بھائی تھا جسے ہم “ہارنلڈ” کہتے تھے. ان ننھے بلونگڑوں کی ماں منہ میں دبائے انہیں ہمارے گھر لائی تھی اور پچھلے لان میں جہا‌ں گیزر لگا ہے اور ساتھ ہی ایک شکستہ بان والی چارپائی پڑی رہتی ہے، ان کے پیچھے اس نے قیام کیا. بس یہی اوٹ ان کا گھر بن گئی. مولوی عبدالستار کی بات کا اثر شاید انہی چرند، پرند، درند نے لیا ہے. اسی لئے احمق کی تہمت سے بھی محفوظ ہیں.
اُچے محل بناون احمق  تے  خرچن  مال ربانا
موت آوے تے سب کجھ چھڈ کے قبریں کرن ٹھکانا
(مولوی عبدالستار)
 جب تک ماں پاس ہوتی یہ دونوں اس سے لپٹے چُسر چُسر دودھ پیتے رہتے. ماں باہر جاتی تو لان میں بھاگتے پھرتے، شرارتیں کرتے، ایک دوسرے سے لپٹ کے لوٹنیاں کھاتے لیکن جونہی کوئی باہر نکلتا تو ڈر کے واپس اس ٹوٹے بان والی چارپائی کے پیچھے جا چھپتے. دودھ پلا پلا کے کمزوری سے ماں کی ہڈیاں نمایاں ہونے لگی تھیں. پھر ایک پیلے رنگ کا پیالہ اس کے لئے مختص کردیا گیا.
 عالیہ اس میں ڈبل روٹی کا ایک سلائس چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ڈالتیں اور اسے دودھ سے بھر دیتیں، اس سے ماں کو کچھ آسرا ہوجاتا. رفتہ رفتہ ہارنلڈ اور جنجر کچھ بڑے ہوگئے اور کسی قدر خودمختار. گھر سے باہر بھی جانے لگے تاہم تھوڑا گھوم پھر کے واپس آجاتے. اسی دوران ان کی ماں کا آنا جانا موقوف ہوگیا. شاید دو بچوں کی ماں کسی “آشنا” کے ساتھ فرار ہوگئی تھی. بلیوں میں چونکہ صحافی نہیں ہوتے، اس لئے ان کی خبر بھی نہیں چھپتی.
 خیر! اب یہ پیالہ بہ اہتمام بھرا جانے لگا کہ دونوں بھائی ابھی باہر جا کے خوراک تلاش کرنے کے قابل نہ تھے. اسی دوران یہ گرے رنگ والا بھی کہیں سے پھرتا پھراتا آگیا. تھا تو یہ بھی ہارنلڈ اور جنجر کا ہم عمر مگر کسی عاقبت نااندیش باپ کی اولاد. جنجر اور ہارنلڈ کو جو کھانے کے لیے دیا جاتا، یہ جھپٹ کر قبضہ جما لیتا. پہلے خود سیر ہوتا پھر کسی اور کو قریب پھٹکنے دیتا. اور فرینک ایسا کہ آپ چائے کا کپ لے کر لان میں بیٹھے ہیں تو لپک کر آپ کی گود میں گھسنے کی کوشش کرے گا کہ جو بھی کھاتے پیتے ہو مجھے بھی حصہ دو. اس کی انہی عادات کی وجہ سے بچوں نے اسے مَیلے کا خطاب دیا. عادات و حرکات جو مَیلی تھیں. بہر حال رفتہ رفتہ یہ تینوں ہماری روزمرہ کا حصہ بن گئے.
 ہارنلڈ بہت کیوٹ تھا، سفید دودھ ایسی رنگت اور نیلی آنکھیں. خوبصورتی میں جنجر دوسرے نمبر پر تھا. اس وجہ سے بھی تیسرا “مَیلا” کہلایا. ہارنلڈ کو اس کی خوبصورتی لے ڈوبی اور اسے کوئی اٹھا لے گیا.
عالم گیر خان کیف یاد آگئے
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی
 اس شام جنجر بہت ہی اداس تھا. بہرحال اب یہ دو رہ گئے. اس روز سے جنجر کی اٹھکھیلیاں اور شرارتیں موقوف ہوئیں اوروہ بہت سنجیدہ رہنے لگا. ہارنلڈ کو گئے تین ساڑھے تین ماہ ہوگئے مگر اب بھی جنجر کے چہرے سے ہر وقت اداس سی معصومیت ٹپکتی ہے. اِک صوفیانہ سی فیاضی اور بےنیازی اس کے انداز و اطوار کا خاصہ بن چکی ہے. ہوتا یہ ہے کہ شام کو دودھ کا پیالہ جو بھرا ہے تو جنجر آکے پینے لگا، اتنے میں مَیلا آگیا اور پیالے میں منہ دے دیا. جنجر صلح پسندی سے دودھ چھوڑ کر ایک طرف ہوگیا ہے. میلے نے پیٹ بھر لیا تو پھر جنجر نے بچا کھچا پی لیا. کوئی بوٹی ڈالی ہے تو مَیلا دور سے بھاگتا آیا ہے اور جھپٹ کر جنجر کے آگے سے بوٹی اٹھا لے گیا. مجال ہے جنجر کبھی اس کے پیچھے لپکے یا لڑائی کرے.
 موسم میں خنکی گھُلنے لگی تو عالیہ نے ایک کارٹن منگوایا اور اس میں پرانے کپڑے بچھا کر جنجر کے لئے چھوٹا سا گھر بنادیا. یہ گھر پچھلے برآمدے میں واشنگ مشین کی آڑ میں رکھا گیا. فقیر منش جنجر کو ایک ہی شب اس گھر میں سونا میسر ہوا. اگلی صبح میں گیزر چلانے کے لئے باہر نکلا تو جنجر برآمدے کی ایک نکڑ میں سُکڑا پڑا تھا جبکہ اس کے گھر میں مَیلا محوِ خواب تھا. عالیہ کو پتہ چلا تو غصے میں باہر آئیں اور مَیلے کو نکال باہر کیا مگر جنجر کو بھی اس گھر میں نہ سُلا پائیں. جنجر نے کارٹن کے قریب آکر سونگھا اور پرے ہٹ کے بیٹھ گیا، اسے شاید مَیلے کی بو ناگوار گزری ہوگی. اُسی روز ایک اور کارٹن منگوایا گیا اور میرا ایک گرم ٹراؤزر جبری ریٹائر کر کے اس میں بچھایا گیا.
 اگر آپ کبھی عالیہ کو جنجر سے باتیں کرتا سنیں تو لگے گا ماں کسی ننھے شیرخوار سے مخاطب ہے. ہر وقت خاموش خاموش اور لئے دئے رہنے والا جنجر عالیہ کی باتیں غور سے سنتا ہے. آگے سے دھیمے سُروں میں میاؤں بھی کرتا ہے. آنکھوں سے بھی کلام کرتا ہے. عالیہ آواز دے تو مُڑ کے ضرور دیکھتا ہے. موڈ ہو تو پاس چلا آتا ہے نہیں تو ہلکی سی، کیوٹ سی میاؤں کر کے اپنی راہ لیتا ہے. اس کے انداز میں عجیب سی شانِ استغنا ہے. میں نے بلیوں کو ہمیشہ کھانے پر لڑتے دیکھا ہے مگر جنجر الگ مزاج کا ہے. بوٹی ہو، دودھ ہو یا کچھ اور کھانے کی چیز، جب پیش کی جاتی ہے تو اس انداز میں التفات کرتا ہے جس میں کوئی چھچھورا پن یا بےتابی نہیں ہوتی. ایک موٹے منہ والا چھوٹے کتے کے سائز کا بلا بھی اکثر پھرتا پھراتا پچھلے صحن میں نکل آتا ہے. ایسے میں وہ پیالہ جو جنجر اور مَیلے کے دو تین طعام کے لیے کافی ہوتا ہے، وہ موٹے منہ والا بلا ایک ہی ڈیک میں پی جاتا ہے.
 میں کبھی سوچتا ہوں کہ اگر موٹے منہ والے بلے سے پالا پڑ جائے تو کیا صوفی، کیا دنیادار سب کا حق مارا جاتا ہے. مجھے ڈر ہے کہیں موٹے منہ والا بلا جنجر اور مَیلے کو ان کے گھروں سے بےدخل نہ کردے. مگر وہ ایسا نہیں کرے گا کیونکہ دودھ کا پیالہ اسے جنجر اور مَیلے کی وجہ سے ہی تو ملتا ہے. وہ نہ رہے تو موٹے کا دودھ کون دے گا بھلا.

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments