ہم ہی جیتیں گے


ایک پرکشش اور امنگوں سے بھرپور نام، جسے سنتے ہی امن، آزادی، مساوات اور سماجی انصاف کے دلدادہ انسانوں اور انقلابی کارکنوں کے خون میں حرارت پیدا ہو جائے۔ ایک ایسی کتاب جو ریسرچ کرنے والوں کے لیے بھرپور مفاد فراہم کرے اور انقلابی کارکنوں کے لیے نظریاتی پختگی اور جدوجہد سے وابستگی میں اضافے کا سب بنے۔ ایک ایسا مصنف اور ہماری دھرتی کے ہونہار سپوت، بے لوث اور انتھک انقلابی، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے پانچ دہائیوں سے محو جدوجہد ہم سب کے پیارے کامریڈ اختر حسین کی اس دھرتی کے مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات، کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد پر مبنی تحاریر کا نچوڑ ہے۔ اس سادہ لوح اور منجھے ہوئے سیاسی کارکن نے اپنی اس کتاب ”سماجی تبدیلی کی سیاست“ کا انتساب بھی سماجی تبدیلی کے ضامن، محنت کش اور محنت کار عوام کے نام کیا ہے۔ پاکستان کا مروجہ سماجی نظام کیا ہے اور اسے کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے، اختر حسین کی اس کتاب کا موضوع ہے۔

اختر حسین کے مطابق کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کے لیے طویل اور کٹھن جدوجہد سے گزرنا پڑتا ہے۔ سماجی تبدیلی اچانک نہیں آتی بلکہ سماج میں تبدیلی کے عناصر آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہیں۔ سماج چونکہ طبقاتی، سیاسی، مذہبی، نفسیاتی تقسیم اور جبر کا شکار ہوتا ہے، لہٰذا اس میں بعض لوگ اس جبر کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ان باغی عناصر کو انتہائی مشکل اور کٹھن مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ مجرم اور باغی بھی گردانے جاتے ہیں، لیکن جوں جوں سماج میں ان کی جدوجہد کے نتیجے میں شعور بڑھتا ہے، معاشرہ تبدیلی کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔

لیکن اگر سماج شعوری طور پر ان تبدیلیوں کے لیے تیار نہیں ہوتا اور وہ اپنے پرانے سماجی تعلقات و روایات کے ساتھ جڑا رہتا ہے تو لوگ نئے خیالات و افکار و نظریات پیش کرنے والوں کے خلاف ردعمل میں بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اختر حسین کے مطابق اس کی اہم مثال افغانستان کا ثور انقلاب ہے، جہاں انقلابی عمل گو کہ بہت ترقی پسندانہ اور محنت کش و محنت کار عوام کے معاشی اور سیاسی مفاد میں تھا، مگر افغان معاشرہ اس کے لیے شعوری طور پر تیار نہ تھا۔

لہٰذا بڑی آسانی سے انقلاب دشمن قوتوں نے مذہب و روایات کے نام پر لوگوں کو انقلابی قوتوں کے خلاف مزاحمت و بغاوت کے لیے تیار کر لیا۔ اس لیے سماجی تبدیلی کے لیے عوام کو شعوری طور پر تیار کرنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے، جس کے لیے پہلے تو اپنے ملک کے طبقاتی، سیاسی و سماجی ڈھانچے کو سمجھنا ضروری ہے اور اس کے بعد اس میں تبدیلی کا مرحلہ آتا ہے۔

سیاسی جدوجہد کی مختلف سطحیں ہوتی ہیں اور ان کی سیاست کا حتمی ہدف پاکستان میں ایک ایسے سماجی، معاشی اور سیاسی نظام کا قیام اور نفاذ ہے، جو انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا خاتمہ کر دے۔ جو اس ملک کے تمام باشندوں کے لیے رنگ، نسل، جنس، مذہب، مسلک اور قومیت کی تفریق کے بغیر معاشی، سیاسی اور سماجی زندگی میں یکساں مواقع کی ضمانت ہو گا اور یہاں کسی ایک فرد کی دوسرے فرد پر حاکمیت کی گنجائش نہ رہے گی۔ وہ نظام مختلف زبانوں اور ثقافتوں کو پھلنے پھولنے کے یکساں مواقع کی ضمانت فراہم کرے گا۔

جنس کی بنیاد پر تفریق کو مٹا دے گا، مذہب کی آزادی کو یقینی بنائے گا، کوئی بھی عقیدہ یا نظریات اختیار کرنے کی آزادی دے گا، سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید ترین اوزاروں اور تحقیق کی مدد سے پاکستان کو ایک ترقی یافتہ صنعتی معاشرہ بنایا جائے گا، نیز ہماری زرعی معیشت کو صنعت کی سطح تک بلند کیا جائے گا تا کہ ہمارا ملک خوشحال بنے اور پاکستان میں رہنے والے کروڑوں مرد اور عورتیں عزت کی زندگی جی سکیں اور ان کی نفسیاتی، اخلاقی اور ثقافتی زندگی کی ترقی اور ترفع کے لیے روشن اور تابناک مستقبل کے امکانات پیدا ہوں۔

سماجی تبدیلی کی سیاست کی تقریب رونمائی 13 نومبر کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقد ہوئی تو میرے ایک محترم ساتھی پروفیسر ڈاکٹر رمضان بامری نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ہم ”سماجی تبدیلی کی سیاست“ کی تقریب رونمائی میں دوڑے دوڑے آرٹس کونسل پہنچے، جہاں اس کے مصنف اختر حسین ایڈووکیٹ نے بہت ہی قابل احترام شخصیات کو جون ایلیا لان میں اکٹھا کیا ہوا تھا۔ ہر طرف سرخ رنگ نمایاں تھا۔ تقریب میں ”سیاہ کوٹ“ والوں کی بھی البتہ کمی نہ تھی لیکن صاحب کتاب کے لیے وہ جو پھول لائے تھے، وہ سرخ گلاب کے تھے۔

اس تقریب سے مصنف کے علاوہ سابق چیرمین سینیٹ رضا ربانی، نامور ترقی پسند ادیب و دانشور ڈاکٹر جعفر احمد، ڈاکٹر ریاض شیخ، ڈاکٹر ایوب شیخ، نامور صحافی اور پی ایف یو جے کے راہنما مظہر عباس، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر احسن بھون ایڈووکیٹ اور عوامی ورکرز پارٹی پاکستان کے صدر و بزرگ سیاست دان میر یوسف مستی خان نے خطاب کیا۔ یہ سب جانے پہچانے مدبر، مفکر، دانشور، تجزیہ کار، ادیب اور سیاست دان ہیں اور ہمارے معاشرے کے وہ روشن چہرے ہیں، جو ملک میں رائج فرسودہ اور استحصالی سیاسی نظام کی تشکیل نو کر کے صحیح معنوں میں بنیادی سماجی تبدیلی برپا کرنے کے خواہاں ہیں۔

ان مقررین کی تقاریر کا نچوڑ جو کچھ کچھ ہم سمجھ سکے وہ یہ تھا کہ ہم اشرافیہ کی بنائی ہوئی اقدار کے تلے دبے ہوئے ہیں۔ قانون کا پلڑا ہمیشہ ان کی جانب ہی جھکتا ہے اور ڈنڈا چلتا ہے تو فقط غریب مزدور پر ۔ ہمارے معاشرہ کی سدھار اسی ذہنیت اور انہی منفی اقدار کی تبدیلی میں پنہاں ہے اور یہی سماجی تبدیلی کی سیاست ہے۔

اختر حسین 2 فروری 1946 ء کو جہلم کے چھوٹے سے گاؤں کلیہ کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری سکول میں حاصل کی تو اپنے قریبی گاؤں سنگھوئی کے مڈل سکول میں داخل ہو گئے، جہاں وہ اپنے اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی سربراہی میں اسکول کو مڈل سے ہائی کا درجہ دلوانے اور عمارت کی تعمیر کے لیے چندہ مہم میں سرگرم ہو گئے۔ اور پھر اسی اسکول سے میٹرک پاس کر کے مزید تعلیم کے حصول کے لیے کراچی منتقل ہو گئے۔

وہ 1963 ء میں اسلامیہ کالج کراچی میں زیر تعلیم تھے جب انہوں نے بطور طالب علم ملک میں مفت و لازمی تعلیم کے بنیادی حق کے حصول، طبقاتی نوآبادیاتی نظام تعلیم کے خاتمے، ملکی تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرانے اور طلباء کے دیگر مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1969 ء میں انہوں نے بی کام اور 1972 ء میں ایل۔ ایل۔ بی پاس کیا۔ 1971 ء میں اختر حسین اسلامیہ لا کالج کراچی کی اسٹوڈنٹس یونین کا انتخاب جیت کا یونین کے صدر اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی نائب صدر منتخب ہو گئے۔ 1973 ء میں انہوں نے کراچی میں ہی وکالت شروع کر دی۔ فروہ تعلیم مکمل ہونے کے فوراً بعد وہ عوامی ادبی انجمن اور ینگ رائیٹرز کے کام میں بھی پوری تندی سے شریک رہے اور ترقی پسند ادیبوں کی صف میں شامل ہو گئے۔

اختر حسین 1984 ء میں ڈکٹیٹر ضیا کے مارشل لاء کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کرنے، اور پھر 2007 ء میں پرویز مشرف کے مارشل لاء میں عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد کی پاداش میں کراچی سینٹرل جیل میں قید رہے۔ 1985 ء میں وہ کراچی بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری اور 2005 ء میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ 1992 ء سے 1998 ء تک سندھ بار کونسل کے رکن اور 1997 میں وائس چیرمین رہے۔ بعد ازاں 2010 ء سے 2020 تک پاکستان بار کونسل کے رکن اور 2012 ء میں اس کے وائس چیرمین منتخب ہوئے۔ 2019 سے 2021 تک دو سال کے لیے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے رکن رہے، جو اب بھی ہیں اور حکمرانوں و بیوروکریسی کی جانب سے عدلیہ پر حملوں اور کنٹرول کی کوششوں کے خلاف جوڈیشل کمیشن میں مضبوط آواز بن کے ابھرے ہیں۔

اختر حسین ڈیموکریٹک لائرز ایسوسی ایشن پاکستان کے جنرل سیکرٹری ہیں اور بائیں بازو کے وکلاء کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک لائرز کے ڈپٹی سیکرٹری رہے ہیں۔ وکلاء کی یہ بین الاقوامی تنظیم، اقوام متحدہ کو انسانی حقوق پر ایڈوائزری کے فرائض بھی ادا کرتی ہے اور 2000۔ 1995 ء تک عابد حسن منٹؔو اس تنظیم کے نائب صدر رہے تھے جبکہ نیلسن منڈیلا اس تنظیم کے اعزازی صدر تھے۔

اختر حسین نے عملی سیاست کا آغاز نیشنل عوامی پارٹی سے کیا، بعد ازاں اس پر پابندی لگی تو وہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور پاکستان نیشنل پارٹی سندھ کے صوبائی ڈپٹی جنرل سیکرٹری رہے۔ 1976 ء میں انہوں نے ڈاکٹر م۔ ر۔ حسان، لالہ لال بخش رند، فصیح الدین سالاؔر اور دیگر کے ساتھ مل کر کمیونسٹ لیگ تشکیل دی۔ ڈکٹیٹر ضیا کے سیاہ دور میں حکمرانوں نے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد رکھی اور امریکی سامراج کے زیر سایہ دہشت گردی کی نرسریاں بنانا شروع کیں تو ملک کے ترقی پسندوں میں اپنی بکھری ہوئی قوت کو یکجا کرنے کی کوششیں شروع ہو گیں۔

پہلے لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ بنا اور پھر 1988 ء میں کمیونسٹ لیگ اور عابد حسن منٹو کی سربراہی میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے انضمام سے تشکیل پانے والی پاکستان ورکرز پارٹی بنی تو اختر حسین اس کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ ترقی پسند قوتوں کو یکجا کرنے کا عمل جاری رہا اور 1992 ء میں پاکستان ورکرز پارٹی، قومی محاذ آزادی اور قومی انقلابی پارٹی کے انضمام سے عوامی جمہوری پارٹی تشکیل دی گئی۔ پھر 1999 ء میں عوامی جمہوری پارٹی، پاکستان نیشنل پارٹی اور سی۔آر۔ اسلم کی قیادت میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے انضمام سے تشکیل پانے والی نیشنل ورکرز پارٹی، 2010 ء میں نیشنل ورکرز پارٹی اور کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی کے انضمام سے تشکیل پانے والی ورکرز پارٹی پاکستان کے بالترتیب جنرل سیکرٹری اور بعد ازاں 1912 ء میں ورکرز پارٹی، عوامی پارٹی پاکستان اور لیبر پارٹی پاکستان کے انضمام سے تشکیل پانے والی عوامی ورکرز پارٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے بائیں بازو کی بکھری ہوئی قوتوں، سیاسی جماعتوں، ٹریڈ یونینوں اور دیگر ترقی پسند تنظیموں کو یکجا کر کے ایک منظم اور متحرک انقلابی تحریک پیدا کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔

مارکسی فکر اور محنت کش طبقے کی سیاست پر مبنی عوامی جمہوریت کے قیام، سیکولر ازم اور سماجی تبدیلی کی جدوجہد میں، طالب علمی سے لے کر جن رہنماؤں کے ساتھ مل کر انہوں نے سیاسی جدوجہد کی ان میں ڈاکٹر شیر افضل ملک، خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو، سردار عطا اللہ مینگل، اجمل خٹک، سردار شیر باز مزاری، سید قسور گردیزی، ڈاکٹر اعزاز نزیر، باجی نسیم شمیم ملک، شمیم اشرف ملک، ڈاکٹر م۔ ر۔ حسان، لال بخش رند، فصیح الدین سالار، عابد حسن منٹو، انیس ہاشمی، چوہدری فتح محمد، فانوس گجر اور یوسف مستی خان شامل ہیں۔

سماجی تبدیلی کی جدوجہد کامریڈ اختر حسین کی ایک ایسی تصنیف ہے جس میں ان کی پچاس برس سے زیادہ بھرپور عملی زندگی میں لکھے گئے مضامین سے انتخاب کیا گیا ہے، جن میں سے چند انگریزی میں لکھے گئے مضامین بھی ہیں، جن کا ترجمہ ترقی پسند دانشور اور عوامی ورکرز پارٹی کے راہنما اثر اماؔم نے بڑی مہارت کے ساتھ تحریر کی روح کے مطابق کیا ہے۔ یوں تو سب انقلابی ساتھی اختر حسین کو ان مضامین کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی ترغیب دیتے تھے، لیکن کراچی سے ہمارے کامریڈ حسن جاوید نے ترغیب سے بھی بڑھ کر ان کی عملی معاونت کی اور کتابی شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس کتاب میں پاکستان کے نامور ترقی پسند لکھاری اور دانشور ڈاکٹر توصیف احمد خان، ڈاکٹر ریاض شیخ اور ڈاکٹر جعفر احمد کے تبصروں پر مشتمل مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں، جبکہ اختر حسین کے دیرینہ ساتھی و راہنما عابد حسن منٹو علالت کی وجہ سے مضمون تو تحریر نہ کے سکے لیکن ان کا مختصر تبصرہ بڑی محبت سے کتاب کے ٹائٹل پر سجایا گیا ہے۔

محترمہ اقبال سلطانہ، جو ہماری سرگرم کامریڈ ہیں اور ہم سب انہیں احتراماً اقبال آپا کہتے ہیں، کامریڈ اختر حسین کی شریک حیات ہیں۔ اختر حسین نے ایک حقیقی ترقی پسند انقلابی ہونے کے ناتے اپنی کتاب کے تعارف میں ان کا بڑی محبت سے ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے زندگی کا جو زیادہ تر سفر طے کیا ہے اور جو کچھ سماجی تبدیلی کی جدوجہد میں عملی اور علمی حوالوں سے کردار ادا کیا ہے، وہ ان کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔ انہوں نے ہر قدم پر نہ صرف میری حوصلہ افزائی کی، بلکہ سیاسی زندگی میں مجھ سے سینئر ہوتے ہوئے بہت سارے پہلوؤں میں میری راہنمائی کی اور مجھے یقین ہے وہ آئندہ بھی ایسے ہی ساتھ دیتی رہیں گی۔

سماجی تبدیلی کی سیاست کو قارئین کی آسانی کے لیے آٹھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس کے پہلے حصے میں پاکستان کی سماجی صورت حال، سیاسیات اور نظری حوالوں سے گفتگو کے علاوہ سماجی تبدیلی کے لیے جس طرح کی سیاسی تنظیم درکار ہے، اس پر تفصیل کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔ اس حصے میں سماجی تبدیلی؛ پاکستان کا طبقاتی ڈھانچہ، جمہوری جدوجہد اور بائیں بازو کی سیاست؛ نظریہ پاکستان اور طبقاتی کشمکش؛ سیکولر ازم، مذہبی بنیاد پرستی اور ریاست کا کردار؛ لینن کی تخلیقی وراثت اور ہماری جدوجہد؛ قومی، لسانی اور مذہبی انتہاپسندی، پاکستانی سماج پر اس کے اثرات اور بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت؛ سیکولر اور یکساں نظام تعلیم ہی سماجی تبدیلی کی ضامن ہے ؛ موجودہ سیاسی رجحانات اور نوجوان؛ خواتین اور انسانی حقوق؛ اظہار رائے کی آزادی اور ریاستی اداروں اور کارپوریٹ میڈیا کا کردار؛ مسئلہ کشمیر، حق خودارادیت یا جہاد اور پاکستانی معیشت و سیاست پر اثرات اور بنیادی سماجی تبدیلی کے لیے انقلابی پارٹی کی ضرورت پر مضامین شامل ہیں۔

کتاب کے دوسرے حصے میں پاکستان میں فوجی آمریت کے ادوار میں سیاسی و جمہوری جدوجہد اور حکمران طبقے کی سیاسی پارٹیوں کے کردار کے حوالے سے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس حصے میں ضیا آمریت میں سیاسی جمود کے اسباب؛ جمہوریت کی بحالی کی تحریک کا جائزہ؛ حکومت، حزب اختلاف اور متبادل سیاست؛ پاکستان کا سیاسی بحران؛ میثاق جمہوریت، محض عہد یا حقیقی و عوامی جدوجہد؛ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت: سیاسی و جمہوری قوتوں کے لیے لمحۂ فکریہ؛ اور آزادی اور انقلاب شامل ہیں۔ کتاب کے تیسرے حصے میں پاکستان کی کثیر القومی ریاست میں وفاقیت اور قومی سوال؛ پاکستان میں وفاقیت اور قومی حقوق کے مسئلے پر بحث کی ضرورت؛ سرائیکی و ہزارہ صوبے کا مطالبہ؛ کالا باغ ڈیم، سندھ کے عوام کا اتحاد اور جدوجہد و مسائل کی عملی صورتوں پر بات کی گئی ہے۔

کتاب کے چوتھے حصے میں ملک میں انتہاپسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے سماجی و سیاسی اثرات؛ دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن اور ملک میں امن اور معاشی و سماجی ترقی؛ دہشت گردی اور نیشنل ایکشن پلان؛ افغانستان، طالبان اور بلوچستان؛ انسداد دہشت گردی کا قانون اور انسانی حقوق کی پائمالی؛ مہران نیول بیس پر دہشت گردوں کا حملہ اور ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ اور نتائج پر مضامین شامل ہیں۔ پانچویں حصے میں سول سوسائٹی اور این جی اوز کے کردار پر بات کی گئی ہے، جس میں سول سوسائٹی، این جی اوز اور سماجی تبدیلی کی منظم سیاسی جدوجہد؛ بدلی ہوئی دنیا میں عوام کو منظم کرنا اور ادارہ امن و انصاف اور جفاکش پر مضامین شامل ہیں۔

کتاب کے چھٹا حصہ آئین، اچھی حکمرانی، عدلیہ اور وکلاء کے کردار پر مشتمل ہے، جس میں آئین اور قانون کی حکمرانی میں وکلاء اور عدلیہ کے کردار اور اچھی حکمرانی کے تقاضوں پر رائے کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس حصے میں آئین، جمہوریت اور امتیازی قوانین؛ اٹھارہویں آئینی ترمیم اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا سوال؛ آئینی اصلاحات اور وفاقی شرعی عدالت؛ گڈ گورنس، بار اور عدلیہ کا کردار؛ سماجی حقوق اور عدلیہ کی آئینی ذمے داریاں ؛ انسانی حقوق اور وکلاء برادری؛ حکمران طبقات، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا کردار؛ عوام کے بنیادی حقوق پر گلوبلائزیشن کے اثرات؛ انصاف پر مبنی بین الاقوامی قانونی نظام کے قیام کی ضرورت اور انصاف سب کے لیے شامل ہیں۔

کتاب کا ساتواں حصہ سامراجیت اور قوموں کا حق خود اختیاری، جمہوریت اور معاشی ترقی پر بحث کرتے ہوئے بین الاقوامی طور پر امن اور آزادی کی تحریکوں اور سامراجیت کے خلاف مشترکہ قدروں اور جدوجہد کا احاطہ کرتا ہے۔ اس حصے میں عوامی جمہوریہ کیوبا کی معاشی ناکہ بندی کے چالیس سال اور امریکی جمہوریت کا اصل چہرہ؛ ایشیاء میں جمہوریت، ترقی اور امن کانفرنس؛ فلسطین پر اسرائیل کا نوآبادیاتی تسلط، عرب منصوبہ، فلسطینیوں کی ایک اور فتح؛ سعودی یمن تنازعہ اور پاکستان کا کردار اور مصر میں فوجی مداخلت، جمہوریت اور سماجی تبدیلی شامل ہیں۔

کتاب کا آٹھواں اور آخری حصہ کچھ جانے والوں کے نام ہے جس میں مصنف اختر حسین کے دیرینہ ساتھیوں، بالخصوص جسٹس صبیح الدین احمد، مارکسی راہنما فصیح الدین سالار، کسان راہنما کامریڈ چوہدری فتح محمد اور ہاری راہنما کامریڈ حسن عسکری کی زندگی اور جدوجہد پر مشتمل مضامین شامل ہیں ؛ جبکہ کتاب کے آخر میں سماجی تبدیلی کے لیے اس کمٹمنٹ اور یقین کا اظہار شامل ہے کہ ہم ہی جیتیں گے۔

اختر حسین لکھتے ہیں کہ اپنی جدوجہد کے اوائل میں درمیانے طبقے کے فرد کی حیثیت سے تعلیم، روزگار، معاشی و سماجی محرومیوں کا شکار ہونے کی وجہ سے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس کے وہ بعد ازاں مرکزی نائب صدر بھی رہے۔ این ایس ایف کے ساتھیوں، بالخصوص ڈاکٹر شیر افضل ملک، ڈاکٹر جسیم پاشا اور ڈاکٹر قمر عباس ندیم کا مشکور ہوں جنہوں نے انہیں سماج کو سمجھنے کی سائنس سے روشناس کرایا اور مارکسی نظریات، تاریخی و جدلیاتی مادیت کے علم کے حصول اور میرے اندر اس سماج کو بدلنے کی جدوجہد سے کمٹمنٹ پیدا کی۔

ان علوم سے شناسائی نے انہیں یہ سمجھنے کا شعور دیا کہ پاکستانی سماج میں جہاں ایک طرف جاگیرداری و قبائلی باقیات اور بڑی زمینداریاں ہیں تو دوسری طرف سرمایہ دارانہ استبداد اور لوٹ کھسوٹ، جو بین الاقوامی طور پر عالمی سامراجیت کے ساتھ نتھی ہے اور اس گٹھ جوڑ کی محافظ مقامی طور پر سول و فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ تیسرا اس کثیر القومی مملکت میں بسنے والی قومیتیں اپنے معاشی، تہذیبی و ثقافتی حقوق سے محروم ہیں اور اس سماج کو جوں کا توں رکھنے کے لیے مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا پاکستان میں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال اور استبداد سے محنت کش طبقے اور سارے محنت کار یعنی کام کرنے والے و ملازمت پیشہ عوام کی مکمل رہائی کے لیے یہاں ایک غیر طبقاتی سماج کی تعمیر، سیاسی اقتدار پر محنت کشوں کے مستقل اور مستحکم قبضے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

نامور مارکسی دانشور، محقق، استاد، قانون دان اور عوامی ورکرز پارٹی کے بانی صدر استاد محترم عابد حسن منٹو نے اختر حسین کی کتاب ”سماجی تبدیلی کی سیاست“ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان کے کثیر التشکیلاتی سماج میں، جہاں ماضی کی نوآبادیاتی معیشت کے تحت مختلف علاقوں میں سرمایہ داری کے نامساوی ارتقا کے باعث اب بھی جاگیرداری و قبائلی باقیات سے لے کر سرمایہ دارانہ طریقۂ پیداوار تک مروج ہے، جہاں زمین سے وابستگی کے باعث اور قوم پرستی کے اثرات کی وجہ سے محنت کش طبقے کا طبقاتی شعور ابھی بھی ناپختہ ہے اور ان کی سیاسی تنظیم انتہائی کمزور اور ان میں کلاسیکی معنوں میں پرولتاریہ کی تعداد بہت کم ہے۔ ایسے پسماندہ اور پیچیدہ سماج میں سامراج سے اس ملک کی معاشی آزادی، جس کے لیے سیاسی و معاشی اقتدار پر محنت کش طبقے اور محنت کار عوام کا غلبہ ناگزیر ہے، وہ ایک قومی و جمہوری انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

عابد حسن منٹو جی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ پونے چار سو صفحات پر مشتمل اختر حسین کے مضامین، بیانات اور عملی کاروائیوں کا یہ مجموعہ بہت ہی بروقت شائع ہو رہا ہے۔ یہ وقت وہ ہے جب پوری دنیا زبردست اتھل پتھل کا شکار ہے۔ صرف کرونا وبا کی وجہ سے نہیں بلکہ معاشی، سماجی اور اخلاقی طور پر بھی سرمایہ دارانہ نظام، جو اب بھی دنیا کا غالب نظام ہے، ایک طرح پسپائی کا شکار ہے اور تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے۔ ایسے میں ہمارے ملک میں بھی پچھلے چند سالوں میں ”غیر مانوس“ سیاسی عناصر کی طرف سے تبدیلی کا نعرہ لگایا گیا اور اقتدار حاصل کیا اور اسے تبدیلی کی طرف ایک قدم کہا گیا۔

اختر حسین اسے تبدیلی نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک پاکستان میں کوئی معنی خیز تبدیلی یہاں کے سماجی نظام کو بدلے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کا مروجہ سماجی نظام کیا ہے اور اسے کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے، اختر حسین کی اس کتاب کا موضوع ہے۔ ان کا کہنا ہے : ”لہٰذا موجودہ حالات میں یہ ایسی تبدیلی کی جدوجہد ہے جو ایک قومی اور جمہوری انقلاب سے ہی ممکن ہے اور یہ انقلاب نام ہے محنت کشوں سمیت تمام سامراج دشمن عوام کے جمہوری اقتدار کا ، جو سامراج اور اس کے جدید نوآبادیاتی نظام سے ملک کی معاشی آزادی کے قومی مفاد کی تکمیل کا واحد ذریعہ ہے۔“

اختر حسین لکھتے ہیں کہ انقلابی سیاست کی عملی جدوجہد میں یہ بھی سمجھنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف یہاں مزدور طبقے کی جدوجہد کو جن مراحل سے گزرنا پڑ رہا ہے اور آئندہ بھی گزرنا ہو گا، وہ گونا گوں بھی ہیں اور عالمی سامراج کی وجہ سے بھی، جو اس بحرانی کیفیت میں بھی محنت کش طبقے کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے اور جس کی جڑیں پیچ در پیچ پورے سماج میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس لیے اس ملک کی ٹھٹھری ہوئی معیشت اور سامراج کے نوآبادیاتی تسلط سے چھٹکارا انتہائی پیچیدہ اور کٹھن ہے، اور محنت کش طبقے سمیت سارے محنت کار عوام کو طبقاتی و سامراجی استحصال سے نجات دلانے کی جدوجہد کرنا بنیادی طور پر مزدوروں اور ان کی معیت میں کسانوں کا کام ہے۔

ملک کے اندر سامراجی و سرمایہ دارانہ استحصال کا سارا بوجھ سماج کے مختلف طبقوں اور پرتوں میں سے ہو کر آخر میں معیشت کے اصل پیدا کاروں، پہیہ چلانے والے مزدوروں اور ہل و ٹریکٹر چلانے والے کسانوں کے سر پر آ پڑتا ہے۔ ملک کی اندرونی اور بیرونی قوتوں کے اسی استحصال کو قائم رکھنے اور اس کو پھیلانے اور گہرا بنانے کے لیے ان محنت کشوں کو سیاسی اور شہری حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے، جو ان کی معاشی خوشحالی، سیاسی آزادی اور سماجی ترقی کے ناگزیر ذرائع ہیں۔

سماجی تبدیل کی عملی جدوجہد بارے اختر حسین لکھتے ہیں کہ یہ محنت کش طبقہ ہی ہے جو محنت کار عوام کے مختلف طبقوں، پرتوں اور مختلف قومیتوں کے مظلوم عوام کو ان کے باہمی اختلافات اور تضادات کے باوجود سامراج اور اس کے جدید نوآبادیاتی نظام سے ان کے مشترکہ تضاد کی بنیاد پر جوڑے رکھتا ہے۔ اس لیے یہ انقلابی جمہوری و سماجی تبدیلی کی جدوجہد آخری تجزیے میں محنت کشوں کی طبقاتی لڑائی ہے، جو معاشی و سیاسی آزادی کے لیے انہیں اپنے حلیفوں سے مل کر لڑنا ہے اور آخری مرحلے میں ریاستی اقتدار میں محنت کشوں کی قائدانہ شرکت سے ہی ممکن ہے۔

یہ سامراجی استحصال سے قومی و معاشی آزادی کا مرحلہ ہے۔ سماج کے اندر سے سرمایہ دارانہ استحصال سے مکمل نجات کی منزل نہیں ہے، یہ سرمایہ داری سے اشتراکیت کی طرف ناگزیر پیش قدمی ہے۔ اشتراکیت پذیر جمہوریت، ایک مکمل اشتراکی انقلاب نہیں ہے، جو کہ ہماری اگلی منزل ہے اور جہاں سے ایک غیر طبقاتی سماج کے قیام کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں، جس میں انسان کو سرمایہ دارانہ نظام کی غلامی سے نکال کر حقیقی انسانی آزادی میسر آ سکے اور بشری قدریں بحال ہو جائیں۔ یہی بشر کی آزادی اور تعمیر نو مارکس کے نزدیک تاریخی ارتقا کا اگلا قدم ہے۔

پاکستان ایک کثیر الاقوامی ملک ہے۔ طبقاتی طور پر یہاں ایک طرف جاگیرداری باقیات، بڑی زمینداریاں، قبائلی باقیات موجود ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سرمایہ داری، سامراجیت اور اس کے اداروں ورلڈ بینک، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، ایشیائی ترقیاتی بینک کے تحت سرمایہ دارانہ ترقی جاری ہے اور اس سامراجی چھتری میں پنپنے والے معاشی نظام میں محنت کش طبقے اور پورے محنت کار عوام ظلم، جبر اور بد ترین معاشی استحصال کا شکار ہیں، اور وہ انسانی زندگی کے بنیادی حقوق یعنی تعلیم، صحت، روزگار اور رہنے کی چھت سے محروم ہیں۔ دوسری طرف کثیر الاقوامی ملک ہونے کے ناتے اس ملک میں بسنے والی مختلف اکائیاں سندھ، پنجاب، بلوچستان، پختونخوا ، سرائیکی وسیب وغیرہ اپنے معاشی، ثقافتی، لسانی اور تہذیبی و سیاسی حقوق سے محروم ہیں، اور قومی حق خود اختیاری کی بنیاد پر اپنے وسائل پر قدرت اور برابری کی بنیاد پر ترقی چاہتے ہیں۔

اس ملک کے تمام محنت کار عوام موجودہ معاشی و سیاسی صورت حال میں سماجی تبدیلی چاہتے ہیں۔ اس طرح کا معاشرہ قائم کرنے کے لیے ظاہر ہے کہ ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ، گروہ اور سیاسی عناصر، جن کے مفادات اس بدعنوان، استحصالی اور غیر انسانی نظام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور جو یا تو اس نظام ہی کی پیداوار ہیں یا پھر اس نظام کی بدولت زندہ سلامت اور معاشرے پر مسلط ہیں۔ ان میں یہ اہلیت ہی نہیں ہے کہ متذکرہ بالا خوشحال اور مستحکم پاکستان کے لیے کوئی کردار ادا کر سکیں۔

اس کے برعکس یہ ان کروڑوں انسانوں کی ذمہ داری ہے اور فطری ضرورت ہے جو مختلف قسم کی پیداواری سرگرمیوں میں ملوث ہیں، جو کھیتوں، کارخانوں، دفتروں، چھوٹے اور درمیانی کاروباری اداروں اور صنعتوں، تعلیمی، تکنیکی اور سائنسی اداروں اور ذہنی مشقت کے کاموں میں مصروف کار ہیں کہ ایک خوشحال اور مستحکم پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو، کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جن کا اپنا مستقبل بھی ملک کی خوشحالی اور اس کی جمہوری ترقی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ وہ سماجی عدم تحفظ، بدعنوانی، نوکر شاہانہ ظلم و تشدد و نیز سامراج اور اس کے مقامی گماشتہ اجارہ داروں کے جبر و استحصال کا سب سے زیادہ اور بد ترین ہدف بنتے ہیں۔

پاکستان کی آزادی سے لے کر آج تک ہمارا ملک سیاسی و معاشی دباؤ اور افراتفری کا تختۂ مشق بنا ہوا ہے۔ غربت، جہالت، پسماندگی، بدعنوانی، لاقانونیت، اخلاقی زوال اور دیگر بے شمار برائیاں جو ہمارے معاشرے میں وافر مقدار میں موجود ہیں، اس جدید نوآبادیاتی نظام کی پیدا کردہ ہیں۔ آج پاکستان کے اندر جو لوگ پر امن ماحول میں رہ رہے ہیں، آنے والے دنوں میں اس کے امکانات رفتہ رفتہ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ مذہبی بنیاد پرستی کو بڑھاوا دے کر معاشرے کو مزید زوال پرستی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔

بنیاد پرستی اور موقع پرستی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ پاکستان کے عوام اس ظلم سے نجات چاہتے ہیں۔ اس لیے جب تک ہمارے ملک میں اور اس میں رہنے والے عوام کو جدید نوآبادیاتی نظام کی زنجیروں اور اس نظام کے چار خونخوار بلاؤں، امریکی سامراج، جاگیردارانہ نظام، گماشتہ سرمایہ دار طبقہ اور سول و فوجی افسر شاہی سے نجات نہیں دلائی جاتی، ہم سیاسی خود مختاری، جمہوریت اور خوشحالی کی راہ پر قدم نہیں رکھ پائیں گے۔

اس لیے یہ ہمارا اولین فریضہ ہے کی اپنے لوگوں کو ترقی کی شاہراہ پر لے آئیں۔ ایسا اسی صورت ممکن ہے کہ جب جدید نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے، تا کہ استحصال سے پاک معاشرے کی مادی بنیادیں فراہم کی جا سکیں۔ پاکستان کا مستقبل صرف اسی صورت میں محفوظ بنایا جا سکتا ہے جب ہم اپنے وطن کو ایک روشن، ترقی پسند اور آئیڈیل مستقل دینے کے لیے عوام کو منظم اور ان کا سیاسی اور سماجی شعور اجاگر کریں۔ اس طرح ہم اپنی آئندہ نسلوں کو وہ ضروری بنیادیں فراہم کر سکتے ہیں، جن پر چل کر جبر و استحصال سے پاک معاشرے کی عمارت تعمیر کی جا سکے اور یہی سماجی تبدیلی کی بنیادیں ہیں۔

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں۔

pervez-fateh has 55 posts and counting.See all posts by pervez-fateh

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments