چکنائی کھانا آپ کی صحت کے لیے اچھا ہے


جی ہاں! آپ کی آنکھوں نے آپ کو دھوکا نہیں دیا ہے۔ اس تحریر کا یہی عنوان ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ زیادہ چکنائی کا استعمال آپ کے خون میں چکنائی کی سطح بلند کر دیتا ہے۔ آپ کی شریانوں میں چکنائی جم جاتی ہے جس سے خون کا بہاؤ تنگی کا شکار ہوتا ہے اور دل پر دباؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس سے فالج اور دل کی دیگر بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی موٹاپے سے لاحق ہونے والی دیگر جسمانی پیچیدگیاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ذیابیطس، سرطان اور دیگر بہت سی بیماریوں کے لاحق ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

لیکن مختلف تحقیقات سے یہ پتا چلا ہے کہ یہ امراض چکنائی کی قسم کی وجہ سے لاحق ہوتے ہیں نہ کہ مقدار کی وجہ سے۔ خاص طور پر فالج کے معاملے میں۔

اب امریکی انجمن برائے امراض قلب (امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن) میں پیش کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پودوں سے حاصل کی گئی چکنائی کا استعمال فالج کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ محققین نے دریافت کیا کہ وہ لوگ جو پودوں سے حاصل کی گئی چکنائی استعمال کرتے ہیں، ان کو فالج ہونے کا خطرہ بارہ فیصد کم ہوتا ہے۔

دوسری طرف محققین نے دریافت کیا کہ وہ لوگ جو جانوروں سے حاصل کی گئی چکنائی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، ان کو فالج ہونے کا خطرہ سولہ فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

”ہماری تحقیق نے دریافت کیا کہ امراض قلب اور فالج سے بچاؤ میں چکنائی کی قسم اور اسے حاصل کرنے کے ذرائع زیادہ اہم ہیں، بجائے چکنائی کی مجموعی مقدار کے مقابلے میں“ ۔ اس تحقیق کے مصنف فینگ لائی وینگ نے بتایا جو کہ جامعہ ہاورڈ کے ”ٹی ایچ چین سکول آف پبلک ہیلتھ“ کے شعبۂ خوراک میں تحقیق کر رہے ہیں۔

یہ تحقیق دیکھا جائے تو ایک اور حقیقت کی تصدیق کرتی ہے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے چکنائی بہت ضروری ہے۔ چر بی کی وجہ سے خوراک سے حاصل شدہ ضروری حیاتین (وٹامنز) جزو بدن ہو پاتے ہیں۔ چکنائی کی وجہ سے آپ کے جسم کو طاقت اور چستی فراہم کرنے اور دیگر اہم امور انجام دینے والے ہارمونز کا نظام چل پاتا ہے۔ جس سے جسم میں نئے خلیے بنتے ہیں اور آپ کو توانائی حاصل ہوتی ہے۔ جسم کو گرم رکھنے کا نظام (تھائی رائیڈ) بھی چکنائی کو جلاء کر آپ کو گرم رکھتا ہے۔

لیکن یہ سبزیوں، چربیلی مچھلی اور اخروٹ و مونگ پھلی وغیرہ سے ملنے والی غیر سیر شدہ چکنائی ہوتی جو آپ کو صحت مند رکھتے ہوئے خون میں چکنائی کی مقدار کو بڑھنے نہیں دیتی ہے۔

”تو پودوں سے حاصل شدہ چکنائی کے بڑے ذرائع یہ ہیں۔“ ایلس لچٹسٹین نے جو بوسٹن میں واقع جامعہ ٹفٹ کے قلب اور شریانوں کی صحت کے مرکز میں تحقیق کی نگران اور سربراہ ہیں، بتاتی ہیں ”یہ سبزیوں اور پودوں سے حاصل کردہ تیل ہیں جیسے کہ مکئی کا تیل، سورج مکھی کا تیل، اور سویابین سے حاصل کردہ تیل ہیں جو پولی ان سیچوریٹڈ چکنائی سے بھرپور ہوتے ہیں اور پھر کینولا اور زیتون سے حاصل شدہ تیل ہوتے ہیں جو کہ مونو ان سیچوریٹڈ چکنائی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ کھانوں میں اس قسم کی چکنائی کا استعمال ہونا چاہیے۔“ ایلس نے بتایا۔ وہ اس تحقیق میں شامل نہیں تھیں۔

جبکہ سیر شدہ (سیچوریٹڈ) اور ٹرانس چکنائی صحت کے لیے بہتر نہیں جانی جاتی۔ سیر شدہ چکنائی سرخ گوشت اور اس گوشت سے کارخانوں میں تیار کردہ خوراک سے حاصل ہوتی ہے۔ اس تحقیق میں سرخ گوشت سے مراد تھی، گائے یا بھینس کا گوشت، سؤر، بھیڑ اور تیار شدہ گوشت جیسے کہ بیکن، ساسیجز، بلونگا، ہاٹ ڈاگز، سلامی اور اس طرح کے دیگر کارخانوں میں تیار کیے گئے گوشت کی اقسام تھیں۔

”سرخ اور تیار شدہ گوشت کو کھانے کی مقدار میانہ روی پر برقرار رکھ کے امراض قلب سے اموات کی شرح چودہ فیصد، سرطان سے اموات کی شرح گیارہ فیصد اور ذیابیطس قسم دوم سے اموات کی شرح چوبیس فیصد تک کم کی جا سکتی ہیں جن سے اموات کی مجموعی تعداد تیرہ فیصد تک کم ہو سکتی ہے“ ۔ یہ بات ہاورڈ ٹی ایچ سکول آف پبلک ہیلتھ کے ڈاکٹر فرینک ہو نے سی این این کو بتائی۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیری مصنوعات جیسے کہ دہی، دودھ، مکھن اور چیز وغیرہ سے حاصل شدہ چکنائی سے فالج یا امراض قلب کے بڑھنے کا کوئی خطرہ نہیں دیکھا گیا۔ اس حوالے سے ماہرین غذائیات میں بحث جاری ہے کہ ڈیری مصنوعات کے استعمال کی زیادہ سے زیادہ محفوظ حد کیا ہے۔ امریکہ کے محکمہ زراعت نے ستائیس سالوں سے جاری رہنے والے ایک جائزے جس میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد نرسوں اور طبی عملے نے مریضوں سے ان کی خوراک کے معمولات پوچھے گئے تھے۔ نے تجویز کیا ہے کہ ان اشیاء کو روزانہ دو سو گرام تک استعمال کیا جائے

”یہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ سب سے اہم چیز خوراک میں میانہ روی اختیار کرنا ہے۔ صحت مند وزن برقرار رکھ کر اور اعتدال پسندی اختیار کر کے اور نمک و چینی کو خوراک میں کم کر کے بہت سی بیماریوں اور پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ اور ہمیں اپنی خوراک کے انتخاب میں اسی میانہ روی کی ضرورت ہے۔“ ایلس نے بات ختم کرتے ہوئے تبصرہ کیا۔

نمک اور چینی کا استعمال کم رکھیں اور صرف وہ افراد جو سخت محنت و مشقت کا کام کرتے ہیں وہ اپنے جسم میں نمکیات و شکر کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے چینی و نمک کو بڑھا سکتے ہیں لیکن وہ لوگ جو کوئی محنت و مشقت نہیں کرتے انہیں ان کا استعمال کم سے کم کرنا چاہیے۔

مصنف: دانش علی انجم ماخذ: سی این این


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments