علامہ اقبال: ایک عظیم مردِ خود آگاہ



آج ہم بیسویں صدی کی ایک عظیم شخصیت ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ”رح“ کے یوم پیدائش نو نومبر 1877 کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے آج کا دن اس بلند اقبال کے نام کرتے ہیں جس کی ترنم ریزیاں ایک قریب المرگ قوم کے لئے صدائے قم ثابت ہوئیں اور انہوں نے بعض بے جانوں میں حرکت پیدا کردی۔ کوئی کہتا ہے کہ اقبال شاعر ہے، کوئی اسے حکیم و فلسفی بتاتا ہے، تو کوئی سیاستدان و مدنیات کا علم بردار کہتا ہے۔ اقبال شاعر اس لئے نہیں ہے کہ اس کے کلام میں مروجہ شاعری کے بہت کم عناصر پائے جاتے ہیں، فلسفی اس لئے نہیں ہے کہ وہ تو شک و گمان کا دشمن ہے بلکہ وہ تو ایمان و ایقان پیدا کرنا چاہتا ہے، سیاستدان اس لئے نہیں ہے کہ وہ تو سیاست کے اولین میدان میں ہی ناکام ہو چکا ہے۔ تو کیا وہ ماہر مابعدالطبیعات ہے؟ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اقبال تو وہ مرد خود آگاہ ہے جسے عوام کی زبان میں مسلمان کہا جاتا ہے۔ وہ معروف شاعر، مصنف، مقنن، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی بھی کہا جاتا ہے۔

بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے بڑا کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے الہٰ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ اسی سبب انہیں پاکستان کا نظریاتی باپ اور قومی شاعر کہا جاتا ہے۔ رومی کے سات سو سال بعد اردو زبان کا رومی پیدا ہوا۔ وہی صوفیانہ خیالات اور وہی مذہبی دلچسپی۔ اقبال نے رومی کو پیر رومی بھی کہا ہے۔

اسلام کا یہ فرزند ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوا جب اسلام کی سیاسی قوت مکمل طور پر رو بہ انحطاط ہو چکی تھی۔ مسلمانوں کے قلوب نت نئے صدموں سے پاش پاش ہو رہے تھے، وطنی اور غیر وطنی دشمنوں کی یورشیں ان کے حوصلے پست کرچکی تھیں اور کوئی نہیں تھا جو ان کے خون کو زندگی کی رگوں میں حرکت دے سکے۔

اور پھر قدرت نے اس کام کے لئے سیالکوٹ کے ایک روشن دل فلسفی کا انتخاب کیا اور آج کون ہے جو یہ کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان کی سیاسی جد و جہد کے بڑے بڑے علمبردار اقبال سے متاثر نہیں ہوئے۔ اقبال کو ملت اسلامیہ سے گہرا عشق تھا وہ اسلامی حلقے میں پیدا ہوا اور اسی میں نشو نما پائی، اس کی روح میں سوز عشق اسلامی ہے۔ وہ غیرت، آزادی، حمیت، اور انسانیت کے جوہر کا محافظ ہے۔ وہ تہذیب اسلامی کا محقق و مبلغ ہے۔ اقبال کی شاعری صرف تہذیب سخن اور تزئین اخلاق کا ہی ذریعہ نہیں بنی، وہ اسلامی اخلاق کی جیتی جاگتی تصویر ہے، وہ مومن کی حقیقت سے آشنا اور اس کے رمز کا نکتہ داں ہے۔ بال جبریل میں کہتا ہے :

کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی نہ فقیری
مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلماں
مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الٰہی
ایک اور جگہ کہتا ہے :
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایۂ جبریل امیں بندۂ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن!

کون سا دل ہے جو ان اشعار کو پڑھ کر وفور جوش سے تڑپ نہیں اٹھے گا۔ کتنے قلوب شان مومن پیدا کرنے کی تمنا نہیں کریں گے۔ اقبال کو بانی اسلام احمد مجتبی محمد مصطفی ﷺ سے جو خلوص عشق ہے اس کے اظہار سے الفاظ قاصر ہیں۔ اس کی محبت میں سوز ہے، سوز میں گداز ہے، گداز میں آتش عشق ہے اور وہ اپنے عشق میں ایسا مست جو روز الست سے عشق نبی میں والہانہ بڑھ رہا ہے اور اس عشق کی کیفیت میں ایسا ڈوبا ہے کہ ادراک اس کے جائزے سے قاصر اور نظر متحیر ہے۔ وہ کہتا ہے :

وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل ﷺ جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ

علامہ اقبال کی ہی سیاسی بیداری کے سبب مسلمانوں میں وہ جذبہ پیدا ہوا جس کے تحت غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک الگ خطۂ زمین کی ضرورت محسوس ہوئی اور با الآخر 14 اگست سن 1947 کو برطانوی غلامی سے آزادی کی شکل میں ایک بڑی اسلامی مملکت کا نام ابھرا۔ مملکت خدا داد پاکستان۔ ہم اس عظیم مفکر اسلام اور مصور پاکستان کو سلام پیش کرتے ہیں۔

علامہ اقبال کی ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہوئی پھر بی اے اور 1899 میں ایم اے فلسفہ گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ان کا خاص تعلق پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ سے رہا جو فلسفے کے استاد تھے اور عربی کے بھی فاضل تھے جو اپنی کتاب پریچنگ آف اسلام کے باعث شہرۂ آفاق تھے۔ وہ اقبال کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایسا شاگرد استاد کا معیار فکر بلند کرتا ہے۔ ایسے ہی شفیق استاد کے لئے عقیدت بھرے جذبات کا اظہار اقبال نے نالۂ فراق کے عنوان سے بانگ درا میں کیا اور اس طرح اپنی عقیدت کو بقائے دوام کا لباس پہنایا۔ ایم اے پاس کرنے کے بعد علامہ اقبال اورینٹل کالج لاہور میں عربک اسکالر مقرر ہوئے۔ اسی دوران عارضی طور پر اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی اور فلسفے کے استاد بھی رہے۔ سن 1903 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے جہاں سے سن 1905 میں تین سال کی رخصت لے کر آپ انگلستان چلے گئے۔ انگلستان کا سفر علامہ اقبال کے لئے خود آگہی کا سفر تھا جہاں انہوں نے اعلیٰ ترین یونیورسٹی کیمبرج سے فلسفے میں ماسٹرز اور میونخ یونیورسٹی جرمنی سے ڈاکٹریٹ کیا، جس کے مقالے کا عنوان ”ایران میں مابعد الطبیعات کا ارتقاء“ تھا۔ لندن کے قیام کے دوران لندن یونیورسٹی میں ٹی ڈبلیو آرنلڈ عربی کے پروفیسر تھے وہ چھے ماہ کی چھٹی پر چلے گئے اور انہوں نے اپنی جگہ علامہ اقبال کو عربی کا پروفیسر لگوا دیا جہاں علامہ اقبال نے کیکٹسن ہال میں اسلام پر ایک مشہور لیکچر دیا جو وہاں کے تمام اخبارات میں لفظ بہ لفظ شائع ہوا۔ اور وہیں 1907 میں ایک نظم لکھی جس میں یورپ کی بے اساسی کے علاوہ اسلام کے درخشاں مستقبل کا اظہار کیا اس میں آپ نے فرمایا:

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا

رہنمائی ملت کا جو مقام اس بلند اقبال کے لئے روز ازل سے مقرر ہو چکا تھا یہ اس کی ابتدائی جھلک تھی۔ علامہ اقبال کی قومی اور ملی نظموں میں ”شمع اور شاعر“ ، ”خضر راہ“ ، ”طلوع اسلام“ اور ”شکوہ“ شامل ہیں۔ ”شکوہ“ وہ نظم ہے جس نے اقبال کا اقبال بلند کیا جس پر انہیں مسلم ائمہ کی جانب سے بڑی ناراضی برداشت کرنی پڑی، ان پر کافر ہونے کا الزام بھی لگایا گیا لیکن جب انہوں نے ”جواب شکوہ“ لکھا تو وہ ایک بار پھر مسلم ہیروز میں شمار کیے جانے لگے۔ سن 1915 میں آپ کی مثنوی ”اسرار خودی“ شائع ہوئی جو ان کی خاص تعلیمات کا پہلا جامع اور منظم مرقع تھی۔ تین سال بعد ”رموز بے خودی“ منظر عام پر آئی۔ ایک فلسفی ہونے کی حیثیت سے علامہ اقبال کا فلسفۂ خودی اپنی نوعیت کا ایک ایسا فلسفہ تھا جو کسی اور شخص نے اتنی وضاحت سے بیان نہیں کیا تھا۔ لفظ خودی سے اقبال کی مراد قوت نفس اور رفعت روح تھی۔ خودی کا کمال یہ ہے کہ احکام الٰہی اس میں بدرجۂ اتم سرایت کر جائیں۔ اقبال کا خاص مضمون خودی کی معرفت اور تکمیل ہے۔ عرفان ذات الٰہی کی طرف راستہ کھلنے کا مضمون کافی پرانا تھا۔ اقبال نے اس کی تشریح و توضیح کچھ اس طرح بیان کی جو اس سے قبل کہیں نظر نہیں آتی:

خودی کا سر نہاں لا الٰہ الا اللہ
خودی ہے تیغ، فساں لا الٰہ الا اللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الٰہ الا اللہ

خودی کے علاوہ اقبال کا خاص مضمون عشق ہے جو ان کے نزدیک ملکۂ خلاقی ہے۔ منطقی عقل کے مقابلے میں عشق ہی حقیقی معرفت کا سرچشمہ ہے۔ صوفیانہ حکمت و وجدان کا یہ مضمون بھی پرانا تھا۔ اقبال کے دل و دماغ اور شاعری کے کمال نے اس میں غیر معمولی وسعت، تازگی اور گہرائی پیدا کردی۔

افکار کے لحاظ سے اقبال ملت اسلامیہ کے عظیم ترین رہنماؤں میں شمار ہونے کے حقدار ہیں۔ ان کے افکار و تاثرات مسلمانوں کے شعور اور تحت الشعور میں جاگزیں ہیں۔ انہیں جمود سے نکال کر حریت و تحقیق کے راستے پر ڈالنے میں جتنی کامیابی اقبال کو ہوئی وہ ان کے معاصرین میں کسی مفکر و رہنما کو حاصل نہیں ہوئی۔ ان کا اثر پاک و ہند سے نکل کر افغانستان اور ایران کے علاوہ عربی اور فرنگی دنیا تک پہنچ چکا ہے۔ وہ ان شخصیات میں شمار ہوتے ہیں جو صدیوں کے بعد بھی فضائے انسانیت کو منور کرتی ہے۔ اکیس اپریل سن 1938 کی صبح طلوع آفتاب سے کچھ قبل علم و حکمت اسلامی کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ بادشاہی مسجد لاہور کے بیرونی احاطے میں صدر دروازے کے قریب انہیں سپرد خاک کیا گیا اور اس پر ایک خوبصورت مقبرہ تعمیر ہوا، جس کا تعویذ حکومت افغانستان نے تین لاکھ روپے کے صرف سے تیار کرا کے بطور خراج عقیدت بھیجا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments