زمانہ بدلا پر خطبہ نہ بدلا


گھروں میں گھر وہ گھر جس میں ہم بچے سے بڑے ہوئے مسجد کے زیر سایہ تھا۔ جب ہم بچے تھے تو مسجد کچی اور گھر سے کافی فاصلے پر تھی۔ جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے مسجد کا دامن پھیلتا گیا اور وہ ہمارے گھر سے قریب آتی گئی یوں ہمیں مسجد کے زیر سایہ بندہ کمینہ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔

بچپن سے بڑے ہونے تک اور مسجد کا دامن وسیع ہونے تک ہم نے کیا کیا نہ دیکھا ایک وقت تھا کچھ باتیں سمجھ نہ آتی تھیں پھر نہ صرف سمجھ آنے لگیں ہم تبصرے اور تنقید بھی کرنے لگے۔

مسجد میں امام اور موذن آتے جاتے رہتے تھے۔ موذن ہونے کا فرض تو خیر کوئی بھی شریف النفس ادا کر دیا کرتا تھا امامت کا سلسلہ ذرا گمبھیر تھا سو امام آتے جاتے رہتے تھے۔ سیکنڈری اسکول میں تھے تو ایک خوش الحان، سین، شین، قاف، کاف میں طاق امام صاحب تشریف لائے اور اپنی خوش الحانی مسلک اور عقیدے سمیت چھا گئے۔

ہر جمعرات کو رات بارہ بجے تک نعتوں اور اللہ ہو کے نعروں کا سلسلہ چلتا پھر سامعین، ناظرین، حاضرین کی تواضع زردہ پلاؤ، قورمہ روٹی جیسی سوغاتوں سے کی جاتی۔ آدھی رات گزرنے کے بعد پیٹ بھرے لوگ چاولوں، بوٹیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے گزرتے اور ہم میں سے جو جاگ رہا ہوتا ان تبصروں، فقروں سے مستفید ہوتا اور صبح سویرے ناشتے کرتے ہوئے کانوں سنا احوال سناتا۔

تب ہی ایک دن چھوٹی بہن نے اسکول سے آ کے پوچھا ”پا پا وہابی کون ہوتے ہیں؟“

امی نے چونک کے دیکھا، پاپا نے پوچھا کہاں سے سنا؟ تایا نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا ”باہر کسی سے سنا ہو گا“

بہن نے باری باری تینوں کی طرف دیکھا اور آہستہ سے کہا ”ٹیچر نے پڑھاتے ہوئے مجھ سے کہا تم تو وہابی ہونا“ ۔ یہ سن کر پاپا کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو گئیں اور انھوں نے امی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا صبح اسکول جائیں اور ٹیچر سے پوچھیں اس نے بچے سے یہ سوال کیوں کیا؟

گو کہ اس بات کو پچاس سال سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ہمارے گھر میں اس وقت بھی امی پاپا اسکول جا کے اساتذہ سے تعلیمی سر گرمیوں کی رپورٹ لینے کے علاوہ اور بھی بہت پوچھ گاچھ کرتے تھے۔ جس کے نتیجے میں بیشتر اساتذہ ہمیں بہت خائف نظروں سے دیکھتی تھیں۔

اگلے دن امی گئیں اور ٹیچر سمیت ہیڈ مسٹریس سے بھی بات کر کے آئیں۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ وہ ٹیچر بھی اسی علاقے میں رہتی تھیں اور کیونکہ ہمارے گھر سے کوئی فرد مسجد کے اس فیض عام سے فیض حاصل نہیں کرتا تھا سو اہل علاقہ نے ہمیں وہابی قرار دے دیا تھا۔ وہابی کی اصل تشریح تو ہمیں برسوں بعد شاید یونیورسٹی میں آ کے پتہ چلی۔

مسجد کے زیر سایہ بندہ کمینہ ہونے کے سبب جمعہ کا خطبہ گھر بیٹھے ایسے سنتے تھے جیسے مسجد کے صحن میں بیٹھے ہوں۔ سال میں جتنے بھی جمعہ آتے، عید بقرعید آتی یعنی جب جب امام صاحب کو خطبہ دینے یا لوگوں کے روبرو بات کرنے کا موقع ملتا۔ ان کا خطبہ عورتوں کی بے حیائی بے شرمی سے شروع ہوتا ہوا جنت دوزخ پے آ کے ختم ہوجاتا۔

ایک جمعہ اگر عورتوں کو مہین کپڑے پہننے، سر کھلا رکھنے پر لعن طعن کیا جاتا تو دوسرے جمعہ کو شوہروں کی نافرمانی پر برا بھلا کہا جاتا۔ جس جمعہ کو جنت میں دودھ شہد کی نہروں اور انگور کے باغات کا تذکرہ ہوتا تو ساتھ ہی دوزخ کی آگ، اس میں بہتی پیپ اور بہت ساری خوفناک چیزیں ضرور یاد دلائی جاتیں۔ جنت کے تذکرے میں ٹھنڈی ہواؤں، کہکشاؤں اور دیگر باتوں کے ساتھ حوروں کا نام بھی آتا جو مسجد میں بیٹھے حضرات کے لئے دیدہ دل فرش راہ کیے بیٹھی ہوتیں۔ لیکن کسی جمعہ بھی عورتوں کے لئے کچھ اچھا نہ کہا جاتا۔ بہت ہوتا تو انھیں مردوں کی کھیتی اور ان کا لباس قرار دے دیا جاتا۔

کبھی کبھی امام صاحب موڈ میں ہوتے تو ان کی سیاسی رگ پھڑک اٹھتی تو فلسطین پر اسرائیلیوں کے قبضے، اور پاکستان کے دو لخت ہونے جیسے موضوعات پر بھی بات کر لیتے۔ وہ باتیں کچھ یوں ہوتیں۔ ”عورتوں کی بے حیائی، چست لباس، اونٹ کے کوہان جیسے بال بنانے، ہونٹوں کو دنداسے کے بجائے لالی سے رنگنے اور اونچی ہیل کے جوتے پہننے کی وجہ سے شکست اور شرمساری دیکھنی پڑی ہے۔

یہ سنتے سنتے ہم بڑے ہوتے گئے حتی کہ ہمارے ذہن نے خود سے جواب تلاش کرنا شروع کر دیے، دلائل تیار کرنے لگا، پاپا تایا سے سوال جواب کرنے لگا، اکثر ہماری بحث اس بات پر ہونے لگی کہ خطبہ میں صرف عورتوں کو برا بھلا کیوں کہا جاتا ہے؟ کیا دنیا کی ساری برائیوں کا سبب عورت ہے؟ مرد تو قاتل، زانی، شرابی جواری نہ جانے کیا کیا کرتا ہے؟ کیا جنت صرف مردوں کے لئے ہے وغیرہ وغیرہ؟

سوالوں کے جواب میں پاپا خاموش رہتے البتہ تایا کچھ نہ کچھ ضرور کہتے، جس میں مسجد کے اماموں کی کم علمی، ان کا پس منظر اور دیگر علوم سے بے بہرہ ہونا شامل ہوتا۔ بحیثیت بندہ کمینہ ہونے کے ہم مزید کچھ کہتے اور بات بہت دور تک جاتی۔

اس دوران ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ مسجد کے امام یا قاری صاحب نے ہمارے پاپا تایا سے سلام دعا بڑھا لی اور آتے جاتے ہماری امی کو بھی بھابھی کہہ کے سلام کرنے لگے۔

ایک دن انھوں نے جھجکتے ہوئے کہا کہ ان کے قرآن حافظ بیٹے کو ہمارے گھر میں کوئی ٹیوشن پڑھا دے کہ اس کا حساب کتاب اور انگریزی بہت کمزور ہے۔ ہمیشہ کی دریا دل امی نے فوراً کہا ٹیوشن کی کیا بات ہے۔ ہمارے گھر آئے اور سارے بچوں کے ساتھ بیٹھ کے پڑھے۔ وہ تو پڑھنے کو آئے سو آئے امی نے کہہ سن کے ان کی جواں سال صاحبزادی کو بھی راہ پے لگا لیا۔ امی نے اس کو پہلے گھر میں پڑھایا پھر خود ساتھ لے جا کے اسکول میں داخل کیا۔

امام صاحب کے بچے اسکول کالج جانے لگے تو ہمارا بھی حوصلہ بڑھا اور ہم نے ان سے بھی سوال جواب شروع کر دیے تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کے پاس کسی بات کا جواب نہ ہوتا۔ صاحبزادی منہ نیچے کیے مسکراتی رہتیں البتہ سرمہ بھری آنکھوں والے صاحبزادے منہ میں دبے پان کو ادھر سے ادھر کرتے ہوئے کہتے ابا سے پوچھیں نا، ہم تو جنت دوزخ کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ہیں۔

وقت آگے کی جانب بڑھتا رہا اور مسجد کے عملی موضوعات میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

ہم گھر کی چھت سے مسجد کے صحن میں ہونے والی تمام عملی کلاسوں کا نظارہ کرتے رہے۔ ظہر اور عصر کی نماز کے درمیانی وقفے میں مسجد کا صحن رنگ برنگی عورتوں ان کے بچوں اور نوعمر لڑکیوں سے بھر جاتا۔ بچوں کی نظریں پھونکوں اور دھاگے باندھ کے اتاری جاتیں اور لڑکیوں کے جن بھوت بالوں کو پکڑ کے یا ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان پنسل، چھڑی دبا کے اتارے جاتے۔ لڑکیاں چیختی چلاتیں، صحن میں لوٹیں لگاتیں اور کچھ دیر بعد اٹھ کے پھونکے پانی کی بوتل پکڑ کے چل پڑتیں۔ صحن مسجد میں ایک ڈبہ رکھا ہوتا جس میں ہر آنے جانے والا حسب توفیق کچھ نہ کچھ ڈال کے جاتا۔ یہ ساری کارروائیاں امام صاحب کے نائبین یا یہ کہہ لیں کہ مستقبل کے زیر تربیت امام کرتے۔

عصر اور مغرب کے وقفہ نماز میں امام صاحب خود اپنی بیٹھک میں جلوہ افروز ہوتے اور خاص خاص لوگوں کو جھاڑ پھونک سے نوازتے جبکہ بعد مغرب بہت ہی خاص الخاص کا درد بانٹتے۔

ہم اسکول کالج یونیورسٹی سے ہوتے ہوئے عملی زندگی میں داخل ہو گئے۔ ہمارے اطراف بہت کچھ بدل گیا۔ کچی پکی مسجد زمین پر قبضہ کرتے کرتے ہمارے گھر تک آ گئی۔ امام صاحب کے معتقدین کی نظر کرم نے مسجد کی شکل بدل ڈالی۔ اس کے مینار اونچے ہوتے ہوتے چار منزلہ گھروں سے اوپر نکل گئے اس کا گنبد بڑھتے بڑھتے اسی گز کے گھر سے بھی بڑا ہو گیا۔ مسجد کا کونا کونا دبیز قالینوں میں ڈھک گیا پنکھوں اور فانوسوں سے بھر گیا۔ مسجد سے منسلک امام صاحب کے لئے دو منزلہ رہائشگاہ تعمیر ہو گئی، ان کے شوق کو دیکھتے ہوئے ایک چڑیا گھر بن گیا۔ خالص دودھ کی فراہمی کے لئے گائے بھینسیں بکریاں باندھ دی گئیں۔ ان کا دودھ امام صاحب کا ذریعہ آمدنی بن گیا اور جمعرات کا لنگر کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔

مسجد کی تربیت گاہ سے نکلنے والے جونئیر اماموں نے مختلف نمازوں کی امامت سنبھال لی اور کچھ آگے نکل گئے۔

لیکن۔

نہ بدلا تو جمعہ کا خطبہ اور ہمارے ذہن میں کلبلاتے وہ سوال جو ہم امام مسجد سے کرنا چاہتے تھے اور جسے ہمارے والدین نے پاس ادب کے پیش نظر کرنے کی اجازت نہ دی۔

ہم پوچھنا چاہتے تھے امام صاحب آپ خطبہ میں سچ بولنے، سادگی صفائی، ایمان داری، رواداری، پاسداری، دیانتداری، ناپ تول کو درست رکھنے، محبت اخوت، برداشت کا درس کیوں نہیں دیتے؟

آپ لوگوں کو ان کے منہ ناک کی غلاظت سڑکوں پے پھینکنے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ آپ انھیں مٹی کے ڈلے کا استعمال تو بتاتے ہیں لیکن یہ کیوں نہیں بتاتے کہ سڑک کنارے رفع حاجت غلیظ فعل ہے؟ گفتگو میں اپنی ماں بہنوں کو مغلظات سے نوازنا بہت شرم کی بات ہے؟ اپنے جسمانی اعضاء کو سڑک کنارے کھول کے کھڑا ہوجانا اور آتی جاتی بچیوں، لڑکیوں، مستورات کو اشارے کرنا انتہائی بد فعلی کے زمرے میں آتا ہے؟ لڑکوں کا لڑکوں کے گلے لگنا اور کئی کئی منٹ تک ایک دوسرے کو چمٹائے رکھنا بھی بد اخلاقی ہے؟

آپ انھیں جذبات پے ضبط کا درس کیوں نہیں دیتے؟ آپ انھیں کیوں نہیں کہتے کہ محض نمازیں پڑھنے یا تسبیاں گھمانے سے جنت اور اس کی حوریں نہیں ملتیں اگر ان کے دیگر اعمال اچھے نہ ہوئے؟ جنت کسی کی جاگیر نہیں؟ اور ہمارا مذہب تو زندگی گزارنے کے قوانین کا مجموعہ ہے؟ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ پانچوں انگلیاں برابر ہوں نہ ہوں لیکن انسان سب برابر ہیں؟ جنت دوزخ، اچھا برا یہ فیصلے ہمارے کرنے کے نہیں؟ یہ صوابدید کسی اور کی ہے؟ آپ لوگوں کو قبر کی تنگی، اس میں موجود سانپ بچھووں سے تو ڈراتے ہیں لیکن انسان کو انسانیت سے پیار محبت کا درس کیوں نہیں دیتے؟

یہ سارے سوال آج بھی کل کی طرح ہمارے ذہن میں ایستادہ ہیں گو کہ بندہ کمینہ کو مسجد کے زیر سایہ سے نکلے تیس سال ہو گئے ہیں۔

خطبے کے موضوعات آج بھی وہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments