لاہور کا ضمنی الیکشن اور پیپلز پارٹی کی تجدید


قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 133 میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماء ملک پرویز کی وفات کے بعد خالی ہونے والی نشست پر ضمنی معرکہ میں مسلم لیگ (ن) کی شائستہ پرویز ملک نے تقریباً 46811 ووٹ حاصل کرتے ہوئے کامیابی اپنے نام کی جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل 32313 ووٹ حاصل کر کے مذکورہ الیکشن میں رنر اپ رہے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار جمشید اقبال چیمہ اور مسرت چیمہ کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے بعد یہ عام خیال تھا کہ اب مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو اس سیاسی حلقہ سے جیتنے میں کوئی بڑی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور نتیجہ بھی توقعات کے عین مطابق ہی برآمد ہوا۔

لیکن ایک چیز حیران کن ہے کہ لاہور کے سب سے بڑے سیاسی حلقہ میں مایوس کن ٹرن آؤٹ رہنے کے باوجود پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ 2018 کے عام انتخابات میں اسلم گل نے صرف 5500 ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس بارے انتہائی دلچسپ تبصرے دیکھنے اور پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کا امیدوار نہ ہونے اور عوامی تحریک کی خاموش حمایت کی بدولت پیپلز پارٹی کا امیدوار 32 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا جبکہ پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ لاہور کے حلقہ میں اسلم گل کو پڑنے والا ووٹ پارٹی کے لئے آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے۔

ان کی یہ بات کسی حد تک بجا بھی ہے کیونکہ 32313 ووٹ تیر کے نکلے ہیں اور ریکارڈ میں بھی تیر کے ہی شمار کیے جائیں گے باقی سب فالتو باتیں ہیں۔ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونا اور پارٹیوں کی خاموش حامی یہ سب سیاست اور جمہوریت کا حسن ہیں۔ اگر ماضی قریب میں نظر دوڑائی جائے تو 2008 تک پیپلز پارٹی کی حیثیت اور مضبوطی ملک کے چاروں صوبوں میں واضح طور پر نظر آتی تھی۔ بی بی رانی کی شہادت کے بعد پی پی پی الیکشن جیت کر مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب تو ہو گئی مگر بعد میں صوبہ سندھ تک ہی محدود ہوتی چلی گئی۔

پی پی پی کی سیاسی تنزلی کی وجہ سے ملک میں ایک سیاسی خلا بن گیا تھا جس کا تحریک انصاف نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے پر کیا۔ 2002 کے عام انتخابات میں صرف ایک نشست جیتنے والی تحریک انصاف نے 2013 میں خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کے ساتھ ساتھ مرکز میں 35 سیٹیں حاصل کیں اور 2018 کے عام انتخابات کے نتائج ابھی تک سب کے سامنے ہیں اور پوری قوم بھگت رہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کی کارگردگی اور پالیسیوں نے ایک بار پھرسے ملک کے اندر سیاسی خلا واضح کر دیا ہے۔

لاہور کے ضمنی الیکشن میں تسلی بخش کارکردگی کے بعد پیپلز پارٹی کے پاس ایک بہترین موقع ہے کہ وہ دوبارہ سے خود کو عوامی سطح پر بحال کرسکے۔ پنجاب، پاکستان کی پارلیمانی سیاست کی ایک بہت بڑی حقیقت ہے اور یہاں پر ابھی بھی میاں محمد نواز شریف کی حیثیت ایک مرکز کی ہے۔ جس طرح ماضی میں ”بھٹو“ اور ”اینٹی بھٹو“ کی بنیاد پر سیاست کی تقسیم تھی۔ اسی طرح اب شمالی و مرکزی پنجاب میں یہ فلسفہ ”نواز“ اور ”اینٹی نواز“ ہو چکا ہے۔

اس بات کو کسی صورت بھی رد نہیں جا سکتا کہ عمران خان کی مقبولیت میں جہاں اور عنصر شامل تھے، وہاں ایک بڑی وجہ آصف علی زرداری کی مفاہمت کی سیاست بھی تھی۔ پی پی پی اپنی پیدائش سے ہی بائیں بازو کی مزاحمتی سیاست کا استعارہ رہی، اور جیالوں کو زرداری صاحب کی مفاہمانہ سیاست بالکل بھی سمجھ نہ آ سکی، جب کہ دوسری طرف ان کو ایک پرجوش کرکٹر جس کی عمومی شہرت ایک ایمان دار اور صاف گو شخصیت کی تھی، اور وہ مخالفین خاص کر میاں نواز شریف کو کھلے عام للکارتا، تو پی پی پی کے کارکنان کو اس میں بھٹو کی جھلک نظر آنے لگی۔

یوں شمالی اور جنوبی پنجاب میں عموماً جیالوں کی ایک بڑی کھیپ پی ٹی آئی کی جانب رخ کر گئی۔ اصل میں پی پی پی کے کارکنوں کا شروع سے ہی ایک مسئلہ رہا ہے اور وہ ہے ”عزت نفس۔“ باقی ان کی قیادت پر کیا الزامات ہیں؟ ان کی جماعت کی حکومت میں ہوتے ہوئے گورننس کیسی ہے؟ یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید پر مخالفین کی جانب سے کئی طرح کے الزامات لگائے گئے، لیکن جیالوں کی ہمدردیاں اور وفاداریاں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود کم نہیں ہو سکی تھیں۔

میرا دعویٰ ہے کہ اگر آج پیپلز پارٹی مفاہمانہ سیاست سے نکل کر اپنی حقیقی سیاست کا دوبارہ اجرا کردے اور کارکنان کو وہی عزت و مقام دے جو ماضی میں دیا جاتا تھا تو بہت جلد شمالی پنجاب، خیبر پختون خواہ اور سرائیکی وسیب میں ایک دفعہ پھر 70 والی نہ سہی مگر 88 والا عروج حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی۔ کسی دور میں پیپلز پارٹی کے اسمبلی ممبر اور غریب جیالے کی پارٹی میں حیثیت بالکل برابر تصور کی جاتی تھی۔

پی پی پی کا تو خمیر ہی ”روٹی، کپڑا اور مکان“ کے نعرے سے نکلا ہے اور ماضی میں اس کا اول و آخر بھی صرف اور صرف غریب عوام ہی رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے شاید کچھ زمینی مجبوریاں اور بی بی رانی کی اچانک شہادت کی وجہ سے پی پی پی کچھ بنیادی سمجھوتوں پر مجبور ہو گئی کہ جس کا سیاسی خمیازہ اس کو کافی زیادہ بھگتنا پڑا۔ 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن اس بات کا واضح ثبوت ہے، لیکن این اے 133 لاہور کے ضمنی الیکشن کے بعد سیاسی حالات پھر سے کروٹ لیتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔

اگر پارٹی کو یونین کونسل کی سطح سے ازسرنو منظم کرنے کی کوشش کی جائے تو پیپلز پارٹی ایک بار پھر ملکی سیاست میں اپنی شان دار اور باوقار واپسی کو یقینی بنا سکتی ہے۔ اب پیپلز پارٹی کی ہر سطح کی قیادت خواہ مرکزی ہو، صوبائی ہو، ضلعی ہو، حتی کہ تحصیل کی حد تک ہو پر یہ لازم ہے کہ وہ ایک بار پھر سے تمام تر توجہ رکنیت سازی پر دے، کارکنان سے براہ راست رابطہ رکھے، عہدیداروں اور ذمہ داروں کا تعین قابلیت اور محنت کی بنیاد پر کیا جائے، جیالوں کی عزت نفس کو بحال کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور کارکنان کی محنت اور قربانیوں کو سراہا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پیپلز پارٹی ایک بار پھر سے چاروں صوبوں کی زنجیر نہ بن سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments