گوادر کی سسکیاں


زمین کے اندر جہاں جہاں فالٹ لائنز پائی جاتی ہیں وہاں زلزلے آتے ہیں، یہ زلزلے کبھی شدید تو کبھی کم ہوتے ہیں، کبھی کبھار یہ ریکٹر سکیل پر اپنی شدت زیادہ ظاہر کرتے ہیں تو کبھی کبھی کم۔ زیادہ شدت کا زلزلہ تباہی بھی زیادہ پھیلاتا ہے، زلزلہ زدہ علاقے سکون میں نہیں رہتے، آفٹر شاکس آتے رہتے رہتے ہیں، ان آفٹر شاکس کی وجہ سے زمین پر بسنے والے جاندار خوف میں مبتلا رہتے ہیں، ان کو ہر وقت خوف رہتا ہے کہ اب آیا کہ تب آیا

بلوچستان کی زمین زلزلوں کی وجہ سے مشہور ہے، وہاں اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں، 1935 میں سب سے خوفناک زلزلہ آیا تھا جس نے بہت تباہی مچائی تھی، حال ہی میں زیارت کی زمین بھی تھرتھرائی تھی جس نے زمین کے اوپر سب چیزیں ملیا میٹ کردی تھیں۔

زمین کے اندر آنے والے زلزلے تو قدرتی ہوتے ہیں، کچھ زلزلے سطح زمین کے اوپر بھی آتے ہیں جو انسانوں کے پیدا کردہ ہوتے ہیں، یہ زلزلے بھی اپنے پیچھے اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں، بلوچستان کی سرزمین پر بھی ایسے زلزلے آئے جس کے آفٹر شاکس آج تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ ایک فوجی آمر کے دور میں ڈیرہ بگٹی کے پہاڑوں میں آنے والا زلزلہ سب کچھ بدل کر رکھ گیا، اس نے وہاں کے باسیوں کو ریاست دشمن بنا دیا۔ اس آپریشن میں سابق گورنر مارے گئے۔ اس کے متعدد ساتھی نامعلوم غاروں میں دفن ہو گئے، اس کارروائی میں حصہ لینے والے افسر بتاتے ہیں کہ ”ہمارے ہاتھ سے وہ لوگ بھی مارے گئے جو ہماری مدد کرتے تھے“ ۔ اس آپریشن کی وجہ کیا تھی اس کی تفصیل میں جائے بغیر آگے بڑھتے ہیں۔

آج کل سمندر کنارے انسانوں کا سمندر موجود ہے، جسے زلزلہ تو نہیں ”سونامی“ کا نام دیا جاسکتا ہے، اس سونامی کی وجہ وہ محرومیاں ہیں جو حق داروں کو نہیں مل رہیں۔ روزی روٹی اور غیرت کا مسئلہ ہے جس نے اسلام آباد سے بیجنگ تک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ انسانوں کے اس سمندر کو ایک مولوی لیڈ کر رہا ہے، اس ایک مولوی نے وہ کر دکھایا ہے جو گیارہ جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم تین سالوں سے نہیں کر سکی۔ بات واضح ہے جہاں بات عوام کے حقوق کی آتی ہے تو عوام مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کو بھی لیڈر مان کر پیچھے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ اگر لیڈر ان ہی میں سے ہوتو سونے پر سہاگہ ہوجاتا ہے۔

گوادر کے مسائل ایک عرصہ سے ہیں، وہ اس پر بات کر رہے ہیں لیکن اس سے پہلے کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ ماہی گیری نہیں ان کا مسئلہ ڈویلپمنٹ کا ہے۔ وہاں کے احتجاج میں جان اس لئے پیدا ہوئی کہ ان کو ایک ترجمان مل گیا ہے۔ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کی آواز پر سب لبیک کہہ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی نے ایک ڈھنگ کا آدمی پیدا کیا ہے، اگر قومی سطح پر ایسا ڈھنگ لیڈر مل جائے تو ملک کے مسائل حل ہوجائیں۔ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ خود ایک ماہی گیر ہے، وہ انہی میں سے ہے۔ اس لئے لوگ اس کے ساتھ جڑ رہے ہیں۔

وہاں کے عوام کو سی پیک منصوبوں کے حوالے سے اطمینان نہیں ہے۔ مقامی لوگ فش ٹرالر مافیا سے نالاں ہیں۔ اصل ایشوز چار ہیں۔ ایک تو ٹرالر مافیا کو روکنا ہے، ٹرالرز مافیا میں سندھ اور بلوچستان کی با اثر شخصیات شامل ہیں۔ وہ نہ صرف مچھلیوں کا صفایا کر رہے ہیں بلکہ سمندری نباتات کو بھی برباد کر رہے ہیں، پینے کے پانی کا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، یہ اس لئے نہیں حل ہو پا رہا کہ وہاں ٹینکرز مافیا ہے اس میں بھی بڑی سیاسی شخصیات حصہ دار ہیں۔

ایران سے جڑے چار اضلاع کے روزگار کا مسئلہ بھی اپنی جگہ ہے، جن کی بجلی تک ایران سے آتی ہے، یہاں کے رہنے والوں کا ذریعہ معاش روک دیا گیا ہے، ۔ بارڈر کی سمگلنگ میں وہاں کے سیاستدان، ادارے شامل ہیں۔ بہتی گنگا میں سب ہاتھ دھو رہے ہیں۔ مظاہرین کا گلہ ہے کہ پوسٹیں صرف بھتہ لینے کے لئے بنائی گئی ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ بھتے اور کاغذی کارروائی کے نام پر جو کشتیاں، گاڑیاں پکڑی گئی ہیں ان کو چھوڑا جائے۔

سب سے بڑا مسئلہ قومی تشخص کا ہے، بلوچ قوم غیرت مند ہوتی ہے، وہ جگہ جگہ پر قائم پوسٹوں کی ذلالت سے تنگ آ گئے ہیں۔ وہ سکیورٹی پوسٹوں کا خاتمہ چاہتے ہیں

جس علاقے میں ترقیاتی کام شروع ہوں تو وہاں کے لوگوں کو اس کے فائدے میں شامل نہ کریں تو مقامی افراد میں غصہ بڑھتا ہے، فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے، یہ فرسٹریشن انقلاب بن کر ظاہر ہوتی ہے جیسا گوادر میں ہو رہا ہے، وزیر اعظم نے نوٹس لیا ہے تو اچھی بات ہے، امید ہے یہ نوٹس پہلے والے نوٹسز کی طرح نہیں ہو گا۔ عمران خان نے پہلے جن مسائل کو نوٹس لیا ان کا نتیجہ اچھا نہیں رہا۔ وزیر اعظم کو ان سے ہمدردی ہے تو وہ ایک فہرست چھاپ دیں کہ وہاں کی زمینیں کس کس کو الاٹ ہوئی ہیں؟

بڑے بڑے پردہ نشینوں کے نام شامل ہیں سب کھل کے سامنے آ جائے گا۔ دوسرا وہاں جو ترقی ہو رہی ہے مقامی آبادی کو بہت کم حصہ مل پا رہا ہے، ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کے لئے راستہ نہیں مل رہا، جگہ جگہ پر رکاوٹیں لگادی گئی ہیں۔ شاہراہیں بناتے وقت ان کو راستے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جو پورا نہیں ہوا، وزیر اعظم ان کو راستہ دے دیں۔

گوادر کی دیوار کے ایک طرف فائیو سٹار ہوٹل ہیں، جہاں زندگی کی ہر سہولت ملتی ہے، دوسری جانب پینے کے پانی کا مسئلہ ہے۔ ترقی کا یہ نظام کالونیل ہے۔ اس کی تبدیلی کی ضرورت ہے، یاد رہے کہ پرانے باسیوں کے قبرستان بنا کر نئے شہر نہیں بسائے جا سکتے، پرانے لوگوں کی قبروں پر جدید شہر بسا بھی لئے جائیں تو وہ دیر پا نہیں ہوتے۔ کسی کو دیوار سے لگانا مسئلے کا حل نہیں ہوتا، مشرقی پاکستان کو دیوار کے ساتھ لگایا گیا تو وہ بنگلہ دیش بن گیا، وہ آج ترقی کر کے معاشی میدان میں ہمیں مات دے چکا۔ ریاست کی اصل طاقت عوام ہیں، ریاست اپنے بچوں کا خیال نہیں رکھے گی تو زلزلوں اور طوفانوں کا سامنا کرتی رہے گی۔ ابھی وقت ہے فالٹ لائنز کو زلزلہ بننے سے روکا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments